یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط دوم

Spread the love

یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط دوم  قسط اول پڑھنے کے لیے کلک

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چیرمین : تحریک علماے بندیل کھنڈ

ہزار غوطہ خور غوطہ زن ہوتے ہیں تاکہ وہ سمندر سے در یتیم لے آئیں، تب کہیں جاکر شاید کسی ایک کو کام یابی حاصل ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ان ہزار میں سے کسی ایک کو پہلی بار ہی موتی حاصل ہو جائے، کسی کو ایک دن، کسی کو ہفتہ، کسی کو سال اور کسی کی عمر گزر جاتی ہے

لیکن مقصود تک رسائی نہیں ہوتی، ہم جیسے لوگوں سے پوچھا جائے تو یہی جواب ہوگا کہ جب کام اس قدر مشکل ہے، کام یابی کی امید دو چار فیصد بھی نہیں تو ہزاروں افراد کا اس میں وقت برباد کرنا دانش مندی نہیں، لیکن ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے، ان غوطہ خوروں سے پوچھیے تو کہیں گے، آپ کو اس در یتیم کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہے، اگر ساری زندگی برباد کرکے بھی ہمیں حاصل ہو جائے تو نسلیں سنور جائیں گی۔

پیارے علمائے کرام! ٹھیک یہی حال فقہ و حديث اور دیگر علوم اسلامیہ کے حصول کا ہے، ہزاروں طلبا مدرسہ آتے ہیں اور اپنی ساری زندگی کھپا دیتے ہیں، عوام میں اکثریت یہی کہتی ہے کہ اس مولوی کو کیا ہوا ہے جو پانچ ہزار روپے کے لیے دس، پندرہ سال برباد کر رہا ہے

لیکن ان غوطہ خوروں کی طرح ہی علوم اسلامیہ کے طلب گار جواب دیتے ہیں کہ اس کی قدر و قیمت تمہیں کیا معلوم، تم جسے زندگی برباد کرنا سمجھتے ہو ہم اسی کو کامیابی سمجھتے ہیں، اور حقیقی کام یابی ہے بھی یہی اگر اللہ و رسول کی بارگاہ میں ہماری ساری زندگی کی ایک ساعت بھی قبول ہو جائے تو زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا –

جو غوطہ خور خود مختاری سے کام کرتے ہیں انھیں اگر موتی نہ ملا تو کچھ نہ ملا، لیکن جو غوطہ خور کسی کے حکم پر عامل ہوتے ہیں انھیں ناکامی کے بعد بھی مقررہ حصہ ملتا ہے، چوں کہ طلبائے مدارس کو اللہ رب العزت نے چن رکھا ہے اس لیے ناکامی کی صورت میں بھی انھیں انعام خدا وندی سے نوازا جانا طے ہے ۔

طلبا کے مستقبل میں معاشی حالت پر تخمینے قائم کرنے اور ان کی فکر میں دُبلے ہونے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ سے زیادہ مشفق انکے والدین ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قلیل تنخواہوں پر گزارا مشکل ہوگا لیکن پھر بھی انھیں دینی تعلیم کے حصول و فروغ کے لیے بھیجا، آخر کیوں؟ وجہ صاف ہے وہ جانتے ہیں کہ دین ہمارا ہے اور ہم ہی اس سے بھاگیں گے تو دین کا کام کیسے ہوگا؟

انھیں اللہ پر یقین ہے کہ کل قیامت میں اللہ ان ساری پریشانیوں کا بدلہ پورا پورا عطا فرمائے گا، اور زندگی تو آخرت کی ہی ہے، امید ہے رحمت الہی سے سارے داغ دھل جائیں گے۔

عزیز طلبا ! دیکھو تو سہی! “متاع الدنيا قلیل” إنما الحیاۃ الدنیا لھو و لعب ” والعصر ان الانسان لفی خسر” یحسب ان مالہ اخلدہ ” یہ آیات الہیہ کیا آپ کو دعوت فکر نہیں دیتیں ، یہ دنیاوی زندگی جس کی حیثیت رب قدیر پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم قرار دے ” کلمح البصر او ھو أقرب ” کیا اس کے لیے ہمیشہ کی آخرت کو داؤں پر لگایا جا سکتا ہے؟

رسول اکرم علیہ السلام فرماتے ہیں اگر رب العزت کے نزدیک دنیا کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی ہوتی تو کفار کو اس میں سے کچھ نہ ملتا، آپ کو یہ باتیں مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا خاکہ بنانا چاہیے، آپ جس علم کو حاصل کرنے آئے ہیں کیا وہ ایسا سستا ہے کہ بغیر مشقت کے حاصل ہو جائے گا؟ یا ہر ایرے غیرے کو دے دیا جائے گا؟۔

تحفہ عظیم ہے تو تکالیف بھی بڑی ہوں گی، اس لیے گھبرانا کیسا؟ یہ علم تو اللہ و رسول کا عطیہ ہے، یہ اسی کو ملے گا جو اس کی قدر جانتا ہے، اور یہ اسی سے چھینا جائے گا جسے اس کی قدر نہ ہوگی، عظیم رب قدیر کا عظیم عطیہ زندگی کی تھوڑی سی پریشانیوں سے ہی بھاگ کھڑے ہونے والوں کو ملے گا؟ ع حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے ۔

یونیورسٹی والوں کے چند اعتراضات

آئیے اب ذرا ان اشکالات کا بھی جائزہ لیتے چلیں جنھیں یونیورسٹی جانے والے اکثر طلبا بصورت “گردان” رٹے رہتے ہیں، اور جہاں موقع ملا پوری گردان ایک ہی سانس میں سنا دیتے ہیں، بنظر انصاف پڑھیے گا تو آپ کو ان کے یہ اعتراضات تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور نظر آئیں گے ۔

اعتراض (1)

ہر سال ہزاروں کی تعداد میں میں علما، حفاظ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہوتے ہیں، لیکن نئی مساجد یا نیے مدارس کتنے کھلتے ہیں؟ اب اگر علما دوسری جانب رخ نہ کریں تو جگہوں کی پریشانی بڑھنا یقینی ہے، ان کا گھر کیسے چلے گا؟ ۔

جواب : مدارس کے فارغین کی تعداد ہزاروں تسلیم کیے لیتے ہیں، لیکن عصری اداروں کے فارغین کی تعداد کروڑوں میں ہے، چلیے غیر مسلموں کو ہٹا دیتے ہیں پھر بھی یہ تعداد تین سے چار کروڑ بچتی ہے، (گزشتہ آٹھ سالوں میں بے روزگاری کی شرح نے پینتالیس سالوں کا رکارڈ توڑ دیا ہے) اب اگر آنکھوں کا پانی مرا نہیں ہے تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سالانہ کتنی تعداد میں انڈیا میں یونیورسٹیز کا قیام ہوتا ہے؟۔

یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بیسیوں سال بعد کہیں کوئی حکومتی یونیورسٹی منظور ہوتی ہے،(علما پرائیویٹ یونیورسٹی کا خرچ نہیں اٹھا سکتے) اور اتنے سالوں کے بعد بھی منظور ہوتی ہے تو کتنی تعداد میں عربی، اردو، فارسی یونیورسٹیز کا قیام ہوتا ہے؟ چلیے یہ بھی چھوڑیے، یہ بتائیں کہ انڈیا کی ساری یونیورسٹیز کے اردو، عربی، فارسی شعبوں میں سالانہ کتنی تقرریاں ہوتی ہیں؟۔

میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ سَو یا اس سے کچھ کم و بیش ، یہ بھی زیادہ ہے، کیوں کہ میں خود ایک سال کے عرصے سے یونیورسٹیز کے گروپوں میں ہوں، گاہے گاہے ایک آدھ سیٹ کی بات ہی سامنے آتی ہے، اب ذرا بتائیں کہ مدارس کے مقابلے یہاں نوکری کی کتنی گنجائش ہے؟ جہاں ملازمت کے اتنے کم چانس ہوں وہاں آپ مدرسہ کو صرف اسی بنیاد پر چھوڑ جائیں یہ کہاں کی دانش مندی ہے ۔

اعتراض (2)

مدارس کے فارغین اگر آئی ایس، آئی پی ایس بنیں تو کتنا اچھا ہو، ہمارے کام آسانی سے ہوں گے، قوم کا درد رکھنے والے عہدے دار ہوں گے تو قوم مسلم کی حالت اتنی نازک نہ ہوگی ۔

