علامہ امام تہذیب الاسلام اور ان کی شہادت

Spread the love

علامہ امام تہذیب الاسلام اور ان کی شہادت

[امام کی شہادت]

[قاتل کون؟]

تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی

فاضل جامعۃ الرضا بریلی شریف

اللہ جل و علا و محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص کرم ہے کہ پورنیہ جو کبھی “حضرت پورنیہ” “سرکار پورنیہ” “جنت آباد” “جنت البلاد” کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اس کی آغوش میں ہزاروں علما ، فضلا، صلحا، فقہا، خطبا، نقبا، شعرا، ادبا، فصحا، رہنما پیدا ہوئے اور آبائی وطن کے علاوہ دور دراز شہروں میں بھی دین متین کی خدمات انجام دیتے رہے

انھیں مقدس ہستیوں میں ایک ذات ستودہ صفات پیکر اخلاص منکسر المزاج عابد شب زندہ دار ترجمان مسلک اعلی حضرت عظیم المرتبت حضرۃ العلام مولانا امام محمد تہذیب الاسلام شہید علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ہے جنھوں نے دین اسلام کی خدمات میں اپنی زندگی بسر فرمائی

دینی خدمات

[بقول حضرت مولانا محمد آزاد مرکزی دام ظلہ العالی]

موصوف شہید علیہ الرحمہ نے آٹھ سال تک مدرسہ رضویہ گلشن مدینہ تین سُکیا آسام میں بحیثیت صدر المدرسین دین کی خدمات انجام دی اس آٹھ سال کے عرصے میں مدرسہ گلشن مدینہ نے خوب ترقی کی راہ طے کی حتی کہ اس بات کی شہرت ہو گئی کہ پورے آسام میں سب سے اچھی تعلیم مدرسہ گلشن مدینہ میں دی جاتی ہے

یہ سب شہید موصوف علیہ الرحمہ کی اتھاہ محنتوں کا ثمرہ تھا کہ تشنگان علم و فن اپنی پیاس بجھانے کے لیے جوق در جوق میکدۂ تہذیب اسلام میں آتے رہے اور سیراب ہوتے رہے

نیز مدرسہ اسلامیہ تین سکیا لال بنگلا اور مصباح العلوم مال گریٹا تین سکیا میں بھی درس و تدریس کا فریضہ انجام دیے

اصاغر نوازی

موصوف شہید علیہ الرحمہ بڑے ہی خلیق و شفیق اصاغر نواز تھے قوم کا درد آپ کے سینے میں صاف آئینہ کی طرح جھلکتا تھا آپ تین سُکیا کے اطراف و اکناف کے بچوں کو میزان و منشعب نحو میر ھدایۃ النحو جیسی ابتدائی کتابیں پڑھا کر یعنی جنگ آلود لوہے کو کندن بنا کر منظر اسلام جامعۃ الرضا جامعہ اشرفیہ جامعہ علیمیہ بھیجتے

ذوق تعلم

مولانا آزاد مرکزی صاحب بیان کرتے ہیں مجھے بریلی شریف حضرت نے ہی بھیجا تھا یہ انھیں کا کرم ہے آج میں یہاں تک پہنچا ہوں نیز بیان کرتے ہیں :

جب لاک ڈون میں طلبا اپنے اپنے گھر چلے گئے تو میں بھی گھر چلا گیا حضرت کو پتہ چلا کہ لاک ڈون کی وجہ سے میں گھر ہی میں ہوں تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ آزاد! آپ صحاح ستہ [بخاری شریف ، مسلم شریف ، ترمذی شریف، ابن ماجہ، سنن ابو داؤد، سنن نسائی] خرید لائیں میں آپ کو پڑھاؤں گا اور ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کی دستار بندی بھی یہیں پر ہو جائے گی حالانکہ حضرت کے گھر سے میرا گھر تقریبا بیس کلو میٹر کی دوری میں ہے باوجود اس کے حضرت روزانہ میرے گھر آنا چاہتے تھے پڑھانے کے لیے میں نے اس طرح صوفی مزاج حلیم و بردبار اور تعلیم و تعلم سے شغف رکھنے والا شخص نہیں دیکھا

مدرسہ رضویہ گلشن مدینہ میں جو درسگاہ میں پڑھاتے وہ پڑھاتے ہی لیکن بعد نماز مغرب پھر سے بیٹھتے اور گیارہ بجے رات تک طلبا کی علمی پیاس بجھاتے رہتے فقط کسی حاجت کے لیے اٹھتے

مسلک اعلی حضرت کی اشاعت

موصوف شہید علیہ الرحمہ تمام زندگی مسلک اعلی حضرت کی نشر و اشاعت کی، کبھی بھی افکار رضا سے روگردانی نہیں کی، “تین سکیا” “ڈبرو گڑھ” “شو ساگر” جیسے شہروں میں آپ کی خطابت کی طوطی بولتی تھی اکثر جلسوں کی صدارت آپ خود فرماتے تھے ان شہروں میں سنیت کی حفاظت میں آپ کا کلیدی کردار رہا ہے خاص و عام آپ کے ناصحانہ کلام کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں

ہدف

آپ کی تمنا تھی کہ آسام میں ایسا مدرسہ بنائیں گے جہاں مبتدی سے منتہی درجے کے طلبا بھی اچھی تعلیم حاصل کریں گے اور انھیں دور دراز جانا نہیں پڑے گا لیکن حضرت کو کیا پتہ تھا کہ یہ خواب میرا ہی مقتدی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دے گا

عبادت و ریاضت

موصوف شہید علیہ الرحمہ صوفی مزاج عابد شب زندہ دار تہجد گزار تھے اکثر صبح خود ہی اذان پڑھتے بعد سنت فجر اوراد و وظائف میں مشغول ہو جاتے پھر جب جماعت کا وقت ہوتا امامت فرماتے بعدہ کلام مجید کی تلاوت کرتے بلا ناغہ بعد نماز فجر آدھا ایک گھنٹا قرآن شریف کی ضرور تلاوت کرتے شریعت کی پابندی آپ کی زندگی کا جزو لاینفک تھا

مولانا آزاد مرکزی صاحب نے بیان کیا میں حضرت کے پاس دو سال رہ کر تعلیم حاصل کی لیکن کبھی آپ کو غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس سے ملتے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ہلکی مسکراہٹ لبوں پہ رہتی

امام کی دل سوز شہادت

۲۰ ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ بمطابق ۵ نومبر ۲۰۲۳ء کو وہ دل سوز سانحہ آستین کے سانپ نے سر انجام دیا جس کو دیکھ کر دنیائے عقل و خرد حیران و ششدر رہ گئی زمین پیروں تلے کھسک گئی دور دور تک لوگوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا ایک صاحب دل جو امام صاحب کی مسجد سے چالیس کیلو میٹر دور رہتا ہے اس سے پوچھا گیا آپ کھانا کھائے ہیں تو اس نے کہا غم میں میرے گھر کا چولھا بھی نہیں جلا ہے

اس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاتل نے قتل کا کام انجام دیا ہے جس کو سننے کے بعد جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

خود قاتل ابراہیم قتل کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :

صبح سویرے امام صاحب قبلہ اذان فجر پڑھ کر مصلی میں بیٹھے ہوئے تسبیح و تہلیل میں مشغول تھے میں خنجر خون خوار [جسے عام بول چال میں “کتا” کہتے ہیں جس سے بڑے جانوروں کی ہڈی کاٹی جاتی ہے] لے کر مسجد کے اندر آیا اور پیچھے سے گردن پر زور دار وار کیا جس سے تلملا کر کھڑے ہو گئے مسجد میں تین دروازے ہیں وہ دوسرے دروازے سے نکلنا چاہتے تھے کہ میں نے پھر دوسرا وار کیا امام صاحب نے روکنے کی کوشش کی جس سے ان کا ہاتھ کٹ گیا وہ ادھر ادھر جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے کہ میں نے تیسرا وار کیا جس سے ان کی ناک کٹ گئی اب ان کی چیخ مزید بلند ہونے لگی میں نے آگے بڑھ کر ان کا گلا ریت دیا پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے اس حیرت انگیز حادثے کو سننے کے بعد دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے

اک میں ہی نہیں دیکھ کے حیراں ہے زمانہ

جو ڈھائے گئےتجھ پہ ستم حضرت تہذیب

شہادت کی وجہ

پولیس تفتیش کے لیے آئی اور پوچھی کہ آپ میں سے کسی نے امام صاحب کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے

تو ایک شخص آگے بڑھا اور کہا میں نے دیکھا ہے پھر کہا :

میں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آیا تو دیکھا امام صاحب کو کوئی مار رہا ہے میں نے چھڑانا چاہا لیکن چھڑا نہ پایا حتی کہ میں امام صاحب کے جسم پر جا گرا لیکن مجھے قاتل جسم سے اٹھایا اور پھر امام صاحب کو مارا لیکن مجھے چوٹ نہیں پہنچائی

پولیس نے کہا : قاتل کو پہچان لوگے

بولا : نہیں

پولیس نے کہا: تو نے اس کا چہرہ دیکھا

بولا: نہیں

پولیس نے کہا: اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا

بولا: نہیں

پولیس یہیں پر پکڑ لیتی ہے کہ ایک شخص بچایا بھی ہو قاتل کو دیکھا بھی ہو چہرہ ڈھکا ہوا بھی نہیں ہو لیکن اسے پہچان نہیں سکتا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا گویا کچھ یوں ہوا

وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے

اقربا میرے کرے قتل کا دعویٰ کس پر

بالآخر اسی شخص نے خود قاتل ہونے کا اقرار کر لیا

قاتل ابراہیم سے پوچھا گیا کہ تو نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا تو اس نے کہا میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تو میں نے امام صاحب سے کہا کہ وہ ایسا تعویذ دیں کہ میری بیوی واپس آ جائے تو امام صاحب نے کہا

تو نے اسے طلاق دے دی ہے اب وہ تعویذات کے ذریعۂ حلال نہیں ہو سکتی ہے حلالہ کے بعد ہی تیرے لیے حلال ہوگی اسی پر امام صاحب سے بحث چھڑ گئی جو دیر رات تک چلتی رہی میرا کہنا تھا میری بیوی میرے پاس آنی چاہیے بغیر حلالہ کے

لیکن امام صاحب بارہا منع کرتے رہے تو میں نے ان کو دھمکی دی کہ میں آپ کو جان سے مار دوں گا اور مجھے ایک جنون سوار ہو گیا میں غصے میں دھت تھا اسی عالم مدہوشی میں امام صاحب پر بےباکانہ جن لیوا حملہ کر دیا ور ان کی سانسیں تھم گئیں

روداد رقم کیسے کروں اے مرے ہمدرد لکھتے ہوئے روتا ہے قلم حضرت تہذیب

آخری آرام گاہ

۲۱ ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ بمطابق ۵ نومبر ۲۰۲۳ء آبائی وطن بائسی پوکھریا میں شہید موصوف علیہ الرحمہ کی تجہیز و تکفین و تدفین عمل میں آئی شام کے وقت سب نم آنکھوں سے الوداع کہہ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوئے

اللہ جل و علا حضرت کے درجات بلند فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ہمیں بھی حضرت کی طرح دین کی خدمت کرنے اور حق بولنے کا جذبہ عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

مرقد ہو تری بقۂ انوار الہی

سرکار کا ہو تجھ پہ کرم حضرت تہذیب

حق بات کے اظہار پہ ہے تیری شہادت

ہے تیرے لیے باغ ارم حضرت تہذیب

تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی

فاضل جامعۃ الرضا بریلی شریف

رابطہ نمبر: 9523788434

2 thoughts on “علامہ امام تہذیب الاسلام اور ان کی شہادت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *