علامہ یوسف قرضاوی عظیم اسلامی مفکر
علامہ یوسف قرضاوی عظیم اسلامی مفکر اور بین الاقوامی علمی وروحانی قائد
✍️:مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین
اگر بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں عالمی پیمانے پر زبردست شہرت اور بے مثال مقبولیت رکھنے والی علمی وفکری شخصیت کی کوئی فہرست تیار کی جائے تو اس میں ایک نمایاں نام الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے بانی وصدر علامہ یوسف قرضاوی کا ہوگا. ان کی وفات سے پون صدی پر مشتمل ایک تابناک علمی وفکری عہد کا خاتمہ ہوگیا. آپ سے اس عاجز کی آخری ملاقات نومبر 2019 میں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے جنرل اسمبلی کے پروگرام میں استنبول ترکیہ کے ہوٹل گرانڈ جواہر میں ہوئی .. اس موقع پر اس عاجز کو حضرت علامہ سے دعائیں لینے کا شرف حاصل ہوا… جب علامہ نے الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے اختتامی اجلاس کی صدارت کی اور بلند پایہ بصیرت افروز صدارتی کلمات کہے؛ تو شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہو جو خوف الہی سے اشکبار نہ ہوئی ہو، علامہ نے تمام اراکینِ اتحاد سے یہ عہد بھی لیا کہ آپ لوگ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے.
علامہ پر ان ایام میں فکر آخرت کا بڑا غلبہ تھا؛ اس لیے انھوں نے بہ اصرار الاتحاد العالمی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی نگرانی میں مشہور ماہر مقاصد شریعت علامہ احمدریسونی کو صدر منتخب کروایا… اتفاق کہ اب وہ بھی صدر نہیں رہے بلکہ مجلس امناء نے اگلی مجلس عمومی تک ایک ممتاز انڈونشین عالم ڈاکٹر حبیب سالم الثقافۃ الجعفری کو صدر منتخب کر لیا ہے.
آپ جدید نافع اور قدیم صالح کے سنگم تھے. تمام طبقات میں آپ کو بڑا احترام کا مقام حاصل تھا. ایک زمانے میں الاخوان المسلمین کے سب سے نمایاں چہرہ سمجھے جاتے تھے. لمبے عرصے تک آپ تقریباً تمام بین الاقوامی علمی وفکری و فقہی اکیڈمی کے رکن رکین ہوا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ عرب بہاریہ کے بعد اخوان المسلمین کے دبدبہ سے خائف طبقہ آپ سے ناراض ہو گیا… لیکن آپ بلاخوف لومۃ لائم اپنے افکار و نظریات پر تاحین حیات قائم رہے.
علامہ یوسف عبداللہ قرضاوی کی شناخت ایک مصری نزاد ممتاز عالمی اسلامی اسکالر کے طور پر ہے آپ کی خدمات کی جہات متنوع ہیں، جن میں ایک نمایاں کارنامہ انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز کا قیام ہے، جس میں دنیا کے چھ بر اعظم کے مسلم اسکالرز کی فعال شمولیت ہے.. آپ کی ولادت
9 ستمبر 1926 کو سابق مملکت مصر میں مغربی گورنری کے ایک مقام مرکز صفط تراب نامی گاؤں میں ہوئی؛ ان کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ دو سال کے تھے، ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا نےسنبھالی۔
کم عمری میں ہی قرآن حفظ کیا، انہوں نے الازہر سے منسلک ایک مدرسہ سے ثانویہ کی تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبرات کے ساتھ امتحان میں کامیاب ہوئے.
اس کے بعد، انہوں نے الازہر یونیورسٹی کلیۃ الاصول میں داخلہ لیا اور 1953 میں اصول دین میں گریجویشن کیا اور اپنے ساتھیوں میں پہلے نمبر پر رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ازہر کے کلیۃ اللغۃ العربیہ سے 1954 میں ممتاز پوزیشن کے ساتھ بی ایڈ کیا ۔1958 میں عرب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ہائر عرب اسٹڈیز سے زبان و ادب میں مہارت کا ڈپلومہ حاصل کیا۔
علامہ یوسف قرضاوی مشہور عالم سید ابوالاعلیٰ مودودی اور اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کے عقیدت مند ہیں ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا۔ ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو مشتعل کر دیا چنانچہ ان کو قید و بند کا سلسلہ جاری رہا
1949 میں شاہی دور میں انہیں اخوان المسلمون سے تعلق کی وجہ سے پہلی بار گرفتار کیا گیا.
اسی طرح جمال عبدالناصر کی سربراہی میں جمہوریہ کے دور میں جنوری 1954 میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا اور پھر اسی سال نومبر میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور وہ تقریباً 20 ماہ تک جیل میں رہے.
تیسری مرتبہ دوبارہ گرفتار ہوئے اور 1961 میں اپنے وطن مصر سے ہجرت کر کے قطر چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی آخری سانسیں لیں.
1960 میں، انہوں نے ازہر کے کلیۃ اصول الدین سے قرآن و سنت کے علوم میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی، جو ماسٹر ڈگری کے برابر ہے۔
1973 میں اسی کالج سے امتیازی حیثیت کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، مقالہ کا موضوع “زکوٰۃ اور سماجی مسائل کے حل پر اس کے اثرات” کے زیر عنوان تھا۔
علامہ کو اپنے اخوان افکار و خیالات کی وجہ سے قید و بند کی آزمائش ودیگر مشکلات سے گذرنا پڑا. آپ کی ذات ان اشعار کا مصداق تھی :
قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہ کن کے حوصلے کا امتحان آخر
ابھی اس خستہ کے نیروے تن کی آزمائش ہے.
ایک مرتبہ برطانوی حکام نے علامہ یوسف القرضاوی کو 1948 میں فلسطین کے اندر خودکش کارروائیوں کی حمایت کی وجہ سے اپنے علاقوں میں داخل ہونے کا ویزا دینے سے انکار کر دیا۔
26 مارچ 2012 کو فرانسیسی صدر سرکوزی نے علامہ قرضاوی کو ایک ناپسندیدہ شخص ہونے کی وجہ سے فرانس میں داخل ہونے سے روک دیا۔
2009 میں اردن کے رائل سینٹر فار اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز کی طرف سے جاری کردہ کتاب میں انہیں 50 بااثر مسلم شخصیات میں 38 ویں کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔
علامہ یوسف قرضاوی کے چند حکمت خیز جملے ضرب المثل بن گئے. چند درج ذیل ہیں :
“مشكلة الأمة الإسلامية هو أن المسلمين لا يعملوا، لقد حوّل الإسرائيليون الصحراء لواحة.”
“امت مسلمہ کا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کام نہیں کرتے، اسرائیلیوں نے صحرا کو نخلستان بنا دیا ہے۔”
نحن نستخدم القطارات والطائرات ولكنها ليست قطاراتنا ولا طائراتنا، نحن نملكها لكن لا نصنعها.”
“ہم ٹرینیں اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں لیکن وہ ہماری ٹرینیں یا ہمارے طیارے نہیں ہیں، ہم ان کے مالک ہیں لیکن ہم انہیں نہیں بناتے۔”
الإسلام يعلمنا أن نعمل الأشياء بطريقة مهنية، إن العمل بشكل مهني هو واجب ديني.”
” اسلام ہمیں پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرنے کا درس دیتا ہے، پیشہ ورانہ طور پر کام کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔”
علامہ یوسف قرضاوی نے 120 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جو انہوں نے علمی اور اکیڈمک اسلوب اور عام فہم سائنٹفک انداز میں لکھیں۔اس لیے انھیں بے نظیر مقبولیت حاصل ہوئی.
علامہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں اہم ترین کتابیں یہ ہیں: كتاب القانون والممنوع في الإسلام؛ فقه الزكاة ؛الحلال والحرام في الإسلام ؛ فقه الجهاد، ؛ فقه الأولويات ؛ فقه الدولة.
ان کتابوں میں سے اکثر کا دنیا کی دیگر علمی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے.
علامہ یوسف قرضاوی الجزیرہ چینل پر نشر ہونے والے اپنے پروگرام شریعت اینڈ لائف کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے معتدل افکار کی وجہ سے
انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی. دیگر ممالک میں بھی ان کے نظریات کو پسند کیا جاتا تھا.
1977 میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے قطر یونیورسٹی میں کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کا سنگ بنیاد رکھا؛ جہاں وہ اس کالج کے ڈین بنے، اسی سال انہوں نے مرکز برائے سیرت نبوی کے قیام کا اعلان کیا۔
وہ 1990 سے 1991 تک الجزائر میں اسلامی یونیورسٹی اور اعلیٰ اداروں کی اکیڈمک کونسل کے صدر بھی رہے۔
برٹش پراسپیکٹ میگزین اور امریکن فارن کے سروے کے مطابق، 2008 میں، القرضاوی دنیا کے سب سے ممتاز 20 بااثر افراد میں تیسرے نمبر پر تھے۔
علامہ موصوف آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے سربراہ بھی رہے
علامہ قرضاوی کو متعدد ممالک اور اداروں کی طرف سے بہت سے اعزازات اور ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ، جن میں 1991 میں اسلامی ترقیاتی بینک کا ایوارڈ، اور 1994 میں، انہیں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز فار اسلامک اسٹڈیز، اور سلطان آف برونائی پرائز برائے اسلامی فقہ حاصل ہوا۔
1998 – 1999 میں، انہیں ثقافتی اور علمی کامیابیوں کے لئے سلطان ال اویس ایوارڈ سے نوازا گیا، 2000 میں، انہیں دبئی مقدس قرآن ایوارڈ برائے اسلامی شخصیت سے نوازا گیا۔
2008 میں، انہیں حکومت قطر کی طرف سے اسلامی علوم کے شعبے میں خدمات کے لیے ریاستی توصیفی ایوارڈ سے نوازا گیا، اور 2009 میں، ملائیشیا کی حکومت کی طرف سے ہجرت نبوی کے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا.
علامہ قرضاوی کی شخصیت ان مضبوط شخصیات میں سے تھی جنہوں نے فلسطینی کاز اور مزاحمت کا بھرپور دفاع کیا اور انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کی آزادی ایک دینی وملی فریضہ ہے اور اس سرزمین کے ذرہ برابر حصہ سے بھی دست بردار ہو نا ایک شرعی وملی جرم ہے.
مغرب اور امریکہ کے زیر اثر بعض طاقتوں نے آپ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مرحلے میں بھی سرخروئی عطا کی. خلاصہ یہ ہے کہ علامہ یوسف قرضاوی وہ ممتاز انسان تھے کہ ان جیسے انسان کے جلوہ افروز ہونے کے لیے بقول میر تقی میر فلک کو برسوں گردش میں رہنا پڑتا ہے.
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
جس او العزمی کے ساتھ آپ نے زندگی گذاری اللہ کی ذات سے امید ہے کہ جنت میں پر کیف فضاؤں کے جھونکے آپ کے منتظر ہوں گے :
جھونکے نسیم خلد کے ہونے لگے نثار
جنت کو اس گلاب کا تھا کب سے انتظار
اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ یا ارحم الراحمین.
بندہ خالد نیموی قاسمی
رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین