مدارس اسلامیہ کا وقار اور اصلاح نظام کی ناگزیریت
مدارس اسلامیہ کا وقار اور اصلاح نظام کی ناگزیریت
تحریر: قاری رئیس احمد خان
صدر: شعبۂ حفظ و قراءت، دارالعلوم نورالحق، چرہ محمد پور،فیض آباد، ضلع ایودھیا، یوپی
الحمدللہ! عید الفطر اور تعطیلاتِ کلاں کے بعد ملک بھر کے مدارسِ اسلامیہ دوبارہ تعلیمی سرگرمیوں کی جانب رواں دواں ہو چکے ہیں۔ طالبانِ علومِ نبویہ ایک بار پھر انہی اداروں کی طرف رجوع کر رہے ہیں جو علم، تربیت اور سکون فراہم کرنے میں معروف ہیں۔
بلاشبہ ہر باشعور سرپرست یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ایک ایسے ادارے میں زیرِ تعلیم ہو جہاں تعلیم کا معیار بلند، ماحول باوقار، اور تربیت کا نظام مؤثر ہو۔
مگر ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ خود تو اپنی اولاد کے لیے ایسے ادارے تلاش کرتے ہیں جہاں بہتر سے بہتر تعلیم وتعلم کا ماحول اور عمدہ ڈسپلن ہو مگر خود اپنے زیرانتظام مدارس میں ان خوبیوں کو لاگو کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔
نظامِ مدارس، ایک جائزہ:مدارسِ اسلامیہ، جہاں اسلام کی فکری و روحانی اساس پروان چڑھتی ہے، وہاں اگر ہم مجموعی ماحول پر نظر ڈالیں تو کئی اہم مسائل سامنے آتے ہیں
۔1 غیر اہل افراد کا انتظامیہ میں اثر:اکثر مدارس کی انتظامیہ میں ایسے افراد شامل ہو جاتے ہیں جن کا دینی شعور یا تعلیمی پس منظر ناکافی ہوتا ہے۔
نتیجتاً ادارے کا تعلیمی نظم و نسق متاثر ہوتا ہے
۔2۔ تقرری میں جانبداری:اساتذۂ کرام کے انتخاب میں اقرباء پروری اور سفارش کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے باصلاحیت افراد محروم اور نااہل افراد غالب آ جاتے ہیں
۔3۔ اخلاص اور تجربہ رکھنے والے افراد کی بے قدری:جو حضرات دینی مزاج، اخلاص اور تجربہ رکھتے ہیں، انہیں انتظامیہ سے دور رکھا جاتا ہے، جو ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بنتا ہے
۔4۔ تدریسی جمود اور فکری انجماد:مدارس کے سالانہ نصاب اور طریقۂ تدریس میں تبدیلی اور بہتری کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے طلبہ کا ذہن محدود ہو جاتا ہے
۔5۔ تربیتی نظام کی کمزوری:طلبہ کی شخصی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ کردار سازی میں پیچھے رہ جاتے ہیں
۔6۔ سہولیات کی کمی:رہائش، خوراک، صفائی، طبی امداد جیسے بنیادی پہلو اکثر مدارس میں نظر انداز کیے جاتے ہیں
۔7۔ اساتذہ کی تربیت کا فقدان:اکثر اساتذہ جدید تدریسی مہارتوں سے محروم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ میں فہم اور دلچسپی کا گراف گر جاتا ہے۔
تعلیمی اوقات کی بے حرمتی:دیگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کو غیر نصابی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا جاتا ہے، جب کہ مدارس میں ان سے مختلف سماجی، مذہبی اور مالی خدمات لی جاتی ہیں، جن کا تعلیم سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے طلبہ کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے اور ان کے اندر احساسِ کمتری بھی پیدا ہوتا ہے۔
تحقیق، مطالعہ اور ہم نصابی سرگرمیاں:مدارس میں تحقیقی و مطالعاتی رجحان کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:> “علم بغیر عمل اور تحقیق کے وبال ہے
اور تحقیق بغیر دیانت کے ضلال ہے!”یہی وجہ ہے کہ صرف نصابی تعلیم کافی نہیں، بلکہ تقریری مقابلے، تحریری مشقیں، عربی زبان دانی، اور تقابلی علوم کا شعور بھی طلبہ کو دینا ناگزیر ہے۔والدین اور سرپرستوں کا کردار:دنیاوی تعلیم میں والدین بچوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں، جب کہ دینی تعلیم کے طلبہ اکثر اس تعاون سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس پر قوم و ملت کو غور کرنا چاہیے۔اصلاحی تجاویز:1. اساتذہ کے تقرر میں معیار، اخلاص اور مہارت کو بنیاد بنایا جائے
۔2. طلبہ پر غیر ضروری ذمہ داریاں نہ ڈالی جائیں
۔3. تربیت یافتہ افراد کو نظم و نسق سونپا جائے
۔4. طلبہ میں تحقیق، مطالعہ اور ابلاغ کا ذوق پیدا کیا جائے۔5. سال میں کم از کم ایک نشست سرپرست، اساتذہ اور طلبہ کے مابین بھی ہو
۔6. دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی و پیشہ ورانہ مہارتوں کا نظم بھی ہو۔علامہ اقبال کا فکری پیغام اور دورِ حاضر کی ضرورت:شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر نہایت بصیرت افروز ہے: قوم کيا چيز ہے، قوموں کي امامت کيا ہےاس کو کيا سمجھيں يہ بيچارے دو رکعت کے امام!شاعر مشرق اپنے اس شعر میں ایسے علما و ائمہ پر طنز کر رہے ہیں جو محض رسمی عبادات کے علمبردار تو ہیں، مگر قائدانہ فکری، اصلاحی اور معاشرتی شعور سے خالی ہیں۔
وہ صرف محراب و منبر کے خطیب تو ہیں، مگر زمانے کے چیلنجز سے بے خبر ہیں۔آج امت کو ایسے علما درکار ہیں:جو علم و حکمت میں پختہ ہوں، کردار و تقویٰ میں بلند ہوں، زمانے کی فکری حالات کو سمجھتے ہوں، امت کی قیادت و رہبری کا جذبہ رکھتے ہوں، اور جو تعلیم، تدبیر اور تعمیر کے ذریعے قوم کو اوجِ ثریا تک لے جائیں
جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “علم وہی مفید ہے جو سالک کو عمل پر آمادہ کرے اور معاشرے کی اصلاح کا سبب بنے
۔”حاصل کلام یہ ہے کہ مدارس محض ڈگری کے مراکز نہ ہوں، بلکہ کردار، بصیرت اور قیادت کے مراکز ہوں۔ ان اداروں سے وہ رجالِ کار نکلنے چاہیے جو نہ صرف دین کے محافظ ہوں بلکہ ملت کے رہبر و سالار بھی ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص، بصیرت، دیانت اور جرأت کے ساتھ اصلاح کے سفر پر گامزن کرے۔آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-