جواب : بھائی! مدارس علما بنانے کے لیے کھولے گیے ہیں، ڈاکٹر انجینیر، پروفیسر، آئی ایس یا آئی پی ایس بنانے کے لیے نہیں، مدارس میں آنے والے آدھا فیصد کو چھوڑ کر سارے مسلم آپ ہی کے ہیں انھیں ضرور یونیورسٹی لے جائیے، تربیت کریے اور دین کی خدمت کریے، مدارس کی تعداد کم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ وہ نادان دوست ہیں جو مسلمانوں کی بھلائی تو چاہتے ہیں لیکن اصل میں اسلام اور مسلمان دونوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

آپ کو لگتا ہے کہ آپ کوئی حکومتی عہدہ لے کر من مرضی کریں گے تو بھول جائیے، ہزاروں مسلم ملازمین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے، اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو فوراً ان کی شکایت ہوتی ہے اور پھر وہ مسلم ملازم کبھی اس تعلق سے سوچتا بھی نہیں ہے، ورنہ ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے، اور آج کے مادیت زدہ ماحول میں بڑا عہدے دار تو چھوڑیے چپراسی تک اپنی ملازمت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا

یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلم ہوے اور ہوتے رہیں گے لیکن وہ بہت زیادہ کچھ کرنے کی حالت میں نہ کبھی تھے اور نہ کبھی رہیں گے، بڑے بڑے نام ور لیڈر تو کچھ کر نہ سکے دو چار ملازمین کی کیا حیثیت کہ وہ کچھ زیادہ کر سکیں – (الا ماشاء اللہ)

اعتراض (3)

مدارس کے بچے جب تک عصری اداروں میں جاکر وہاں کے حالات نہ دیکھیں گے، نت نئے اعتراض نہ سنیں گے تو جوابات کیسے دیں گے،بقول رسم المفتی ” جو اپنے زمانے کے حالات سے واقف نہ ہو وہ جاہل ہے”، اگر ہم وہاں نہ گیے تو ملحدین، مشرکین، لبرل اور مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات کیسے دیے جائیں گے؟ ۔

جواب : پیارے! دنیا کا کون سا ایسا اعتراض ہے جس کا جواب اکابرین علماے اہل سنت نہ دے گیے ہوں،کتابیں بھری پڑی ہیں، پڑھیے تو سہی! ہر نئے مذہب، نئے فرقے اور ملحدین و مستشرقین کے اعتراضات وہی ہیں جو سیکڑوں سال پہلے تھے، وہ انھیں اعتراضات کو ڈھوتے آرہے ہیں

شدھی تحریک کے وقت ہمارے علماے اہل سنت خصوصاً حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان، شیر بیشہ اہل سنت علامہ حشمت علی، حضور صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین، علامہ عبدالعليم صدیقی میرٹھی( رضوان اللہ علیھم اجمعین) وغیرہ نے آریا، ہنود، مستشرقین اور ملحدین وغیرہ کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا اور شردھا نند یا اس جیسے تمام فتنہ پھیلانے والوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، ان میں سے کون یونیورسٹی گیا تھا؟

کسی کے بھی اعتراض جاننے کے لیے ان میں شامل ہونا ضروری نہیں ہے، آج تو ہر ایک کے اعتراضات سوشل میڈیا پر ہیں، سنیے اور جواب تلاش کریے، اب اس میں یونیورسٹی جانے کی ضرووت تو نہیں ہے؟ کتب علمائے اہل سنت کا مطالعہ کیجیے اور بے کار کے اعتراضات کرکے اپنے آپ کو درست ٹھہرانے کی ناکام کوشش کرکے اپنا اور دیگر طلبائے مدارس کا دماغ خراب مت کریے, کیوں کہ اس سے صرف دین کا نقصان ہوگا اور کچھ نہیں ۔

اعتراض (4)

مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، بہت سی کتابیں ہٹانے کی ضرورت ہے، نیز اگر کوئی کرتا پاجامہ کی جگہ پینٹ شرٹ استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔

جواب : مدارس کا نصاب تبدیل ہونا چاہیے یہ بات عام ہے، لیکن مدارس کے نصاب میں جتنی تبدیلی ممکن تھی ہوچکی، ہو رہی ہے، مزید تبدیلیاں نقصان دہ ہیں، یونیورسٹی والے ہمارے کہنے سے نصاب نہیں بدلتے، اسکول کالج والے اپنا نصاب رکھتے ہیں، ایسے ہی مدارس بھی اپنا نصاب رکھتے ہیں۔

علماے اہل سنت جانتے ہیں کہ کتنا نصاب تبدیل کرنا ہے جب مناسب سمجھیں گے کر لیں گے، جنھیں بدلا ہوا نصاب چاہیے وہ اپنے مدارس قائم کریں اور خوب نصاب بدلیں، دوسروں کے کاموں میں ہی دخل اندازی کیوں؟ دین کے ہمدرد کتنے پروفیسر ہیں ذرا ہم بھی تو دیکھیں – اپنے علاقوں میں جنھوں نے ایک اسکول تک قائم نہ کیا وہ وہ اہل مدارس کو درس دینے چلے ہیں، لاکھوں کی سیلری ہوتے ہوئے بھی کیا کیا ہے ان پروفیسرز نے؟ (الا ماشاء اللہ)

علما تو پانچ دس ہزار میں ہی اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور دین کا کام بھی کر رہے ہیں، پھر لاکھوں روپے پانے والے ان مفکرین قوم وملت، دور اندیش، قوم کے درد میں گھلے جانے والے اور علما کی زندگیاں تباہ ہونے کی گردان رٹنے والے پڑھے لکھے طبقے نے کیوں کچھ نہ کیا؟

سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، دو میٹھے لفظ بول کر عوام کو اور طلبا کو گمراہ کرتے ہیں – یونیورسٹی کی زلفوں کے گرویدہ حضرات علما کے لباس کو لے کر بھی الگ رائے رکھتے ہیں، لیکن انھیں اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ کہ ہر وہ طبقہ جو عوام سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اس کا ایک مخصوص لباس (ڈریس) ہوتا ہے

یہی ان کی پہچان بھی ہوتی ہے، آرمی، ایر فورس، پولیس کیا سب کا لباس جدا نہیں؟ کیا ان سے کوئی کہے گا کہ یہ ضروری نہیں، غیر مسلم سادھؤں کے لباس اعلی عہدوں پر پہنچ کر بھی وہی ہیں، نہ ان کا ٹیکا چھوٹا اور نہ چوٹی، اور ہم آزاد خیالی کے چورن کے ایسے شکار ہوے کہ سیکڑوں سالوں سے چلے آرہے اس مخصوص لباس سے کنارہ کرنا چاہتے ہیں جو ہماری پہچان بن چکا ہے، یہ علما اللہ و رسول کے چنیدہ حضرات ہیں ان کے لباس عوام سے مختلف ہونا چاہیے تاکہ ان کی پہچان بنی رہے، کیا ہند و پاک، بنگلہ دیش میں صدیوں سے علما کا یہی لباس نہیں ہے؟ کیا مذکورہ ممالک میں عوام آج بھی علما کا پینٹ شرٹ پہننا قبول کرتی ہے؟۔

کہیں پینٹ شرٹ پہننے والا امام بھی دیکھا ہے؟ یونیورسٹی جاکر جو طلبا پینٹ شرٹ پہننا چاہتے ہیں یہ انھیں کی سوچ ہے ورنہ کسی عالم کو اس پر اعتراض نہیں، چوں کہ ان طلبا کا بیک گراؤنڈ مدرسہ ہے اس لیے جب تک وہ مخصوص لباس پر تنقید نہ کریں گے دوسرا لباس کیسے پہن سکیں گے؟

جس لباس کو سالوں پہنا اب اگر کوئی کچھ کہہ دے تو پھر دیکھیے اس کے جواب میں مصر تک سے دلائل لے کر آئیں گے ، جب بھی یونیورسٹی والوں کی شدت پسندی چیک کرنا ہو تو انھیں مذکورہ چیزوں پر سوال کر لیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے، ویسے وہ شدت پسندی کا الزام ہمارے سر ہی دھرتے ہیں ۔

جاری

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چیرمین : تحریک علماے بندیل کھنڈ

5 thoughts on “یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط دوم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *