یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم

Spread the love

یونیورسٹی جاتے علما! ایک تجزیہ (قسط چہارم )

تحریر :محمد زاہد علی مرکزی

چیرمین : تحریک علمائے بندیل کھنڈ

علما اور معاشیات :ماہنامہ پیغام شریعت میں شائع مضمون. ملاحظہ فرمائیں (اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں )

اعتراض (6)

اشرفیہ اور دیگر اچھے مدارس کے اول نمبر کے فارغین بھی بے روزگار ہوتے ہیں، مدارس میں تعصب کی بنیاد پر اساتذہ کی تقرریاں ہو رہی ہیں، اکثر علما جو یونیورسٹی نئے گئے مسلکی معاملات میں غیر ضروری انتہا پسندی کے شکار دیکھے گئے ہیں۔ امامت اور تدریس سے وابستہ اکثر علما بھی اپنے کام کو کار ثواب نہیں بلکہ نوکری کی طرح دیکھتے ہیں۔ ڈریم اا کھیلتے ہیں جو کہ حرام ہے۔ گاؤں میں اماموں کی ہسٹری نکالی جائے تو اکثر کو معاشقہ کی وجہ سے نکالا جاتا ہے، جہیز کی لعنت برقرار ہے وغیرہ وغیرہ

جواب : مذکورہ اعتراضات دیکھ کر بے ساختہ ہنسی نکل جاتی ہے،ان کا جواب دینا بھی بے کار ہی ہے، لیکن کچھ تو ہونا ہی چاہیے ورنہ یہ ہوگا کہ جواب نہیں بن پڑا – اول نمبر کے فارغین کہاں بے روزگار ہوتے ہیں ذرا نشان دہی کی جائے؟ ان کی بکنگ تو پہلے ہی ہوجاتی ہے، ہاں مشاہرے پر بات نہ بنتی ہو یہ الگ بات ہے، اگر مدارس میں تعصب کی بنیاد پر تقرریاں ہو رہی ہیں تو کیا آپ اس کے مقابلے علم دین ہی کو چھوڑ دیں گے؟ کیسی سطحی بات ہے، اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔

یہ کہنا کہ امامت و تدریس سے وابستہ حضرات کار ثواب نہیں نوکری کی خاطر خدمات انجام دیتے ہیں، یہ آپ جیسے بالغ نظر، دور رس، جہاں دیدہ اور دانش مندوں کا ہی خاصہ ہے، جب تک مدارس میں تھے سب جائز تھا جیسے ہی نکلے سب حرام و ناجائز ہوگیا – نظام زکات پر سوال اٹھانے والے خود یونیورسٹی تک زکات کھا کر، داخلہ فارم میں غیر مستطیع لکھ کر ہی پہنچے ہیں –

خیر! یونیورسٹی کے محققین یہ بتائیں کہ کیا فقہا نے امامت و تدریس کے لیے معاوضے کو جائز قرار نہیں دیا؟ کیا علما فرشتے ہیں جو خدمات بھی انجام دیں اور نذرانہ بھی نہ لیں، کیا ان کے لیے صبح و شام آسمان سے من و سلوی نازل ہوتا ہے؟ کیا پروفیسر حضرات بغیر تنخواہ کے پڑھاتے ہیں؟ اگر علما کی خدمات نوکری کی خاطر ہیں تو آپ لوگ باگ ڈور کیوں نہیں سنبھالتے؟ تاکہ اچھے لوگ امامت و تدریس سے وابستہ ہوں اور معاشرہ درست راہ پر آئے ۔

اب دیکھیے جہیز کی لعنت کا طوق بھی علما کے گلے ڈال کر یہ طبقہ کتنی آسانی سے دور کھڑا ہوگیا ہے، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے “بھُس (بھوسے) میں آگ لکا کر جمالو دور کھڑی ہیں” ارے بھئ! علما کوئی حاکم ہیں جو زبردستی کسی کو روک سکیں، وہ تو اللہ و رسول کے احکام بیان کر دیتے ہیں اب تسلیم یا انکار عوام پر ہے، موجودہ دور میں تو مسائل بتانا بھی علما کو دشوار ہوتا ہے کیوں کہ آپ جیسے ہمدردان قوم وملت مسائل میں بھی اپنی رائے برتر سمجھتے ہوئے عوام کو علما سے بد ظن کرتے ہی دکھتے ہیں، اچھا چلیے علما کی غلطی تسلیم کیے لیتے ہیں لیکن یہ تو بتایا جائے کہ آخر اس سمت قوم کے ہمدرد حضرات نے کہاں کہاں جھنڈے گاڑے ہیں؟ کتنے پروفیسر حضرات نے جہیز کے خلاف مہم چلائی ہے یا خود جہیز نہ لے کر مثال پیش کی ہے؟ اپنے آپ کو بڑا مہذب سمجھنے والے حضرات کی زبان دیکھیے،، اکثر ائمہ معاشقہ کے سبب نکالے جاتے ہیں ” تنقید کو اپنا حق سمجھنے والے خود پر ذرا سی تنقید برداشت نہ کر سکے اور ذاتیات پر حملہ آور ہونے لگے، حالانکہ یہ سفید جھوٹ بھی ہے اور الزام بھی، لیکن اب ہم سے پروفیسرز کے کچھ سچی خبریں ضرور سن لیجیے-

