قائدین کی خاموش مزاجی ملت کی تباہی کا پیش خیمہ
قائدین کی خاموش مزاجی ملت کی تباہی کا پیش خیمہ
قائدین کی خاموش مزاجی ملت کی تباہی کا پیش خیمہ
قائد عربی زبان سے مشتق اسم فاعل ہے اس کی جمع قائدین ہے،اوراردو زبان میں معنی و ساخت کے لحاظ سے بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال کیا جاتا ہے ۔
تخلیق کائنات سے لے کر آج تک ہر زمانے میں قائد اور قیادت کا تصور موجود رہا ہے۔ اور انسانی برادری کے لیے یہ تشریف شرف یعنی لباس فاخرہ، خلعت بزرگی سے کم نہیں ہے ۔
اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے یہ عظیم نعمت وامانت ہے، کیونکہ قیادت نام ہے اس حکمت و تدبر، منصوبہ بندی کا جس کے ذریعے انسانی گروہ کے مفادات مصالح، یا کسی انسانی گروہ یا جماعت کے ساتھ اس طرح کے تعلقات و معاہدات طئے کیے جاتے ہیں ہیں یا پھر کوششیں کی جاتی ہیں جو اپنی قوم و ملت کے حقوق کو زیادہ سے زیادہ تحفظ عطا کر سکے ۔
بہترین قائد کی کچھ خصوصیات :۔
(۱) اچھا رہنما و قائد وہ ہوتا ہے جو حق سے بھٹکی ہوئی بدحال قوم کو بے آسرا نہیں چھوڑتا
(۲)زبوں حال قوم کے اصل مرض کی تشخیص کرتا ہے ،پھر ایک ہمہ گیر جدوجہد سے اس کا علاج کر کے شفا یابی تک مسلسل رہ نمائی کرتا ہے
(۳)وہ لوگوں میں باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے
(۴)ناکامی اور مایوسی کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں ہوتا
(۵) لوگوں کو ان کے اعمال کے حوالے سے بروقت اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرتا ہے
(۶)وہ دنیاوی مال و متاع کا نہ تو خود حریص ہوتا ہے نہ دوسرے کو حریص ہونے دیتا ہے
(۷) اس کی حیثیت لاچار اور مجبور قوم کے لئے ایک مسیحا کی سی ہوتی ہے
(۸) وہ ایسے نظام عمل سے متعارف کرواتا ہے کہ جس پر چلتے ہوئے منزل تک پہنچنا ان کے لئے نا ممکن نہیں رہتا
(۹)اچھا قائد لوگوں کے احوال کو بدلنے میں شب و روز کوشاں رہتا ہے
(۱۰)وہ اپنی شخصیت، کردار اور فکر سے ان کی تربیت کرتا ہے
(۱۱) حقیقی لیڈروہی ہوتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کو ہزاروں لیڈر دے جاتا ہے
(۱۲)اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سچا لیڈر، قائد احکام خداوندی کا خود سختی سے پابند ہوتا ہے اور اطیعواللہ و اطیعوالرسول زندگی کا مقصد اور نصب العین ہوتا ہے
موجودہ وقت میں ان خصوصیات کا حامل افراد تلاش کرنا گویا کہ “عنقا” پرندے کی تلاش کرنا ہے
لیکن پھر بھی جن لوگوں پر قائدین کا اطلاق ہوتا ہے اسی حوالے سے تھوڑی سی گفتگو کروں گا: آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت کسی سے مخفی نہیں ہے اور روز بروز ان کی حالت مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔
بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنی ذاتی مفادات ، باہمی چپقلش، اور دنیاوی عیش و عشرت اور منصب، عظمت کی چاہ نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔
گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں رو بہ تنزل، ناپایدار اورعدم استحکام کا شکار ہے ۔ اگر ہم عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی کی بات کریں تو،اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا ۔
او آئی سی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام اکیس 21/اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملہ کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ءکو مراکش کے شہر رباط میں عمل میں آیا ۔
اور اس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اور جنوبی افریقہ ، وسط ایشیا اور پورب،جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر، تقریباً 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ اس کا مقصد عالم اسلام کو درپیش مسائل پر غور اور ان کا حل تجویز کرنا تھا، نیزاسلام فوبیا سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا تھا
لیکن بد قسمتی سے ان کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ یہودی،نصرانی آقاؤں کو خوش کرنے میں گزار دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ قوم مسلم کے ساتھ انہیں بھی وقفہ وقفہ سے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قوم کی موت و زیست اور عروج وزوال کے اسباب قائد کے اپنے قائدانہ رول کے اندر مضمر ہوتے ہیں۔ بہتر قائد وہ ہے جو قومی مفادات کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
قومی حالات کی بہتری کی خاطر کوششیں کرتا ہو اور ایسی منصوبہ بندی جو قوم کو آگے لے جائے۔ لیکن ہمارے سیاسی مسلم رہنماؤں نے معاشرہ کی ترقی کے بجائے اپنےسیاسی کیریئر پر زیادہ توجہ مرکوز کی؛ یہی وجہ ہے کہ قوم مسلم بھی ان سے بیزار ہے
حالاں کہ موجودہ وقت میں امت مسلمہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اگر ہم ملک ہندوستان کی بات کریں تو تقسیم ہند ہی سے ہماری کمر ٹوٹ گئی ،جنگ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے باوجود کرم فرماؤں نے ہم سے امتیازی سلوک روا رکھا
لیکن پھر بھی ہم میں ایسے افراد موجود تھے جو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کے قومی، ملی مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔ان کے خلاف اٹھنے والی آواز کا جواب دینے کی طاقت رکھتے تھے
لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی نے ہمیں ذلت و رسوائی کے قعر عمیق میں ڈھکیل دیا اور اب اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات پر کوئی آمادہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ وقت میں مسلمانوں کو” مسلم پرسنل لا “میں تبدیلی شمالی ہند میں “گوکشی” “لو جہاد” کے بہانے غیرانسانی کرائم “مآب لنچنگ ” شان رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں گستاخی “”میڈیا” کے ذریعے مستقل طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک و برتاؤ جیسے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے
اور اپنی قوم اور ہمارے قائدین کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ اور شاید گزشتہ دو تین سال میں طلاق ثلاثہ، ہیٹ کرائم، سی اے اے، اور این آر سی اور تحفظ ناموس رسالت وہ اہم معاملات رہے ہیں
جس نے مسلم قائدین کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہےکہ لوگ مسلمانوں کے قتل عام کے طریقے سوچ رہے ہیں
جیسا کہ حال ہی میں “ہری دوار” میں ایک نام نہاد” دھرم سنسد” کا اہتمام ہوا ، جس میں شدت پسند پجاریوں نے اشتعال انگیز تقریریں کی، جس کو لے کر غیر ملکی میڈیا نے شدید رد عمل ظاہرکیا
مگرہمارے ملک کا میڈیا ، یہاں کی سرکار اس معاملے میں بالکل خاموش رہی اور ہمارے قائدین تو پہلے ہی سے کسی بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اللہ ہی ان کا محافظ ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تحریر: مفیض الدین مصباحی، کشن گنج
استاد جامعہ منعمیہ میتن گھاٹ پٹنہ سیٹی
ان مضامین کو بھی پڑھیں