اسد الدین اویسی سے خوف اور مخالفت کیوں
تحریر : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز اسد الدین اویسی سے خوف اور مخالفت کیوں؟
اسد الدین اویسی سے خوف اور مخالفت کیوں
۔”مجھے ایجنٹ اور دلال بولنے والے مسلمانوں قیامت کے اُس حساب کے دن سے ڈرو جس دن میں تمہارے سامنے خدا کے دربار میں انصاف کے لیے کھڑا ہوں گا“۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی کی اس جذباتی اور رونگٹنے کھڑا کردینے والی تقریر کے الفاظ سوشیل میڈیا پر وائرل ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ تقریر اترپردیش کے سہارن پور یا مرادآباد میں کی ہے۔ ان الفاظ کو سن کر لگا کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔
کوئی 25 برس پہلے مکہ مسجد میں جمعۃ الوداع کے یوم القرآن سے خطاب کے دوران سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسی (مرحوم) نے اپنے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے قرآن پاک کو ہاتھ میں لے کر پہلے تو الزام عائد کرنے والوں کو چیالنج کیا کہ وہ آئیں اور قرآن اٹھا کر قسم کھائیں کہ میں (صلاح الدین اویسی) نے کسی سے کبھی کسی معاملے میں سودے بازی کی ہے۔
پھر سالارِ ملت نے اللہ کے دربار میں اللہ کی آخری آسمانی کتاب کو اپنے سر پر رکھ کر قسم کھاتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنے کسی رشتہ دار کے لیے، اپنی جماعت کے لیے یا بابری مسجد کے کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی۔
اگر میں نے سودے بازی کی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اور میری اولاد کو نیست و نابود کردے ورنہ جھوٹ الزامات عائد کرنے والوں کو نیست و نابود کردے“۔
جناب صلاح الدین اویسی کے ان الفاظ نے حیدرآباد کی سیاست کی کایا پلٹ دی۔ وہ لوگ‘ وہ جماعتیں جو منظم طریقے سے ان کے خلاف تحریک چلارہے تھے‘ ان کی شدت میں کمی آگئی۔
عام مسلمان کے دل اور دماغ مکمل طور پر بدل گئے۔ حالاں کہ اس وقت کے حالات کچھ ایسے بدل گئے تھے کہ حیدرآباد کی پارلیمانی نشست سے مجلس کا انتخاب سوالیہ نشان بن گیا تھا۔
کیوں کہ اسمبلی انتخابات میں مجلس تین ارکان سے ایک رکن بیرسٹر اسدالدین اویسی تک محدود ہوگئی تھی۔
بابری مسجد کی شہادت کے لیے مسلم قیادت کو پوری طرح سے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا اور اس وقت جناب اویسی مرحوم قومی سطح پر اہم مسلم قائدین میں شمار کیے جاتے تھے۔
حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ بابری مسجد رابطہ کمیٹی اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی میں مسلم قیادت تقسیم ہوگئی تھی۔ مسجد کی شہادت اور اس کے بعد کی خاموشی کو میڈیا نے کچھ اس انداز سے پیش کیا تھا کہ مسلم قیادت بابری مسجد کی شہادت کے لئے ذمہ دار سمجھی جانے لگی۔
دہلی، علی گڑھ بلکہ شمالی ہند میں مسلم قائدین تقریباً گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ چاہے وہ شہاب الدین ہوں یا امام بخاری۔ سلیمان سیٹھ، بنات والا، صلاح الدین اویسی (مرحومین) کے علاوہ علی میاں ندوی پر تک الزامات عائد کئے گئے تھے۔
حیدرآباد میں مسلم متحدہ محاذ جو جماعت اسلامی، رہنمائے دکن، مسلم لیگ، تعمیرملت، مولانا عاقل مرحوم، مجلس بچاؤ تحریک پر مشتمل تھا‘ اس نے مجلس کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ ہم بھی اس تحریک کا ایک حصہ تھے
۔ ”سو سونار کی ایک لوہار کی“ کے مصداق صلاح الدین اویسی مرحوم کا مکہ مسجد میں اعلان اور قرآن کو سر پر اٹھابلینا تمام مخالفین کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہوگیا تھا۔
اس کے بعد سے مجلس نے دوبارہ پلٹ کر نہیں دیکھا۔ 1999 کے الیکشن کے بعد سے آج تک اس کے ارکان کی تعداد بڑھتی گئی۔ لگ بھگ 25 برس بعد بیرسٹر اسدالدین اویسی تقریباً ایسے ہی دور یا مراحل سے گزر رہے ہیں جیسے صلاح الدین اویسی مرحوم کو گزرنا پڑا تھا
۔ 3/اکتوبر 2015ء کو خود بیرسٹر اسدالدین اویسی کے فیس بک اکاؤنٹ پر ا ن کے ایک چاہنے والے نے سالارِ ملت کے مکہ مسجد میں قرآن سر پر اٹھانے کے واقعہ کی ویڈیو لنک اپلوڈ کی ۔
جس کے ساتھ یہ نوٹ بھی لکھا گیا کہ بڑے دکھ کی بات تھی تب بھی جب ایک سچے کو اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے قرآن پاک کی قسم کھانی پڑی تھی‘ آج بھی وہی حال ہے لوگوں کا، اسد صاحب اور اکبر صاحب پر الزامات عائد کرنے کا۔
اس میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر مجلس کے ساتھ نہیں چل سکتے تو خدا را اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کرو۔
آج ہم شکست کھاتے ہیں تو اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے بس اس بات پر غور کرو میرے مسلمانو!۔
اگرچہ کہ یہ پوسٹ 6 برس پہلے کی ہے مگر آج اسد اویسی نے جس طرح اپنی تقریر میں الزام یا بہتان طرازی کرنے والوں کو لتاڑا ہے انہیں خدا کا خوف دلایا ہے
اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ الزامات کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ اسد اویسی کی اس تقریر کے ان الفاظ نے جانے کتنے دلوں پر کیا کیا اثر کیا ہوگا!۔
اب کوئی بے ضمیر ہی ہوگا جو اب بھی الزام اور بہتان تراشی کرتا رہے گا۔
رہ نمائے دکن کے ایک فرد کی حیثیت سے اس کی پالیسی کے مطابق ہم نے مجلس کے خلاف کئی مضامین لکھے۔ وہ عمر کا ایسا دور تھا جب لوگوں کی تعریف سے آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہم زمین سے رشتہ ختم کردیا کرتے تھے۔
حالاں کہ نہ تو رہنمائے دکن سے اس کا کوئی صلہ ملا اور نہ ہی مخالف مجلس مہم کا کوئی فائدہ ہوا۔
مجلس سے فاصلے ہمیشہ رہ گیے۔ یہ پروفیسر اخترالواسع تھے جنہوں نے ہمارے نظریہ اور انداز فکر کو تبدیل کیا۔ حیدرآباد کے گیسٹ ہاؤز میں ان سے بہت تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ سمجھایا تھا کہ مسلم قیادت بد نہیں ہے۔ اسے ایک سازش کے تحت بد نام کیا جارہا ہے۔
میڈیا کے ذریعہ ان کے خلاف اس طرح سے پروپگنڈہ کرکے مسلم ذہن سازی کی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور قیادت کے درمیان دڑاڑ پیدا ہوجائے۔ مسلم قیادت مسلمانوں کے اعتماد سے محروم ہوجائے۔
بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے بعد ایک منظم طریقے سے ایسی ہی تحریک چلائی گئی تھی تاکہ مسلم قیادت کروڑوں مسلمانوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں کام یاب نہ ہوسکے۔
مسلم قائدین کو عام مسلمانوں کی نظروں سے گرادیا گیا۔ جس کا فائدہ بابری مسجد کے قاتلوں کو ہوا۔ اخترالواسع کے سمجھانے کا انداز واقعی ایک استاد جیسا تھا۔ اور اس کے بعد پھر ہم نے مسلم قیادت چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو‘ اس کے خلاف اپنا قلم استعمال نہ کرنے کا عہد کیا۔
گواہ کی اشاعت کا آغاز ہی اس کی غیر جانبدار پالیسی کے عزم اور عہد کے ساتھ ہوا تھا اور گزشتہ 22 سال کے دوران ہم نے اپنے خصوصی اشاعتوں کے ذریعہ ملی اتحاد کی کوشش کی۔
حتیٰ کہ حیدرآباد پارلیمانی نشست کے لیے جب آپسی اختلافات میں شدت پیدا ہوگئی تھی تب بھی ہم نے مجلس کے حق میں تحریک چلائی۔ حیدرآباد کی اہم مسلم شخصیات کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے کئی مضامین لکھے
۔ 2000ء میں گواہ کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی شمارے میں ہم نے یہ لکھا تھا کہ ”حیدرآبادی مسلمان چاہتا ہے کہ مجلس اتحادالمسلمین اور تعمیر ملت متحد ہوجائیں“ تعمیر ملت مسلمانوں کی ذہنی اور فکری تربیت کرے اور مجلس مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرے۔
اُس وقت مجلس اور تعمیر ملت دونوں ہی جانب سے حوصلہ افزا رد عمل کا اظہار نہ ہوا بلکہ ہمارے خیالات کا مذاق اڑایا گیا۔
مگر ایک سال بعد حیدرآباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس ہوا تب برسوں بعد مجلس اتحادالمسلمین، تعمیر ملت اور مولانا عاقل اپنے اختلافات کو دفن کرکے ایک ہوگئے۔
وہ دن حیدرآباد کے مسلمانوں کے لیے عید کے دن جیسا تھا گواہ نے سالار ملت اور مولانا عاقل کی مصافحہ کرتی ہوئی تصویر کو سرورق پر شائع کیا۔ تو دارالسلام میں گواہ کے شمارے مونگ پھلی کی طرح فروخت ہوئے تھے۔
اب الحمدللہ! روزنامہ سیاست نے بھی اپنی پالیسی کو بھی تبدیل کیا ہے‘ جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ ورنہ حیدرآبادی مسلمانوں نے وہ دور بھی دیکھا کہ حیدرآباد کے تین اردو اخبارات متحدہ طور پر مجلس کی مخالفت کیا کرتے تھے جو گزر گیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور تلخ یادوں میں رہ گیا۔
نہ خان لطیف خان رہے‘ نہ وقارالدین نہ ہی سالار ملت۔ جواں نسل کو عملی سیاست اور صحافت کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے اپنی قوم و ملت کی رہنمائی کرنی ہوگی۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی کی لاکھ مخالفت سہی‘ ان کی صلاحیتوں سے انکار ان کا بدترین دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ یہ
One Man Army
ہیں۔
۔”ایک اکیلا 100 پر بھاری“کتنے نیشنل ٹی وی چیانلس نے کس کس طریقے سے کیسی کیسی دیوقامت سیاسی ہستیوں کے ساتھ ان کے مقابلے کروائے۔ اسد اویسی ہر مقابلے میں اپنے حریف پر حاوی رہے۔ چاہے وہ سبرامنیم سوامی ہو یا کوئی اور۔ پاترا وغیرہ کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔
غیر معمولی مطالعہ اردو اور انگریزی میں ولولہ انگیز مگر مدلل خطابت کی خداداد صلاحیت‘ کسی سے مرعوب نہ ہونے کی صفت نے اسد اویسی کو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا رہنما بنادیا جسے چیالنج کرنے کے لیے دو ر دور تک کوئی اور مسلم لیڈر نظر نہیں آتا۔
بعض قائدین اپنے اپنے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ مگر قومی سطح پر انہیں کوئی نہیں جانتا۔ بہترین اردو بولتے ہیں مگر انگریزی سے نابلد۔
مذہبی معاملات غیر معمولی ہوں گی مگر دستور ِہند اور دیگر قانونی امور سے بالکل ناواقف۔ اس کے برعکس اسد اویسی کسی بھی موضوع پر اپنے بات کو منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں بی جے پی یا کسی اور جماعت کا ایجنٹ یا دلال کہنا آسان ہے‘ ثابت کرنا آسان نہیں۔
کیوں کہ جہاں جہاں ایسے الزامات عائد کیے گئے اسد اویسی نے تاریخ اور اعداد و شمار کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ جب وہ مقابلہ میں نہیں تھے تب بھی بی جے پی طاقت ور تھی‘ رہی بات سیکولر جماعتوں کے نام نہاد سیکولرزم کی تو ہندوستان میں کوئی بھی جماعت سیکولر نہیں ہے۔ اور سیکولرزم سے بڑا فراڈ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
عیدین کے موقع پر گلے میں رومال ڈال لینے یا سر پر ٹوپی پہن لینے سے کوئی سیکولر نہیں بن جاتا اور نہ ہی مسلمانوں سے متعلق کسی کا نظریہ بدل سکتا ہے۔
سیکولر تو وہ ہے چاہے وہ اپنے ماتھے پر کتنا بھی بڑا تلک لگائے اپنے لباس وضع قطع سے کتنا ہی کٹر کیوں نہ نظر آئے اس میں دوسرے مذہب سے نفرت نہ ہو۔آج تو ہر جماعت ایک دوسرے سے مقابلہ کررہی ہے۔
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ زیادہ ہندوتوا نظریات کو فروغ دینے کے اہل ہیں۔ ورنہ بدھ مت ا ختیار کرنے والی پرینکا گاندھی کو مندروں کے درشن کی ضرورت نہ پڑتی۔ ایک دور تھا ملائم سنگھ کو مولانا ملائم سنگھ او ررفیق ملت کہا جاتا تھا اور اکھلیش یادو کو مسلمانوں کا ہم درد۔
مگر 2012ء کے مظفر نگر کے فسادات انہی کے دور میں ہوئے جہاں 62 میں سے 42 مسلمان قتل ہوئے۔ 50 ہزار سے زائد اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جابسنے کے لیے مجبور ہوئے۔ گجرات، بھاگل پور جیسے واقعات پیش آئے۔ کتنے گناہ گاروں کو قانون کے شکنجے میں کسا گیا ؟ آج بھی لوگ آزاد پھر رہے ہیں۔
بی جے پی ایم ایل اے وکرم سائنی اور اس کے ساتھی کمزور گواہوں کی وجہ سے رہا ہوگیے۔جب کہ سابق مسلم وزیر سعیدالزماں،ایم ایل اے قدیر رعنا اور مولانا جمیل کے خلاف مقدمہ دائر ہوئے۔
کانگریس، سماج وادی پارٹی، بی ایس پی نے بی جے پی کا خوف دلاکر مسلمانوں کا سیاسی استحصال کیا۔ بی جے پی تو کھلی دشمن ہے۔
نام نہاد جماعتیں سیکولرزم کے نقاب اوڑھے چھپ کر وار کرتی ہے۔ بی جے پی کھل کر وار کرتی ہے۔ دہلی میں کیجریوال جیسا تعلیم یافتہ، مہذب چیف منسٹر ہیں مگر دہلی کے فسادات میں کون تباہ ہوئے‘ کون آزاد رہے۔
ممتابنرجی مسلمانوں کے طفیل اقتدار پر آئیں۔ مگر بنگال کے مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی حالت کیا ہے۔ وہاں کے عوام سے پوچھا جائے تو حقیقت معلوم ہوگی۔
اسد اویسی ایک طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم موجودہ حالات سے آپ کو کڑھن، کوفت ہوتی ہے اس کی بھڑاس اسد اویسی کی تقاریر سے نکل جاتی ہے۔
اسد اویسی نے دل کی گہرائیوں سے الزام تراشی کرنے و الو ں کو اللہ کی عدالت میں گھسیٹا ہے کم از کم اب تو غیر ضروری تبصرے اور الزامات سے خود کو روکنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون :9395381226
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: اویسی کے بھڑکاؤ بھاشن ایک سوال کا جواب ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: ارطغرل غازی اور یوپی کا الیکشن ⋆ اردو دنیا ⋆ از:مدثر احمد،شیموگہ،کرناٹک
Pingback: آن لائن تعلیم اور طلبہ کی بے رغبتی ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
Pingback: ہر بار الیکشن میں لگتا ہے مسلم ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ ⋆ زاہد علی مرکزی
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط دوم ⋆ محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط سوم ⋆ زاہد علی مرکزی
Pingback: علما اور معاشیات ⋆ اردو دنیا
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم ⋆ تحریر :محمد زاہد علی مرکزی