مگر یہ در بدر کی ذلتیں کچھ اور کہتی ہیں

Spread the love

مگر یہ در بدر کی ذلتیں کچھ اور کہتی ہیں

اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی سورہ تین میں ارشاد فرماتا ہے ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ‘‘یعنی ہم نے انسانوں کی بہترین خلقت کی اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جس کو جیسا بھی بنایا وہ اس کے حق میں بہترین ہی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

اللہ نے کسی کو کالا پیدا کیا تو کسی کو گورا چٹا ،کسی کو زیادہ خوبصورتی عطا فرمائی تو کسی کو اس سے کم ،کسی کو عربی ہونے کا شرف دیا تو کسی کو عجمی کیا ،کسی کو غریب بنایا تو کسی کو امیر ،کسی کو لمبا بنایا تو کسی کو چھوٹے قد وقامت والا مگر یہاں مقام غور یہ ہے کہ کیا اللہ نے جس کو کالا بنایا ،غربت میں رکھا تو کیا یہ سب ان کے حق میں ظلم ہے ؟۔

کیا ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ؟

نہیں بالکل بھی نہیں کیونکہ اللہ نے جس کو جیسا بنایا وہ اس کے حق میں بہتر ہے بہر حال یہ بہت نازک اور عمیق مدعا ہے جس کی بحث کو کافی وقت اور کافی صفحات درکار ہیں اس کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیںکہ اللہ نے بندوں کو اختیار عطا کیا ہے جو محنت کرتا ہے اور دن رات مشقت کی بانہوں سے لپٹا رہتا ہے اس کو کامیابی ملتی ہے اور جو یوں ہی وقت برباد کرتا ہے اس کے حق میں کچھ بھی نہیں آتا اور یہی اس دنیا کا نظام ہے ۔

آپ فرض کریں اگر ہر کوئی امیر ہو جائے تو کون کس کے ہاتھ کے نیچے کام کرنا پسند کریگا ؟کون مزدوری کرے گا ؟کو ن ہوگا جو ملازمت کو فوقیت دے گا ؟

ایسے بہت سارے سوالات اٹھیں گے اور ان کا جواب ہم سے نہ ہوپائے گا اس لیے بہترین بات یہی ہے کہ ان جیسے فالتو سوالات میں وقت برباد نہ کریں بلکہ محنت ومشقت سے صبر کے ساتھ زندگی میں ترقی کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور بے شک میرا رب محسنین کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلک اس کا اجر انہیں نصیب ہوتا ہے بے شک میرا رب بہت کریم وغفار ہے ۔

چونکہ زمانہ دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہے ہر کوئی زندگی میں ایک مقام حاصل کرنے میںلگا ہے ،پیسے کمانے اور دولت وشہرت کی طلب میں غورو خوض کے ساتھ کام لے رہا ہے اور اس کے لئے جس سے جو ہوپارہا ہے وہ کررہا ہے مگر ان سب کے بیچ ہمیں ایک بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ آج بھی دنیا میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو غربت کے شکار ہیں اور انہیں اس پر احساس کمتری بھی ہے ۔

مگر اس کا سبب محض غربت نہیں ہے بلکہ یہ احساس انہیں امیروں کی ذلتوں اور رسوائیوں سے ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں امیر لوگ ہیں جو انہیں ذلتیں دیتے ہیں اور انہیں اس باکا احساس دلانے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ تم غریب ہو اور یہ ایک عیب ہے ۔

حالاں کہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔غریبی اور امیر میں فرق یہ ہے کہ امیر حضرات جب جو چاہیں انہیں بنا روک ٹوک وہ چیز مل جاتی ہے اور وہ اپنی من چاہی مرادوں سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن غریب ایسا سوچ بھی نہیں سکتا مگر چوں کہ یہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں کیوں کہ پریشانیاں ہی سہی کم از کم زندگی تو ہر کوئی گزارتاہے ۔

سنا ہے غربت وناداریاں اللہ کی نعمت ہیں
مگر یہ دربدر کی ذلتیں کچھ اور کہتی ہیں

پیارے آقا ﷺکی بہت سی حدیثیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ کیسے غریبی اللہ کی نعمت ہے اور ان شاء اللہ غرباء ومسکین امیروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے مگر اب زمانہ جو کہ بدل چکا ہے ہر کوئی پیسے کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا ہے اس لیے انہیں آقا ﷺکی یہ احادیث کچھ سمجھ نہیں آتی ۔امیر لوگ صرف اس موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

کہ کب کسی غریب کو ذلیل کرنے کا سنہرہ کا موقعہ نصیب ہو جائے اور وہ اپنی امیری کی دھونس کسی غریب شخص پر نکال دیں اور انہیں اس کام میں خوشی بھی میسر ہوتی ہے اس لئے اب غریب حضرات کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے غریبی اللہ کا عذاب ہے اور دنیا کی نظر میں غریبی صرف اور صرف ایک بیماری ہے جس کا ہر کسی کو علاج کرانا چاہئے ۔

مالحاصل یہ کہ اب غریبی کے نام پر لوگوں کو طعنے دئے جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غریب ہو تو تمہیں سماج میں کوئی عزت نہیں ملے گی ،تمہیں کوئی بھی بھلی نظر سے نہیں دیکھے گا ۔ تمہارا ساتھ دینے کے لیے اب کوئی نہیں آئے گا اور تمہیں اس بیماری کا علاج تلاش کرنا چاہئے ۔

یہی وجہ ہے کہ اب غریب غریبی سے کم اور لوگوں کے طعنے اور دربد کی رسوائیوں سے زیادہ پریشان ہیں ۔در اصل غریبی کوئی مرض نہیں بلکہ اس نظام کائنات کا حصہ ہے۔

آج جو امیری میں زندگی گزار رہا ہے کل کو شاید ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس رہنے کو گھر بھی نہ ہو،آج جو بڑی بڑی گاڑیوں میں مفاخرانہ انداز میں بے جا دنیا گھوم رہا ہے کل کوشاید اس کو پیدل چلنا تک نصیب نہ ہو اور جو آج غریبی کے گردشوں میں پھنسے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے کہ کل کو وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی صفوں میں کھڑے ہوں بہر حال یہ نظام یوں ہی چلتا رہتا ہے اور تاقیامت یوں چلتا رہے گا ۔کسی بھی شخص کے لئے یہی صحیح نہیں ہے کہ وہ غریبوں کو طعنے دے اور انہیں غریبی کی وجہ سے ذلت برداشت کرنے پر مجبور کرے کیونکہ کل کیا ہو کس نے دیکھا ہے ؟۔

آج کا ماحول کچھ اور ہے کل کا ماحول کچھ اور ہوگا اس لئے ہمہ وقت ہر کسی کو ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے نہ کہ خواب غفلت کی آغوش میں سوتے رہتے چاہئے کیونکہ اس دنیا کا سارا نظام اللہ رب العزت کے ہاتھو ں ہے وہ پل میں مسکین کو غنی اور غنی کو مسکین کرسکتا ہے اور ہمیں یہ بات ہر گزنہیں بھولنی چاہئے اور بے شک غافلین ہمیشہ سے ہی خساروں کا شکار رہے ہیں ۔

سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ ،کیرلا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *