بام سیف کا راشڑیہ مسلم مورچہ ضرورت یا مجبوری
بام سیف کا راشڑیہ مسلم مورچہ ضرورت یا مجبوری؟
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ رکن روشن مستقبل دہلی
18 ستمبر 2022 کو بام سیف BAMCEF کا راشٹریہ مسلم مورچہ سمیلن حج ہاؤس لکھنؤ میں رکھا گیا تھا جس میں فقیر نے بھی شرکت کی، ہمیرپور کے ہمارے عزیز عباد اللہ بھائی ہمیں اس پروگرام میں لے گیے
بام سیف کا فل فارم Backward and Minority Communities Employees Federation، ہے اس تنظیم BAMCEF کو1971 ء میں کانشی رام، ڈی۔کے، کھپارڈ اور دینابھانا نے قائم کیا تھا۔
رسمی طور پر اس تنظیم کا اعلان 6 دسمبر 1978 کو امیڈکر جینتی کے موقع پر کیا گیا تھا – اس تنظیم کی حقیقی عمر 51 سال اور عملی عمر 44 سال ہوتی ہے – ملک میں لاکھوں لوگ اس سے جڑے ہوئے ہیں یہ تنظیم عام طور پر مسلم بیک ورڈ اور دلتوں کی تنظیم مانی جاتی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر ناگپور میں ہے اور اس کے موجودہ صدر وامن میشرام صاحب ہیں
اس پروگرام میں اترپردیس کے علاوہ وہ ملک کے مختلف صوبوں کے عہدے داران و ذمہ داران شریک ہوئے جن کی مجموعی تعداد قریب ایک ہزار ہوگی
سپریم کورٹ کے سینئر لائر جناب محمود پراچہ بھی شامل ہوئے اور محمود پراچہ صاحب نے بڑی خوبی کے ساتھ اپنی بات رکھی، ان کی گفتگو کے کچھ اہم نکات ملاحظہ فرمائیں
(1) ہندو مسلم اتحاد کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو ٹکٹ دیں اور یہ بات ان کی پارٹی کے قوانین میں درج ہو
(2) اب تک ساری پارٹیاں مسلمان دیکھ چکے ہیں اور دھوکے کھا چکے، مزید بھروسا صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب وہاں یقین دہانی قانونی ہو
(3) میری دلی خواہش ہے کہ وزیر اعلیٰ دلت قوم سے ہی ہو ہمیں اس سے کوئی دقت نہیں، لیکن ہمارے حقوق کی پاس داری یقینی ہونا چاہیے
پہلی نشست صبح دس بجے سے شروع ہوئی تھی جو قریب دو بجے ختم ہوئی ، ملک کے مختلف علاقوں سے آئے احباب اپنی آرا پیش فرماتے رہے اور یہ زور دیتے رہے کہ ہندو مسلم اتحاد والی یہ پارٹی ہی ہمارے لیے بہتر ہے
جناب محمود پراچہ صاحب کی باتوں سے بام سیف کے بہت کم لوگ ہی متفق تھے، جب کہ ہمارے جیسے بہت سارے لوگ جن کا تنظیم سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا پراچہ صاحب کی تائید میں تھے
ظہرانے کے بعد ہم لوگوں نے حج ہاؤس میں بنی مسجد میں نماز ادا کی کچھ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو یہ بات سمجھ آئی کہ بہت سے لوگ ہماری طرح بام سیف کا طریقہ کار دیکھنے اور سمجھنے آئے تھے، وہاں بھی زیادہ تر لوگ محمود پراچہ صاحب کی گفتگو کی تائید کرتے دکھے
دوسری نشست قریب ڈھائی بجے شروع ہوئی اور کچھ دیر بعد فقیر کا نمبر بھی آیا، میں جس وقت اسٹیج پر پہنچا بام سیف کے صدر وامن میشرام صاحب اسٹیج پر موجود تھے، پانچ منٹ میں مجھے اپنی بات رکھنا تھی تو میں نے بھی بغیر کسی تمہید کے مدے پر آنا مناسب سمجھا
میں نے جناب محمود پراچہ صاحب کی گفتگو سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا کہ “جو پراچہ صاحب نے کہا ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہیں
یہی ایک واحد راستہ ہے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں جو دونوں قوموں کو ساتھ لا سکے
دوم یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک تنظیم جو قریب پینتالیس سالوں سے فیلڈ پر کام کا دعوی کرتی ہو ، جس کے ممبران لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہوں
نیز تنظیم بھی ہر جگہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہو کہ مسلمان ہمارے دشمن نہیں، باوجود اس کے فسادات میں دلتوں اور پچھڑوں کی شمولیت تنظیم کے قول و فعل میں تضاد دکھا ہی جاتی ہے
سوال یہ ہے کہ کیا تنظیم اپنی راہ سے بھٹک گئی ہے؟ یا پھر اس کے قول کی اہمیت کارکنان کے دلوں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟ –
مجھے لگتا ہے اگر تنظیم اپنی اس کمی پر توجہ مرکوز کرتی تو شاید حالات اس طرح قدر برے نہ ہوتے “-
بام سیف کے قومی صدر کی موجودگی میں ایسی بات کہنا کسے گوارا ہو سکتا تھا، فوراً ہی پیچھے سے ناظم اجلاس نے بات ختم کرنے کو کہا اور پانچ منٹ کا ٹائم بھی پورا نہ ہو سکا
اس کے بعد جھارکھنڈ سے بام سیف کے عہدے دار کھڑے ہوے اور اپنا پورا ٹائم احادیث کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم اس لیے پریشان ہیں کیونکہ ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے
پڑوسی کا خیال نہیں رکھ سکے، اس کا ساتھ نہیں دیا وغیرہ وغیرہ جیسا کہ بام سیف کے صدر ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا – (اس کا جواب ہم ایک مضمون میں دے چکے ہیں )
ایک اور مغالطہ بام سیف کے جتنے مقررین آتے ہر ایک اس بات پر زور دیتا کہ ہم “ہندو” نہیں ہیں، لیکن طرز زندگی وہی ہے، رسمیں وہی ہیں، اور بڑی بات کہ ریزرویشن کا فائدہ اسی ہندو والی کیٹیگری سے ہی لے رہے ہیں
معاشرے میں پہچان بھی وہی ہے، پھر یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں! وجہ صاف ہے کہ اس بات کو کہہ کر مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کیا جائے، اور اب تک جو سیاسی پکڑ بام سیف نہ بنا سکی اس کی کمی مسلمانوں سے پوری کی جائے
کیوں کہ یہی وہ قوم ہے جو چند جذباتی تقریروں اور نعروں میں آکر ہر کسی کو نہ صرف ووٹ دیتی ہے بلکہ ریلیوں میں بھیڑ اکٹھا کرنے، چندہ جمع کرنے اور احتجاجات میں لاٹھی کھانے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتی
نیز یہی وہ قوم ہے جس میں وفاداری کا کیڑا اس قدر پنہاں ہے کہ جان جائے خواہ ایمان، لیکن پارٹی یا پارٹی سپریمو سے عقیدت نہیں جاتی، یعنی چند جملوں سے اس قوم پر دہائیوں راج کیا جا سکتا ہے –
مسلم مورچے کی ضرورت کیوں؟
قریب پچاس سالوں سے کام کرنے والی تنظیم اپنی سیاسی پکڑ اپنی قوم میں نہ بنا سکی، وامن میشرام صاحب کہیں کچھ بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تنظیم کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ تنظیم محدود علاقوں سے باہر نہیں نکل پائی، میڈیا کوریج بھی نہیں ملتا
اگر “جمیعت علمائے ہند” کو چھوڑ دیا جائے تو مسلمانوں میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، یہی وجہ ہے کہ مسلم مورچا بنایا جارہا ہے، تاکہ کچھ سیاسی فائدہ مل سکے
اس کام کی ابتدا اتر پردیش سے ہو رہی ہے جہاں پہلے ہی مسلمانوں کو مخصوص پارٹیوں کے ساتھ منسلک تسلیم کیا جاتا ہے، ایسے میں ایک نیا مورچا مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچائے گا
مسلمانوں کا استعمال بہت ہوچکا، ہر ایک کی صورت بھی پہچانی جا چکی ہے اس لیے اب وقت بڑے ہی احتیاط سے کام کرنے کا ہے، خاص کر علما اس کام کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہوے کریں ، سیاست سمجھیں، سیکھیں
اوروں میں درست سمجھ پیدا کرنے کی کوشش کریں، صوبے، علاقے، کے جیسے حالات ہوں اسی کے مطابق اپنا کام خاموشی سے کرتے رہیں، زمینی سطح پر کام کے بعد ہی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ ⋆ زاہد علی مرکزی
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط سوم ⋆ زاہد علی مرکزی
Pingback: علما اور معاشیات ⋆ اردو دنیا
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم ⋆ تحریر :محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: علما اور مبلغین کے مقامی ہونے کی اہمیت و افادیت ⋆ تحریر محمد زاہد علی مرکزی