کتاب سے دوستی کیجیے
کتاب سے دوستی کیجیے!
تحریر : اختر سردار چودھری
انسان جب شعور کی بلندی پر پہنچتا ہے تو علم حاصل کرتا ہے اور علم کی منزلیں طے کرنے کے لئے کتاب کا محتاج ہوتا ہے۔ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے جدید دورمیں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنابہت ضروری ہے
ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہورہے ہیں۔کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے اورہم موبائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو ہمیں فائدہ تو پہنچاتا ہے لیکن اس سے بہت زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے۔
مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کہیں کھوگئی ہے۔
آج موبائل ضرورت کے بجائے شخصیت کا حصہ سمجھا جا تاہے۔ کسی کے پاس علم کی دولت ہو نہ ہو مگر مہنگا ترین موبائل ہونا ضروری ہے۔ جب کہ ایک کتاب کی قیمت محض چند سو روپے ہوتی ہے۔نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں۔یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتا ب پڑھنے کا وقت نہیں رہا،حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے ۔
دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کا م شروع کیاگیا،جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں،درختوں کی چھال سے لیکر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفرجاری ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے ۔
مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں ،اس کے مختصر اسباب ،غربت ،بے روزگار جس کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے ،
دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی ،پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کاضیا ئع سمجھتے ہیں ۔
ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے
اسے خبطی ،کتابی کیڑا ،پاگل کہا جاتا ہے۔پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے ۔
پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے ۔اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ ترکتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں ،اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لیے بھی رحجان کم ہے۔
پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے ،
تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے۔
پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے ۔پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔پاکستان میں کتاب کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا ،
یورپ میں کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ،یہاں پر لوگ دوران سفر،انتظار گاہ میں اور فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
پاکستان میں اول تو کتابیں لکھنا مشکل ہیں پھر اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین ہے میں نے دیکھا ہے اگر آپ کتاب لکھ لیں تو اسے فری میں ،یا گفٹ مانگا جاتا ہے ،یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے جاننے والے کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے ۔اسی فی صد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں،
پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر ،تاریخ اس کی گواہ ہے
یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیں مسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم ہوتی جارہی ہے ۔