اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا ایک شعر ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔بحث کی ابتدا پاکستان کے معروف عالم دین مفتی اکمل صاحب کی تنقید سے شروع ہوئی۔جس میں موصوف نے مذکورہ شعر کو گہرا قرار دیتے ہوئے بغیر توضیح وتشریح کےپڑھنا عوام الناس کے لیے خطرناک بتایا ۔اسی تنقید پر اہل علم کے درمیان مباحثہ چل رہا ہے۔ہم اس تحریر میں مفتی صاحب کی تنقید اور شعر کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کریں گےتاکہ مفتی اکمل کی تنقید اور شعر کا درست مفہوم ظاہر ہوسکے۔اس مقام پر چند بنیادی چیزیں سمجھ لی جائیں تو امید ہے کہ سارا مطلع صاف ہوجائے گا۔
__خاطر کے معانی اور استعمال
الفاظ کی دنیا بھی نہایت وسیع وعریض ہے۔جہاں صرف معانی ہی نہیں،اس کی باریکیاں،ان کا استعمال اور عرف وتعامل کا اثر دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔کئی بار حقیقت مجاز کے آگے اور لغت عرف کے سامنے کہیں پوشیدہ ہوجاتی ہے اور جو بات یا معنی عوام خواص میں رائج ہو اسی کا اعتبار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ کے ظاہرے سے انسانی ذہنی دوسری جانب نکل جاتا ہے اس لیے گفتگو میں الفاظ کے ساتھ اس کے معانی اور معانی کے ساتھ اس کی باریکیاں اور عرف عوام کا خیال بھی از حد ضروری ہوتا ہے، تاکہ لغت، حقیقت یا الفاظ کے پیچ وخم کی وجہ سے ذہن وفکر اضطراب وانتشار کا شکار نہ ہو سکے۔
تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے جس شعر پر بحث ومباحثہ کا دور جاری ہے وہ یہ ہے:
آپ کی خاطر بنائے دو جہاں
اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں
اسی شعر کے مصرعہ ثانی پر پاکستان کے معروف عالم دین مفتی محمد اکمل صاحب سے سوال کیا گیا تو آپ نے نقد کرتے ہوئے چند نکات بیان کیے جن کا خلاصہ یہ ہے:
🔸شعر کی تاویل ہوسکتی ہے لیکن بغیر توضیح وتشریح کے عوام میں ایسا گہرا شعر پڑھنا ذرا خطرناک ہے
🔹اللہ تعالیٰ کے تمام افعال غرض سے پاک وصاف ہوتے ہیں
🔸شعر مذکور سے ظاہراً اللہ تعالیٰ کا محتاج غرض ہونا لازم آتا ہے جب کہ وہ ہر غرض سے پاک ہے
مفتی صاحب نے مثالوں کے ذریعے واضح کیا کہ خداوند قدوس کے افعال کسی بھی غرض کے ساتھ نہیں ہوتے ہاں ارادہ الہی کے تحت جو چیز وجود میں آتی ہے وجود کے معاً بعد اس سے ہزاروں لاکھوں اغراض وابستہ ہو جاتے ہیں۔مفتی صاحب نے شعر مذکور کو بایں بنا عوام میں پڑھنے سے منع کیا کہ ظاہراً اس شعر سے اللہ تعالیٰ کا محتاج غرض ہونے کا مفہوم متبادر ہو رہا ہے اس لیے ایسا گہرا شعر بغیر توضیح و تشریح نہ پڑھا جائے ورنہ عقیدہ ونظریہ کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔اب دیکھتے ہیں کیا مذکورہ شعر میں غرض کا لفظ یا مفہوم موجود ہے کہ نہیں؟
جب ہم اس شعر کو دیکھتے ہیں تو لفظ غرض کا استعمال کسی مصرعہ میں نہیں ہے، ہاں مصرعہ اول میں “آپ کی خاطر” اور مصرعہ ثانی میں “اپنی خاطر” کا استعمال کیا گیا ہے، مفتی صاحب نے شاید اسی جملے سے غرض کا مفہوم اخذ کیا ہے۔اس لیے پہلے اسی جملے کا لغوی معنی اور عوامی استعمال سمجھ لیتے ہیں تاکہ تنقید کی اصل نوعیت سمجھ سکیں۔
خاطر ایک کثیر المعانی لفظ ہے، لغت میں اس کا بنیادی مفہوم رضا، خوشی، خواہش، پاس ولحاظ، پاس داری اور دل جوئی کا بیان کیا گیا ہے۔اگر ان معانی کو مصرعہ اول کے ضمن میں سمجھا جائے تو مصرعہ اول کا سیدھا سادا سا مفہوم یہ نکلے گا؛
یا رسول اللہ!
یہ ساری کائنات، یہ ارض وسما، یہ غنچہ وگل، یہ سنبل وسمن، یہ فلک وملک، یہ زمین وآسماں، یہ بحر وبر، یہ شمس وقمر، یہ جن وبشر سب کچھ آپ کی خوشی، آپ کے صدقے، آپ کے اعزاز اور آپ ہی کے واسطے پیدا کیے گیے ہیں۔آپ نہ ہوتے تو کائنات کا وجود ہی نہ ہوتا سب کا وجود آپ ہی کے وجود مسعود کا صدقہ ہے۔یہ صرف شاعرانہ تخیل نہیں اسلامی نظریہ کی عکاسی ہے،حدیث قدسی ہے:
وعزتي و جلالي لولاك ما خلقت الجنّة ولولاك ما خلقت الدّنيا۔
“میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔”
(ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 227، رقم: 8031)
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
ایک تسامح اور اس کا ازالہ
مصرعہ اول کی تفہیم پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو، رہ جاتا ہے مصرعہ ثانی، اسی کے جملے ‘اپنی خاطر’ سے مفتی اکمل صاحب کو غرض الہی کا اشتباہ ہوا، اور انہوں نے شعر کو خطرناک کہہ دیا۔مفتی صاحب نے نقد کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ارادے کے لیے پہلے غرض لازم ہے، اس کے بعد ارادہ ہوتا ہے اس کے بعد عمل ہوتا ہے۔یعنی کسی بھی کام کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
1؍غرض۔2؍ارادہ۔3؍عمل
مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ارادے پر کوئی چیز نہیں ابھارتی ہاں معاً بعد لاکھوں اغراض اس عمل بعد ارادہ سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔مجھے لگتا ہے یہاں پر مفتی صاحب سےاصول بیان کرنے میں قدرے تسامح ہوا، ضروری نہیں ارادہ الہی کسی غرض ہی کے تحت ہو، ارادہ الہی رضائے حبیب کی خاطر بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا۔(سورة البقرة:144)
ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس جس میں تمہاری خوشی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے (کعبے کو قبلہ بنانے) کا اظہار فرمایا ہے اور یہ ارادہ کسی غرض نہیں بل کہ رضائے حبیب کی خاطر ظاہر کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ارادہ الہی کے لیے رضائے حبیب کا نظریہ رکھنا ہرگز غرض نہیں ہے ورنہ قرآن کریم میں ارادہ الہی کو رضائے حبیب کے ساتھ نہ بیان کیا جاتا۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
اس مقام پر یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ انسانی ارادے کے لیے کئی چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اولاً اس ارادے کا تصور،اس کے فائدے کایقین، حاصل کرنے کا شوق پھر کہیں جاکر دماغ اعضائے بدنیہ کو مطلوبہ چیز کے حصول کاحکم دیتا ہے لیکن ارادہ الہی ان تمام چیزوں سے پاک ہوتا ہے،ہاں اس کا ارادہ دو طرح کا ہوتا ہے۔
1؍صرف مشیت وقدرت کے تحت
2؍جس میں رضائے الہی شامل ہو
کائنات کے تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قدرت ہی کے تحت واقع ہوتے ہیں، بغیر مشیت الہی پتّا بھی نہیں ہل سکتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر امر مشیت میں رضائے الہی بھی شامل ہو۔جو کام ناپسندیدہ ہوتے ہیں ،وہ بھی تحت قدرت ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں رب کی رضا و پسندیدگی نہیں ہوتی۔دوسرے وہ کام ہوتے ہیں جن میں مشیت الہی کے ساتھ ساتھ رضائے الہی بھی شامل ہوتی ہے۔المعتقد میں ہے:
فالمعاصی واقعۃ بارادتہ ومشیتہ تعالیٰ لا بامرہ ورضاءہ ومحبتہ۔(المعتقد المنتقد:۴۱)
“معاصی اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت سے واقع ہوتے ہیں نہ کہ اس کے حکم سےاورنہ اس کی رضا و محبت سے۔”
یعنی گناہ و نافرمانی کے کام بھلے ہی تحت مشیت ہوتے ہیں مگر وہ رضائے مولیٰ سے خالی ہوتے ہیں ہاں امور محمودہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا و پسند شامل ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے بھی یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ ارادہ الہی کے لیے محبت و پسندیدگی کا نظریہ رکھنا ہرگز “غرض” نہیں ہے بل کہ یہ نظریہ اہل سنت ہے۔
لفظ خاطر پر اشتباہ اور اس کا جواب_____
مفتی اکمل صاحب کومصرعہ ثانی میں “اپنی خاطر جو بنایا” پر اصل اعتراض تھا، اس لیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اہل علم کے یہاں ‘اپنی خاطر’ یا اس سے ملتی جلتی تراکیب کس معنی میں استعمال کی جاتی ہیں۔اہل زبان ‘اپنی خاطر، تمہاری خاطر جیسی ترکیبوں کا استعمال اپنائیت، قربت اور اظہار محبت کے لیے کرتے آئے ہیں، امین شارق نے لکھا ہے:
ہیں دنیا سے منکر ہم
صرف تمہاری خاطر ہم
ساغر صدیقی نے لکھا ہ:
ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر
دل کے ارمان بھی لائے ہیں تمہاری خاطر
ان اشعار میں تمہاری خاطر کا استعمال، اپنائیت، قربت اور اظہار محبت کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے۔جس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنی خاطر جیسی ترکیب کا استعمال کسی غرض نہیں بل کہ اظہار قربت ومحبت کے لیے کیا جاتا ہے۔اس تناظر میں تاج الشریعہ کے مصرعہ ثانی کا مفہوم یہ نکلے گا:
یا رسول اللہ ﷺ
رب تعالیٰ نے آپ کوخاص اپنے لیے بنایا ہے، آپ کا وجود مسعود خداوند اقدس کی اس رضا کے تحت ہوا ہے جو کسی اور انسان کا مقدر نہ ہوسکی۔آپ اللہ عزوجل کے اس ارادہ رضا کا ظہور ہیں جس کا ہر حصہ قربت الٰہی کے جلوؤں سے سرشار ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے:
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (سورہ ذاریات:۵۶)
اور میں نے جن اور آدمی اپنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ارشاد فرمایا:
وَ اصۡطَنَعۡتُکَ لِنَفۡسِیۡ۔(سورہ طہ:41)
اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا۔
غور کریں!
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا مقصد تخلیق اپنی عبادت کو قرار دیا، پیغمبر آخر الزماں ﷺ انسانیت کا فرد کامل ہیں، آپ کے طرح کوئی عبادت کر سکا ہے نہ کر سکے گا، باقی تمام انسانوں کی عبادتیں آپ کی عبادت کے بعد ہیں بایں طور بھی یہ کہا جانا بالکل بجا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مصطفےٰ جان رحمت کو “اپنی عبادت کی خاطر” بنایا ہے۔دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں واضح طور پر فرمایا کہ میں نے تمہیں “خاص اپنے لیے” بنایا ہے۔اس آیت میں “خاص اپنے لیے” کی تفسیر بیان کرتے ہوئے صدرالافاضل سید نعیم الدین رقم طراز ہیں:
“اپنی وحی اور رسالت کے لئے تاکہ تو میرے ارادہ اور میری محبت پر تصرف کرے اور میری حجت پر قائم رہے اور میرے اور میری خلق کے درمیان خطاب پہنچانے والا ہو۔”
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وحی ورسالت کے باب میں خاص اپنے لیے بنایا۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ شرف حاصل ہوا تو سید عالم ﷺ کی خصوصیات تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کئی گنا زیادہ ہیں۔وحی الہی کے باب میں جو مقام ہمارے حضور ﷺ کو ملا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ملا۔حضرت موسیٰ ہم کلامی کے لیے طور جائیں، حضور جہاں ہوں وہاں وحی آئے۔موسی علیہ السلام بواسطہ درخت ہم کلام ہوں، نبی کریم ﷺ بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف حاصل کریں۔حضرت موسیٰ کی رسالت ،رسالت محمدی کا صدقہ ہے۔اللہ کی محبت پر جو مقام ومرتبہ حضور علیہ السلام کا ہے اس کا حضرت موسیٰ سے موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا، اگر اسی مفہوم کو شعری رنگ میں ‘اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں’ کہہ دیا جائے تو قرآن کی ترجمانی ہی کہلائے گی۔اور یہ مفہوم کسی بھی طور پر اللہ تعالیٰ کی غرض کی جانب مشیر نہیں ہوگا۔
رہا یہ خدشہ کہ عوام اس مفہوم ومطلب کو سمجھتی ہے کہ نہیں؟اس پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ عوام الناس میں لفظ غرض کو اچھا نہیں سمجھا جاتا (بھلے ہی غرض صحیح ہو)
کسی کو خود غرض کہہ دیا جائے تو انسان اسے گالی سمجھتا ہے حالانکہ معنوی اعتبار سے غرض صحیح ہو تو خود غرضی کا مفہوم برا نہیں ہے لیکن عرفاً یہ لفظ ناپسندیدہ مانا جاتا ہے جب عوام اس لفظ کو اپنے لیے ہی استعمال کرنے سے بچتے ہیں تو کوئی اسے خداوند قدوس کے لیے سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے حضور سید عالمﷺ کو اپنے لیے، اپنی خاطر بنایا جیسے جملوں سے عوام یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو خاص اپنے لیے پیدا فرمایا ہےاسی لیے حضور پاک کومقام محبوبیت عطا فرمایا جو کسی بھی نبی و پیغمبرکو نہیں ملا۔اس لیے اپنی خاطر جیسے جملوں سے غرض الہی جیسا مفہوم مراد لینا اہل علم اور عرف عام کے خلاف ہے۔