یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط سوم
یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط سوم
تحریر :محمد زاہد علی مرکزی
چیرمین : تحریک علماے بندیل کھنڈ
اعتراض (4) اگر مدارس میں پڑھنے والے طلبا کو ہم اس قدر عقائد میں پختہ نہ کر سکے کہ وہ مدارس کے ماحول سے نکلتے ہی داڑھی، ٹوپی یہاں تک کے مذہب کو بھی داؤں پر لگا دیں تو پھر ایسے نظام تعلیم کا کیا فائدہ جو آٹھ دس سالوں میں تصلب کا خوگر نہ بناسکا ؟ تشخص برقرار رکھنے کے گُر نہ سکھا سکا ؟ روٹی فراہم کرنے سے عاجز رہنے والے خوشوں کو آگ نہ لگا دی جائے؟ باندھ کر رکھا تو عقیدے پر قائم، آزاد ہوے تو سب کچھ گیا، گویا یہ خوبی نہیں مجبوری ہے
جواب : سننے میں یہ اعتراض بجا اور بھلا لگتا ہے لیکن بات ایسی ہے نہیں، جسے آپ مجبوری بتا رہے ہیں ذرا غور فرمائیں تو یہ بات بڑی دور تک جائے گی، پہلے دنیاوی قانون لے لیں پھر قانون الہی سمجھنا آسان ہوگا، دنیا بھر کی حکومتوں نے ہر چیز کے لیے قانون بنا رکھے ہیں جیسے قتل، چوری، ڈکیتی، زنا، لڑائی جھگڑا وغیرہ وغیرہ اب اگر لوگ قتل چوری وغیرہ سے رکے ہوے ہیں
تو یہ اسی قانون کی بنا پر رکے ہوئے ہیں، انسان کو تھوڑی سی آزادی مل جائے تو قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم ہوگا کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کسی کی عزت محفوظ نہ رہے گی، دور کیوں جائیے تقسیم ہند ہی دیکھ لیجیے، لا قانونیت کی بنا پر لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، لوگوں نے برسوں پرانی رنجشیں نکالیں کیوں کہ قانون نافذ نہ تھا
اب اگر یہ کہا جائے کہ ایسی حکومتوں کا کیا فائدہ جو لوگوں کو جبرن قتل و غارت گری سے روکیں، اور جیسے ہی لاقانونیت ہو لوگ قتل و غارت گری پر اتر آئیں، “گویا یہ حکومتوں کی خوبی نہیں مجبوری ہے” لہٰذا حکومتوں کے ایسے قوانین سے کیا فائدہ؟ ساری عدالتیں بند کیجیے اور قانون کی کتابوں کو نذر آتش کر دیجیے کیوں کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو گندم اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو اب یہی چیز قانون الہی پر بھی منطبق کریے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو شریعت کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے، جب تک قانون الہی اسلامی عدالتوں کے ذریعے قائم رہا اسلامی سزائیں ملتی رہیں لوگ قابو میں رہے، اب آزاد ہوے تو سارے گناہ کرنے لگے “گویا یہ اسلام کی خوبی نہیں مجبوری ہے ” ایسے اسلامی نظام سے کیا فائدہ؟ خوبی تو تب ہوتی جب مسلمان بہر صورت نیکیاں ہی کرتا، (یعنی فرشتہ ہوتا، پھر انسان بنانے کا مقصد ہی فوت ہوا) اب کون سا مذہب اور کون سی حکومت آپ کے اعتراض کی زد سے محفوظ رہی ؟ –
—–ہم لوگوں کو دو طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں اول علما، دوم پروفیسر، ماسٹر، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ، پھر دیکھتے ہیں کہ قوم کے ساتھ کون کتنا مخلص رہا ہے
ایک طرف علما جن کی حالت آج بھی خستہ ہے لیکن وہ اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹے، اور گھر گھر دین پہنچانے میں برابر کوشش کرتے رہے ہیں، کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے، انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج دور دراز علاقوں تک بآسانی دین پہنچ رہا ہے، نیز ناگہانی حادثات کے وقت ان تک مالی امداد بھی فراہم کرتے /کراتے ہیں اور ان کی ضروریات کے وقت حسب حیثیت ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں
دوسرا طبقہ دنیاوی علوم کے علم برداروں کا ہے، کیا یہ لوگ علما کی طرح کام کر سکے؟ کتنے انسٹیٹیوٹ کا قیام کیا؟ بل کہ اصل تو یہ ہے کہ یہ لوگ اگر کوئی غریب پوچھنے پہنچ جائے کہ ہمارا بیٹا ہوشیار ہے ڈاکٹر /پروفیسر /انجینیر صاحب بچے کی رہنمائی کریں تو اس غریب کے جوتے گھس جاتے ہیں، پر کام نہیں ہوتا، کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ پھر علاقے میں ہمیں کون پوچھے گا؟ اس لیے کسی کی رہنمائی نہیں ہوتی – ( الا ماشاء اللہ)
علما نے گلی گلی مساجد کا قیام کیا، گاؤں گاؤں مدارس و مکاتب قائم کیے، لیکن دوسری جانب سناٹا رہا، اور آج ساری تباہی کا بوجھ بھی مولوی کے سر ڈال کر دنیا دار طبقہ خوش ہو رہا ہوتا ہے، یہ اس تھیوری پر عمل کرتے ہیں کہ “دشمن آپ پر حملہ کرے اس سے پہلے آپ حملہ کر دیں” لوگ ان سے سوال ہی نہ کر سکیں اس لیے مولوی صاحب کو پہلے ہی اتنا بدنام کر دو کہ آپ سے سوال کسی کے خیال میں بھی نہ آئے۔
اعتراض (5) زکات کا غلط استعمال ہو رہا ہے، لوگ مرتد ہو رہے ہیں، کاش یہ زکات مدارس کے بجا ئے مستحقین تک پہنچتی تو آج ارتداد کی یہ لہر نہ چل رہی ہوتی، اسی پیسے سے انھیں روکا جاسکتا تھا – مدارس کھانے پینے کا اڈہ بنے ہوے ہیں
جواب : ہمارا جواب تو کچھ اور ہوگا، چوں کہ آپ لوگ پروفیسر حضرات کی زیادہ سنتے ہیں تو چلیے پروفیسر صاحب کا قول پیش کیے دیتے ہیں ورنہ ہم پر طرف داری کا الزام لگ جائے گا ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد صاحب نےاپنی ایک اسپیچ میں کہا تھا کہ”اگر مسلمان اپنی پوری زکاة نکالیں تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی کئی یونیورسٹیاں چل سکتی ہیں “۔ مدارس اسلامیہ کاانحصار انھیں صدقات وزکات پر موقوف ہے اور اگر مدارس اسلامیہ بند ہوگیے تو کون ہے جو عقائد کا تحفظ کرے گا؟
حکومت تو بہر صورت یہی چاہتی ہے کہ تم ایسے مسلمان بنو کہ حکومت کے ہر قول و فعل پر خاموش رہو، شریعت کو ترجیح نہ دو ، یہی وجہ ہے کہ سارا زور مدارس کو بند کرنے یا پھر جدید علوم کو مدارس میں داخل کرنے پر خرچ ہو رہا ہے، کیوں کہ جیسے مدارس حکومت چاہتی ہے ویسے مدارس کا میٹیریل اسلام اور مسلمان دونوں سے دور ہوگا
اکثر دنیاوی پڑھا لکھا طبقہ تو خود کے حساب سے دین کو مینج کرتا ہے، وہ دین پر کم چلتا ہے دین کو اپنے حساب سے زیادہ چلاتا ہے،ان حضرات کی کسی بھی محفل میں بیٹھ جائیے شادی، طلاق، حلالہ، تعدد ازواج، زکات، نماز وغیرہ پر ان کی الگ ہی رائے ہوتی ہے، سمجھائیے تو فورا کہتے ہیں
“مولانا ہم نے سب کو دیکھ لیا اور سمجھ لیا ہے، فرقہ فرقہ مت کھیلیے، عوام کو آپ لوگوں نے تباہ کردیا ہے،ایسے لوگوں کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد بہت سے یونیورسٹی جانے والے فارغین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ وہابیوں، دیوبندیوں کے پیچھے بلا جھجھک نماز پڑھتے ہیں ” اکثر ایسے لوگ قولا نہ سہی، عملا ضرور اکبر کے “دین الہی” پر عامل ہوتے ہیں
علماے کرام اپنی جوتیاں گھِس کر، عزت کا خیال دل سے نکال کر، طعنے سنتے، بے عزت ہوتے ہوے بھی اللہ و رسول کے لیے برابر کام کرتے ہیں، لیکن دنیا دار طبقے کو اس کا احساس نہ کل تھا اور نہ مستقبل میں ہوگا
زکات کے متعلق جتنی بیداری آرہی ہے کیا اس میں علما کا کردار اہم نہیں ہے؟ عاملین بن کر دور دراز کے اسفار پر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں کیا وہ اپنے لیے کرتے ہیں؟
ضرور ان کا رزق وہیں سے جڑا ہوا ہے، لیکن جو مشقتیں چندے کے سلسلے میں علمائے کرام برداشت کرتے ہیں کیا وہ یہ دنیوی طبقہ برداشت کر سکتا ہے؟
اگر لوگ عطیات دے کر مدارس کی خدمات کریں توعلماء یہ مشکلات کیوں برداشت کریں؟ عوام سے ہمدردی کی بولیاں بولنے والے حضرات کو چاہئیے کہ وہ اپنے ذاتی مصارف سے ان لوگوں کی مدد کریں جنکے درد میں گھلے جارہے ہیں،اور کچھ نہ سہی تو وہ اپنی ہی زکات کیوں غریب خاندانوں کو تلاش کر کے نہیں دے دیتے؟ تاکہ کچھ تو ہو جائے
اسلام اپنی بے بسی کے جس دور سے گزر رہا ہے اس پر خون کے آنسو رونے کا زمانہ ہے ،ماضی میں سلاطین اسلام اسکی کفالت کرتے تھے، مگر آج کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسی حالت میں اگر بالغ نظر اور ہمدرد علما شب وروز ایک کرکے اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنے کی جی توڑ کوشش کررہے ہیں توانکا احسان مند ہونا چاہیے –
جاری…..
نوٹ : یہ نہ سمجھیں کہ ہم علما کو خوش حال نہیں دیکھنا چاہتے ،علما کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے فقیر نے ایک مضمون “علماے کرام اور معاشیات ” 2019 میں لکھا تھا، جو ماہنامہ” پیغام شریعت” میں شائع ہوچکا ہے، لنک حاضر ہے ملاحظہ فرمائیں( پڑھنے کے لیے کلک کریں ) نیز آئندہ قسط میں ان شاء اللہ کچھ مزید پیش کیا جائے گا۔
تحریر :محمد زاہد علی مرکزی
چیرمین : تحریک علماے بندیل کھنڈ
Pingback: علما اور معاشیات ⋆ اردو دنیا
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم ⋆ تحریر :محمد زاہد علی مرکزی