خدایا رحم کن بر ترکیہ و مسلماناں
اللہ اللہ! ابھی ترکیہ میں ہوۓ زلزلے کی تباہی و بربادی پر سوچتے سوچتے یو ٹیوب کھول ترکی کے اپ ڈیٹ حالات پر نیوز دیکھنے لگا۔
اللہ اکبر! دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔بدن پر ارتعاش طاری ہو گیا۔ہاتھ کی انگلیوں میں لرزیدگی عیاں تھی۔دل ڈوبنے لگا۔
یہ زلزلہ تھا یا تباہی، سوچ کر عقل ماقوف ہے۔اس قدر شدید زلزلہ تھا کہ ہزاروں عمارتیں زمین دوز ہو چکی ہیں۔ان میں رہنے والے ہزاروں لوگ ملبے کی چپیٹ میں آ کر موت کا لقمہ بن چکے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں زلزلے کا مطلب بھی پتہ نہیں ہوگا بکھرے ملبوں میں ان کی لاشیں تلاشی جا رہی ہیں۔لوگ بلند بانگ عمارتوں کی ڈھیر تلے اپنوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
ہر طرف ایک خوف و ہو کا عالم ہے۔بچے جو شدید زخمی ہوئے ہیں چیخ و پکار کر رہے ہیں۔اتنا بھیانک منظر دیکھ کر کسی بھی انسان کا دل سہم اٹھے گا۔
کسی سخت جان آدمی کے اندر بھی خوف گھس جاۓ گا۔وہ منظر جو بروز حشر برپا کیا جاۓ گا اگر اس کے نظارے گاہے بگاہے دکھنے لگیں، انسانیت مارے خوف کے بے ہوش ہو جاۓ۔زندگی کے قرار و وجود سے ہی بھروسہ اٹھا لے۔
پھر تو ناامیدی و مایوسی چھا جاۓ گی ہر طرف بے اعتمادی گھر جاۓ گی۔خدایا رحم کن و شہر ہستی آباد کن۔
یہ زلزلہ قیامت کا ہی حصہ ہے۔ہم آپ اسے قیامت صغری سے تعبیر کریں گے مگر ان سے پوچھئے جن کے اپنے اس زلزلے کی نذر ہو گئے۔جن کے معصوم سے بچے ملبوں کی ڈھیر تلے دبے پڑے ہیں۔جن کی سوتے ماں باپ کے اوپر گھر کی مضبوط چھت آ گری۔
جن کے جگر پاروں کی مسکراہٹیں ٹوٹی دیواروں، درکتی چھتوں، بے بنیاد ہوتے ستونوں کے درمیان غائب ہو گئیں۔
ان کے لیے یہی قیامت کبری تھی۔بچے لوگوں کی زندگی شاید پٹری پر لوٹ آۓ مگر یہ خطرناک و ہیبت ناک منظر بھلاۓ نہیں بھولیں گے۔وقت کا یہ خوفناک منظر کب اپنا مزاج بدلے کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔
خدایا ہم تیرے کمزور سے بندے ہیں۔ہم میں قیامت کا منظر دیکھنے کی نہ طاقت ہے نہ حوصلہ ہے۔ہم دوسرے کے لیے لاکھ سخت دل سہی
مگر ایسے مناظر سے ہم ٹوٹ سے جاتے ہیں۔خدایا یہ تیری ہی کائنات ہے تیری کی صناعی ہے۔اس میں بسنے والی مخلوقات کے ساتھ رحم کا معاملہ فرما۔ایسی آزمائش میں نہ ڈال کہ ہم جیسے کمزور لوگ تھک جائیں۔
بروز حشر کی قیامت جیسی تصویر نہ دکھا کہ خوف و ہراس سے ہماری جانیں نکل جائیں۔مولی تعالی یہ سب اگر ہماری بے راہ روی کے سبب ہے تو راہیاب کر دے۔ہمیں جیتے جی ایسی مصیبت سے محفوظ رکھ۔
مشتاق نوری