مشہور نیوز پورٹل” دی وایر” 16 ستمبر “2019 کو لکھتا ہے” بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے شعبہ حیوانیات کے پروفیسر ایس کے چوبے کو ان پر لگےجنسی استحصال کے الزامات پر یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کاؤنسل کے ذریعے آخری فیصلہ لئے جانے تک چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ پروفیسر چوبے پر کئی طالبات نے جنسی استحصال ، فحش حرکتیں، بد تمیزی اور نا مناسب تبصرے کرنے کے الزام لگائے تھے، جس کی شکایت کے بعد یونیورسٹی کی آئی سی سی نے پروفیسر چوبے کو مجرم پایا تھا “- 30 اکتوبر 2019 ٹائمس آف انڈیا لکھتا ہے

اتراکھنڈ کے ایک ڈگری کالج میں 27 طالبات نے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پر ریاست کے ہائر ایجوکیشن ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس سی پنت کو لکھے گئے خط میں طالبات نے کہا ہے کہ کامرس ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کے طور پر کام کرنے والےپروفیسر اکثر کالج نہیں آتے۔ وہ ڈیوٹی کے دوران شراب پیتے ہیں اور اسائنمنٹ (مفوضہ)کے نام پر طالبات کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ طالبات سے پیسے لیتے ہیں اور پیسے نہیں دینے پر فیل کر دیتے ہیں یا فیل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں –

12 مارچ 2022 بھوپال -نیوز پیپر (سیاست) اخبار لکھتا ہے بھوپال نیشنل لاء یونیورسٹی (NLIU) کے تقریباً 500 طلبہ نے پروفیسر تپن رنجن موہنتی پر جنسی استحصال کا الزام لگاتے ہوئے ان کے کیبن کے باہر گھیراؤ کیا، جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا ۔ اس معاملے کو لے کر وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ کی گئی۔اس میٹنگ میں NLIU کی طلبہ تنظیم نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ ڈی جی پی اور بھوپال کمشنر کو تحقیقات کرنے اور متعلقہ ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

علما، ائمہ پر معاشقہ کا الزام لگانے سے پہلے اگر اپنی برادری کو دیکھ لیا ہوتا شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے

نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

 

پروفیسر حضرات کے لیے جو کچھ پیش ہوا اسے آغاز باب ہی سمجھیے، تھوڑی محنت کریے اور انٹرنیٹ پر خود دیکھ لیجیے – دِل ہَمَہ داغ داغ شُد پُن٘بَہ کُجا کُجا نِہم – اب چند باتیں طلبائے مدارس سے بھی کئے لیتے ہیں، اگر آپ نے مکمل مضمون پڑھا تو آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ یونیورسٹی کے طلبہ کے سبھی سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے گیے ہیں، ہٹ دھرمی کی بنا پر قبول نہ ہو یہ الگ بات ہے –

یہاں تک آتے آتے یہ بات واضح ہوگئی کہ مدارس کے طلبہ کا یونیورسٹی جانا دینی خسارہ تو ہے ہی دنیوی فائدہ لازم ہو یہ بھی ضروری نہیں ہے، ہزار میں سے چند ایک کو اگر نوکری مل بھی جاتی ہے تو اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہے، ایسی تعلیم جس سے مذہب بیزاری آئے اس سے بہتر ہے کہ آدمی جاہل ہی رہے، لیکن پھر بھی اگر آپ یونیورسٹی جانا ہی چاہتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ فاصلاتی نظام تعلیم ایک بہتر بدل ہے، آپ گھر بیٹھے ڈگری بھی حاصل کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ اپنی ملازمت کی راہ آسان بنا سکتے ہیں اور علم دین سے دوری بھی نہ ہوگی

ہم چاہتے ہیں کہ علما دین سے جڑے رہ کر دیگر شعبوں میں کام کریں نہ کہ دین چھوڑ کر، موجودہ دور میں ٹیکنیکل لائن بھی آپ کے لیے بہتر ہے، دینی کتب کی اشاعت، پروف ریڈنگ، ٹائپنگ، ڈیزاننگ، کمپیوٹر کلاسس وغیرہ بہت سے متبادل ذرائع ہیں جہاں علما اپنے وقار اور تشخص کے ساتھ اپنا کام کرسکتے ہیں۔

زبان : علما کئی سال عربی، فارسی پڑھتے ہیں، لیکن قادر الکلام نہیں ہو پاتے ایسے میں اگر کچھ وقت وہ جدید عربی/فارسی سیکھنے کی کوشش کریں تو روزگار کے بہت سے مواقع ہیں، چوں کہ ان دونوں زبانوں سے علما کا تعلق سالوں رہتا ہے اس لیے دو سے تین ماہ بہت زیادہ چھ ماہ میں علما ان دونوں زبانوں میں خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

ہر زبان کے قواعد قریب یکساں ہی ہوتے ہیں اس لیے کافیاں آسانی کے ساتھ علما ان زبانوں پر ل عبور حاصل کر سکتے ہیں، اس کا دنیوی فائدہ تو جو ہوگا وہ ہوگا ہی، دینی فائدہ بھی کافی ہوگا، عربی کتب بآسانی سمجھ آئیں گی، دین سے لگاؤ زیادہ ہوگا، اچھی عربی کتب کے تراجم کر سکیں گے جس سے امت مسلمہ کا فائدہ ہی ہوگا، عوام کی نظر میں بھی آپ کی حیثیت باقی رہے گی جو کہ یونیورسٹی کے بعد والی حکومتی ملازمت میں قریب قریب نا ممکن ہے کیوں کہ پھر آپ کا تشخص دینی نہ رہ کر دنیاوی ہو جاتا ہے –

صرف یہی نہیں کوئی بھی زبان اگر آپ سیکھ لیتے ہیں تو آپ اچھے مشاہرہ پر گھر بیٹھے آن لائن بھی کام کر سکتے ہیں اور فیلڈ پر بھی، آج ایمزون، فلپ کرٹ، علی بابا وغیرہ جیسی سیکڑوں ملکی غیر ملکی کمپنیاں ہیں جہاں آپ کام کر سکتے ہیں نیز دہلی، گڑگاؤں ،نوئڈا جیسے شہروں میں مہیندرا، بجاج، ہیرو، ہونڈا جیسی سیکڑوں کمپنیاں ہیں جہاں عربی فارسی کے علاوہ دنیا کی مختلف زبانوں کے جانکاروں کی ضرورت رہتی ہے

چائنیز، رشین، جرمن، فرنچ وغیرہ زبانیں آج بھی دنیا بھر میں بے شمار مواقع رکھتی ہیں، یہاں بھی آپ دنیا کے ساتھ دین کا کام کر سکتے ہیں ، دینی کتب کا چائنیز، رشین، جرمن، فرنچ میں فقہ حنفی کے مطابق روز مرہ کے مسائل پر مفید چھوٹی چھوٹی کتب کا ترجمہ کر کے دنیا بھر میں شائع کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کتابچے، رسائل جاری کر سکتے ہیں اسلام کا پیغام ان تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں، وہاں سے آن لائن پیسہ بھی کما سکتے ہیں، اس طرح دین اور دنیا کے کام کرسکتے ہیں –

آخری بات : فاصلاتی نظام تعلیم کے متعلق یونیورسٹی سے منسلک اکثر حضرات کا یہ ماننا ہے کہ جب تک ہم ان میں رہیں گے نہیں ان کے اعتراضات کے جوابات کیسے دیں گے؟ اس کا جواب ہم اوپر دے چکے ہیں پھر بھی ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ ان کے اعتراضات کے جوابات کے لیے اہل سنت کے جوانوں کو یونیورسٹیز کے کیمپس میں ہی معمر علما کے ماہانہ درس جیسے درس قرآن، درس حدیث، اسلام پر اعتراضات اور جوابات کے نام پر پروگرام رکھنا چاہیے

تاکہ وہاں اہل سنت کی نمائندگی بھی بنی رہے اور اہل سنت کے نوجوانوں کا ایمان بھی سلامت رہے، اور نوجوانوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات بھی دفع ہوتے رہیں ۔

یونیورسٹی جاتے علما ! ایک تجزیہ

 بہت ہی عمدہ معلوماتی قسط وار مضمون 

19 thoughts on “یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *