پٹتے اورقتل ہوتے ائمہ
پٹتے اورقتل ہوتے ائمہ
اہل محلہ اور اراکین مساجد کی آپسی ناچاقیوں کاشاخسانہ
از:مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیاومفتی مرکزی دارالافتاء،بریلی شریف
ادھرچندسالوں میں ائمۂ مساجدکے ساتھ نازیباحرکات ،گالی گلوج ،مارپیٹ اوربہیمانہ قتل جیسے کربناک واقعات کااضافہ بڑی تیزی سے ہواہے، جوقوم وملت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے ،ان سبھی واقعات میں کوئی غیرنہیں بلکہ ان کے اپنے مقتدی ملوث پائے گئے ہیں، حاملان علوم اسلامیہ کو ویسے ہی کیاکچھ کم معاشی مشکلات درپیش تھیں جو نسل نوکے مدارس ومساجدکی طرف بڑھتےقدم کے لیے سدراہ ثابت ہورہی تھیں
اب یہ نئی مصیبت جوان کی حفاظت کو بھی مخدوش بنارہی ہے مزید تشویش ناک اورہول ناک ہے ،اگر اسی طرح کے حالات رہے تواللہ نہ کرے! مساجدکی ویرانی جیسی صورت پیداہوجائے گی ،ظاہرہےکہ جب علما ہی نہ ہوں گے تومساجدمیں امامت کون کرے گا؟اورجب امام ہی محفوظ نہیں توامامت کوتیارکون ہوگا؟
اس صورت حال کاتصور ہی ہولناک ہے ،ایسی تباہ کن صورت حال سے بچنے کے لئے قوم وملت کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، ائمہ کے ساتھ اپنے رویئے کااحتساب کرناہوگا۔ مساجد میں دینی خدمات انجام دینے والے ائمۂ کرام عموماً غریب الوطن ہوتے ہیں، جو بیرونی اضلاع یاصوبہ جات سے اپنے بیوی بچوں اورعزیز واقارب کوچھوڑ کر سیکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر کے مسافت پراپنے فرائض انجام دیتے ہیں
فرائض کی انجام دہی کے دوران جہاں کچھ لوگ ان کے مداح وخیرخواہ ہوجاتے ہیں، وہیں کچھ بدخواہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں، اگریہ خیرخواہی اور بدخواہی دینی اور شرعی تقاضوں کی تکمیل کے سبب ہو تو کوئی مضائقہ نہیں
لیکن افسوس! اکثریہ خیرخواہی اوربدخواہی اہل محلہ اور اراکین مسجد کے ذاتی مفادات اور آپسی ناچاقیوں کا شاخسانہ ہوتی ہے، جس کے شکارخواہی نخواہی ائمہ مساجد ہوتے رہتے ہیں۔
اہل محلہ میں ایسے بہت افراد ہوتے ہیں جو براہ راست اپنے مدمقابل سےالجھنے کے بجائے اپنی بندوق امام صاحب کے کاندھے سے چلانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں، اس کے لئے وہ (امام صاحب!آپ فلاں کے یہاں بھی دعوت میں چلے گئے؟ وہ توناجائز و حرام کارو بار کرتا ہے یابدمذہبوں سے ملتا جلتا ہے، یااس کی دیوبندی وہابی سے رشتہ داری ہے، وہ صلح کلی ہوگیاہے، جیسا) کوئی بھی غلط الزام لگاکرامام صاحب کوان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں
نتیجہ یہ ہوتاہے کہ امام صاحب اس سے ملناجلنا، کھانا پینا اور علیک سلیک سب ترک کر دیتے ہیں اوریہیں سے سامنے والا امام صاحب سے ذاتی مخاصمت پر آمادہ ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ مارپیٹ اور کبھی کبھی قتل جیسے بھیانک واقعات کی صورت میں سامنے آتاہے، ایسی صورت حال میں جس کااصل معاملہ ہوتاہے وہ بالکل صاف بچ جاتا ہے اور امام صاحب دام تزویر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اراکین مساجد بھی کچھ کم نہیں ہوتے ، وہ چاہتے ہیں کہ امام صاحب فقط ان کے اشارۂ ابروپرکام کریں، خواہ وہ کام شرع کےمخالف ہویاموافق ! انھیں تو بس اپنی بات پرآمناوصدقناکہنے والاامام چاہئے،دراصل مساجدکے اراکین کی ایک بڑی تعدادجاہل، بدمزاج، غیرذمہ داراورغیر دین دار لوگوں پرمشتمل ہوتی ہے، جنھیں علمائے کرام کی قدرومنزلت کا ادراک تو دور استنجے کا بھی درست شعور نہیں ہوتا
البتہ یہ پیسے جمع کرنے میں نہایت چست اورامام ومؤذن پہ خرچ کرنے میں نہایت ہی سست ہوتے ہیں، اچھے خاصے فرش کو توڑ کر’’ٹائلس‘‘ لگانے میں اور ٹائلس کو توڑ کر’’ماربل‘‘ لگانے میں ان کی ’’کشادہ ظرفی‘‘ کا عالم قابل دید ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی امام صاحب نے حالات وضروریات کاحوالہ دے کر تنخواہ میں اضافہ کی بات کی، فوراً ان کے اندر کسی متقی کی روح حلول کرجاتی ہے، پھر وہ تقویٰ اورقناعت شعاری پرایسا’’بھاشن ‘‘دیتے ہیں کہ بے چارہ امام خجل خجل جاتاہے اور ان کے بھاشن کا مقصد جانتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہیں پاتا۔
فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ائمہ مساجد کو ایسے نا اہل اور ظالم اراکین مسجد کی خوشنودی کابھی خیال رکھنا پڑتا ہے، میرے کسی دوست نے بتایاکہ ایک امام کومحض اس لئے صدر نے برخاست کر دیا کہ انھوں نے اس کی بیٹی کی شادی میں باراتیوں کے استقبال میں کسی وجہ سےشرکت نہیں کی، جبکہ اس سے پیشتر صدر کے کسی مخالف کی بیٹی کی شادی میں باراتیوں کے استقبال میں شرکت کی تھی
لہٰذا صدر صاحب کی غیرت صدارت کو جوش آیا گیا اور امام صاحب کو منصب امامت سے آناًفاناً ہاتھ دھونا پڑگیا۔ اسی طرح خلاف شرع امور میں ملوث ایک’’ پیرصاحب‘‘سے سلام کلام نہ کرنے پر ان کے مرید ممبران مسجد نے امام کوبرطرف کردیا۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دنیا کے سارے خطوں میں کسی بھی ملازم کے لئے ایک ’’ورکننگ آور‘‘متعین ہے، چنانچہ جب کسی ملازم کی تقرری عمل میںآتی ہے تو اسے اسی وقت بتا دیا جات اہے کہ اسے کتنے گھنٹے کام کرناہے، اسے ہفتے میں کتنی چھٹیاں ملیں گی، کتنی تنخواہ ملے گی اور اس میں کتنے دنوں پر کتنا اضافہ ہوگا اور اگر کبھی ملازمت سے برطرفی کی نوبت آئے گی تو کتنے دنوں قبل اسے اس کی اطلاع دی جائے گی، اس وقت پوری تنخواہ دی جائے گی یا آدھی یا بالکل نہیں؟ یہ ساری باتیں قبل از ملازمت طے ہوجاتی ہیں، پھر اسی حساب سے ملازمت چلتی رہتی ہے ۔
لیکن ائمہ کی ملازمت میں ان میں سے کسی بھی چیز کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی، 7×24؍کی ڈیوٹی، کوئی ہفتہ واری یاماہانہ چھٹی نہیں، جب مرضی ہوئی، تنخواہ دی، جب چاہا ملازمت سے برخاست کر دیا، جب چاہا کھری کھوٹی سنادی اور امام صاحب کو تو ایسے لوگ بھی کھری کھوٹی سنا دیتے ہیں جن کی ان کے اپنے گھر والے بھی کچھ نہیں سنتے، بعض جگہوں سے ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ امام صاحب ’’چھٹی ‘‘پہ گئے تو ان کی ’’چھٹی‘‘ ہی ہو گئی، اس لئے کچھ ائمہ نے بادل نخواستہ ’’چھٹی‘‘ کی ہی ’’چھٹی‘‘کر دی، تاکہ ’’چھٹی‘‘جیسی کسی بھی ناگہانی صورت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دور دراز مقامات پر امامت کرنے والے ائمہ مہینوں اپنے گھر بار اور بیوی بچوں سے دور رہتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کے دکھ درد میں موجود نہیں ہوتے لیکن اہل محلہ اور اراکین مساجد کے دکھ دردم یں شریک ہوتے ہیں، سب کے کام آتے ہیں، سب کا خیال رکھتے ہیں، اس کے باوجود بھی امام صاحب کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا
ان کا کوئی سچا ہمدر اور بہی خواہ نہیں ہوتا، ورنہ ایسے افسوس ناک اور ہولناک واقعات وحالات کبھی رونمانہ ہوتے، لاکھوں، کروڑوں روپئے مساجد کی آرائش و زیبائش پہ توخرچ کر دیئے جاتے ہیں، لیکن امام ومؤذن کو بقدر کفایت بھی تنخواہ دینے میں کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، جس معاشرے میں لوگ اپنے پالتوجانوروںکی بھی بنیادی ضرورتوں کامکمل خیال رکھتے ہیں، ان کی صحت وتندرستی کی فکرکرتے ہیں،گاہ بگاہ راتوں کو بھی اٹھ کر ان کی خیریت وعافیت کے تعلق سے اطمینان کر لیتے ہیں، وہاں لوگوں کا اپنے امام کی بنیادی ضرورتوں سے بھی غفلت برتنا نہایت ہی شرمناک امر ہے۔
میں ایسی کئی مساجد کو جانتا ہوں جو تعمیری اعتبار سے عالی شان، رقبے کے لحاظ سے کافی وسیع وعریض اور مالی اعتبار سے نہایت ہی خود کفیل ہیں، ان مساجد کی اپنی آمد لاکھوں روپے ماہانہ بتائی جاتی ہے، وہاں کسی اضافی تعاون کی قطعی ضرورت نہیں ،پھر بھی کئی صاحبان ثروت وہاں صرف اس لئے ’’لاکھوں کا تعاون‘‘ پیش کرتے ہیں کہ معاونین کی فہرست میں ان کا نام سر فہرست اور نمایاں رہے، جبکہ جن مساجد کو اس ’’خصوصی تعاون‘‘ کی سخت ضرورت ہوتی ہے، ان کے اراکین کی جوتیاں ان سے ’’چندہزار‘‘کا بھی تعاون حاصل کرنے میں گھس جاتی ہیں۔
خیر!موجودہ مخدوش حالات کےل ئے کچھ ائمہ بھی ذمہ دار ہیں، انھیں چاہئے کہ اہل محلہ کے ذاتی معاملوں سے ہمیشہ دوررہیں، کسی کے ورغلانے میں ہرگز نہ آئیں، کبھی بھی ایک کی طرف داری میں دوسرے کولعن طعن نہ کریں، لوگوں کے ذاتی معاملات میں ہمیشہ غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں اور شرعی معاملات میں ہمیشہ شریعت کے طرف دار رہیں
کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر بلا خوف و ترددحق کا اظہار کریں، فقط شرعی احکامات کی پابندی کریں اورحکمت وموعظت کے ساتھ دین کی تبلیغ واشاعت کافریضہ انجام دیں، اس سے اہل محلہ اور اراکین مساجد اگر برافروختہ ہوں تو ہوں، خالق کائنات اور رزّاق دوعالم تو ضرور راضی ہوگااور غیب سے آپ کی ضرورتوں کی تکمیل فرمائے گا۔
علامہ امام تہذیب الاسلام اور ان کی شہادت