علما اور معاشیات
علما اور معاشیات :ماہنامہ پیغام شریعت میں شائع مضمون. ملاحظہ فرمائیں
تحریر :محمد زاہد المرکزی (کالپی شریف جالون)
حالات حاضرہ میں کسب معاش خصوصاً علما کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اراکین مسجد و مدرسہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ علما کو آسمان سے من و سلویٰ صبح و مساء جاری ہے، تو انھیں کیا حاجت۔
مساجد میں تو اکثر بھائی قسم کے لوگ صدر و اراکین کے عہدوں پر فائز ہو تے ہیں، انکا علما ، آئمہ کی تنخواہ حسب لیاقت نہ دینا سمجھ میں آتا ہے. لیکن مدارس کے بانیین وناظمین اعلی حضرات اکثر علما ہی ہوتے ہیں۔
پھر بھی مدرسین کی تنخواہ کے معاملے میں اگر بات کریے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کیا کریں آمدنی ہی اتنی نہیں، حالانکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پیسہ خرچ سے بچ ہی جاتا ہے، بینکوں میں لاکھوں روپیہ جمع ہے، اس سے بینک کاروبار کر رہے ہیں، غیر مسلم فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم اپنے علما پر خرچ کرنا روا نہیں سمجھتے. حقیقت یہ ہے کہ توکل علی اللہ بھی کوئی شي ہے ہمیں نہیں معلوم یا ناظمین کی ڈکشنری نے اسے قبول کرنے سے منع کردیا ہے . قرآن و حدیث میں توکل پر بڑا زور دیا گیا ہے.اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں: ﴿۸۴﴾ کہ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے. عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں ۔
فرمان رب ہے : ( ١٢٣ۧ ) 11-ھود:123 )۔
اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ اے محبوب کہہ دیجیے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا ۔ یہ بھی فرماتا ہے “مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے ، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں ۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے ۔
تمام اہل ایمان کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی علیہ السلام کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے ۔
پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے؟۔
یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ، اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا ، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بھگتتے. یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے؟
ہم بھی رب کی بارگاہ عالی میں دست بدعا ہیں کہ “اے رب ہمارے ہمیں ان ظالموں سے نجات دے کہ کہیں ناظمین و بانیین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم حق پر ہیں ورنہ ہم علماء پر غالب کیسے رہتے؟
آقائے کائنات کا فرمان عالی شان ہے،حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ ابْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل ( بھروسہ ) کرو جیسا کہ اس پر توکل ( بھروسہ ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ: اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے باندھ دو، پھر توکل کرو“۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رب العالمین پر بھروسہ کرو علماء کی تنخواہوں میں اضافہ کرو، جیسے بے سرو سامانی کے عالم میں عمارت تیار ہو جاتی ہے ویسے ہی تنخواہیں بھی ادا ہو جائیں گی
علماے کرام کی دقت یہ ہے کہ یہ اپنے گھونسلے سے نکلنا نہیں چاہتے. حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ دن میں تجارت کرتے، رات کو علمی روشنی سے تاريک دلوں کو منور کرتے، آپ بہت مال دار تھے، ایک بار ایک شخص نے آپ کو دیکھ کر راستہ بدل لیا، آپ نے اس کے قریب جاکر سبب پوچھا، معلوم ہوا آپ کا مقروض ہے، دس ہزار درہم کا، آپ نے فرمایا بھائی دس ہزار درہم بھی کوئی ایسی چیز ہے جس سے کسی مسلمان کو تکلیف ہو، جا میں نے معاف کیے۔
حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت عبداللہ بن مبارک، حضرت سفیان ثوری وغیرہ کا شمار رئیسوں میں ہوتا تھا، نیز کچھ ائمہ کرام تو اتنے فیاض، صاحب ثروت تھے کہ جب تک کوئی طالب علم ان کے یہاں کھانا نہ تناول کرتا اس وقت تک اس کو شامل درس نہیں فرماتے تھے۔
یہ سب اسی وقت وقت ہو سکتا ہے جب آپ صاحب ثروت ہوں،معاشی طور پر فارغ البال ہوں. في زماننا بانیین و ناظمین مدارس سے زیادتی تنخواہ کی خواہش “ڈائنا سور”(dynasor) کے وجود کو تلاش کرنے کے مترادف ہے. کیوں کہ ان کے پیٹ بھی صدائے “ھل من مزید”سے مانوس ہیں. غالب کا شعر یاد آگیا، ملاحظہ ہو
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
اور اقبال کہتے ہیں
گلا دبا تو دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
موجودہ دور میں علما اپنے پیروں پر کھڑے ہو نے کی کوشش کریں،معاشی حالت سدھاریں،کیونکہ آج جو جس قدر رسوخ و دبدبہ والا ہے اس کی بات اتنی ہی قبولیت و اثر رکھتی ہے- قطار میں کھڑے آخری آدمی کی جگہ آپ کی نہیں ہے. تو چلئے جان لیتے ہیں کچھ ایسے بزنس، ہنرجو آسان اور کم از کم سرمایہ میں شروع کئے جا سکتے ہیں۔
یہ کر سکتے ہیں مني بینک( Mini Bank) تقريبا ساری بینکیں آج کل دیہی علاقوں میں اپنی شاخوں کا قیام کر رہی ہیں، تا کہ مقامی لوگوں تک بہتر خدمات بہم پہنچائی جا سکیں، اس سے بینک تو فائدہ اٹھاتا ہی ہے لیکن روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں، آپ کو کرنا یہ ہے کہ نزدیکی بینک میں جا کر مینیجر سے اپنے گاؤں، قصبہ یا شہر جہاں آپ بینک کی شاخ لینا چاہتے ہیں اس جگہ کی جان کاری دیں مثلاً آبادی کتنی ہے۔
آپ کی مطلوبہ جگہ سے مین برانچ کا بعد کیا ہے، اگر شاخ ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کلئیر کرلیں کہ مین برانچ میں کاؤنٹر ملے گا یا نہیں، کاؤنٹر نہ حاصل ہونے کی صورت میں اپنی مطلوبہ جگہ پر بھی بیٹھ کر کام کر سکتے ہیں، اس میں اکاؤنٹ کھولنے، ٹرانسفر کرنے، جمع کرنے، نکالنے سبھی صورتوں میں بینک کی جانب سے کمیشن دیا جاتا ہے
کچھ بینک پانچ ہزار روپے سیلری بھی دیتے ہیں، کمیشن/% 10سے لے کر %16 تک مختلف صورتوں میں ملتا ہے،یہ کام علما کی فیلڈ کا ہے، جاہ و حشمت بھی بر قرار اور کام بھی شان دار، سب سے خاص پہلو اس بینک کا یہ ہے کہ نہ تو اس میں Sunday ہوتا ہے نہ بینک اسٹرایک سے کوئی مطلب، شب کے12 بجے ہوں یا صبح صادق آپ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرس کو پیسہ دے سکتے ہیں۔
بینک گارنٹی کے طور پر پچاس ہزار روپے جمع کراتا ہے، نہ ہونے پر لون بھی دیتا ہے، بینک کمپنیاں بھی یہ بینک تقسیم کرتے ہیں وہ بیس ہزار روپے لیتے ہیں. جن سیوا کیندر (जन सेवा केन्द्र) یہ بھی حکومتی اسکیم ہے، بینک کی طرح اس کے لیے بھی ضلع آفس میں جان کاری کرکے درخواست دیں۔
بیس ہزار روپے میں یہ ایجنسی بھی آپ کو مل جائے گی، اس کے ذریعے آپ زرعی شعبے میں کام آنے والے سارے دستاویز نکالنے کے اہل ہوں گے جیسےखसरा، खतौनी،زمین کا نقشہ ودیگر متعلقات، نیز آپ आय/जात/निवास/بھی بنانے کے اہل ہوں گے مزید آپ اس اسکیم کے ذریعے جملہ بینکوں میں پیسہ جمع کرنے، نکالنے، ٹرانسفر کرنے کے بھی حق دار ہوں گے، پاسپورٹ درخواست ، ریل ٹکٹ، ایرلائنس ٹکٹ بھی بنا سکتے ہیں
یونیورسٹیز میں آن لائن فارم بھر سکتے ہیں، فیس جمع کر سکتے ہیں خلاصہ یہ کہ اس اسکیم کے تحت آپ ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو آن لائن ہوتا ہے، حکومت کو کہیں ٢٠ فیصد تو کہیں پندرہ سے اٹھارہ فیصد آپکو دینا ہوگا، کسٹمر سے آپ اپنے حساب سے وصول کرسکتے ہیں
ہارڈویئر – – – – بھی ایک بہتر متبادل ہے اگر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر کی سرجری سے آپ کو شغف ہے تو تین سے چار مہینے میں آپ کے پاس ایک بہترین ہنر موجود ہوگا، A/C فرج(،fridge) واشنگ مشین (washing machine)گیزر (geezer) کی درستگی کے لیے منہ مانگے پیسے ملتے ہیں، کام بھی کوئی محنت کا نہیں۔
اور دن بدن اضافہ ہی ہونا ہے. یہ کام آپ پڑھائی کے دوران بھی ایک سے دو گھنٹے وقت نکال کر سیکھ سکتے ہیں، اکثر اس لائن میں مسلم حضرات مل جاتے ہیں اگر ایسا ہو تو “سونے پر سہاگہ” آپ کے ذریعے وہ دین حاصل کریں (وقتاً فوقتاً زبانی اصلاح حال کے مطابق) اور آپ دنیا. plumbing. یعنی پائپ لائن فٹنگ ہر گھر میں اس کی ضرورت کیا دیہات کیا قصبہ سب جگہ کام موجود، ایک مہینہ بھی نہ لگے گا اور آپ ٹرینڈ، بلکہ اگر آپ صرف دیکھتے رہیں تو بھی سیکھ جائیں گے،آلات کے لیے صرف دو سے پانچ ہزار روپے کی قلیل رقم اور کام شروع. Light fitting ،یہ کام بھی نہایت آسان، سیکھنے کے لیے دو سے چھ ماہ درکار، آلات کے لیے یہاں بھی ایک چھوٹی اور ایک بڑی drill machine ہی کافی۔
خرچ پانچ سات ہزار، سامان اکثر صاحب خانہ کا ہی لگتا ہے، اگر صاحب خانہ آپ ہی کو یہ ذمہ داری بھی سپرد کردے تب بھی پیسہ کی فوری ضرورت نہیں، کسی الیکٹرک سپلائیر سے معاملہ طے کر لیں، کام کے بعد اس کی ادائیگی کردیں اکثر الیکٹیشین ایسا ہی کرتے ہیں. Bike macanic(موٹر سائیکل مستری) یہ کام بھی اچھی روزی روٹی کے لیے موزوں ہے، مکمل طور پر ماہر بننے میں چھ ماہ سے ایک سال درکار، مگر اسے کئ حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے جیسے انجن مکینک، soccer macanic مکمل بائک مکینک، soccer repairing تو محض ایک سے دو ماہ میں سیکھی جا سکتی ہے، دس سے پندرہ منٹ میں soccer تیار، اور معاوضہ بھی بہتر ۔
آلات پر یہاں بھی محض 2000 یا اس سے بھی کم کا خرچ. اور اگر کچھ زیادہ خرچ کر سکتے ہوں تو اسی میں Bike parts بھی رکھ سکتے ہیں، تنہا پارٹس کی دکان بھی اچھی کمائی کا ذریعہ ہے اس کے لیے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کی لاگت آئے گی. اسکے علاوہ بھی آپشنز ہیں، پھلوں کی تھوک سپلائی، ہر چھوٹے سے چھوٹے قصبے کی بڑی ضرورت ہے، کسی بڑے ریٹیلر سے بات کر کے روزانہ حسب ضرورت باعتبار موسم سپلائی کریں، یہاں دو قسم کی تجارت ہے
(1) یہ کہ آپ مال سپلائی کریں، ریٹیلر آپ کو بطور کمیشن آپ کا محنتانہ دے گا
(2)یہ کہ آپ مال خرید کر اپنے لحاظ سے فروخت کریں، نقد پیسہ وصول کر اسی ڈرائیور کو تھما دیں جو مال لایا ہے پیسہ ریٹیلر تک پہنچ جائے گا –
بایں طریق یہاں بھی بغیر سرمایہ کاري کے کام کر سکتے ہیں، یا محض چند روز آپکو پیسہ لگانا ہے اس کے بعد آپ پر جس قدر اعتماد بڑھتا جائے گا اتنا ہی آپ کے لیے بزنس آسان ہوتا جائے گا. دال، چاول کی سپلائی بھی بہتر ذریعۂ معاش ہے، جہاں پیداوار اچھی ہو وہاں سے کم قیمت پر خرید کر بڑے شہروں میں اچھے داموں پر فروخت کرسکتے ہیں ،وقس علی البواقی
شرم بالکل نہ کریں، تجارت انبیاے کرام علیہم السلام اجمعین کی جماعت سے لے کر فقہاے اسلام کی جماعت تک کا خاص پیشہ رہا ہے، یہ عوام آپ کو چوبیس گھنٹے جوت کر بھی محض پانچ ہزار سے زائد نہیں دینا چاہتی اور قوالیوں، عرسوں، پیشہ ور مقرروں پر ایک ایک رات میں تیس ہزار سے لیکر تین تین لاکھ روپے خرچ کردیتی ہے تو آپ بھی “جزاء وفاقا” پر عمل کریں، یہی آپ کی ترقی کے لئے مشعل راہ ہے،بقول اقبال
تھے تو وہ آباء ہی تمہارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
غالب کے اس شعر پر اب عمل کی ضرورت نہیں حکم منسوخ ہوچکا ہے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کیوں کہ اب واقعی آپ فقیر ہو چکے ہیں!!!
محمد زاہد علی مرکزی
یونیورسٹی جاتے علما ! ایک تجزیہ
بہت ہی عمدہ معلوماتی قسط وار مضمون
Pingback: حسن پیش کش کی عصری معنویت ⋆ نشاط رومی
Pingback: اہل مساجد و مدارس تبلیغی ذمہ داری بھی ادا کریں ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی
Pingback: حافظ ملت کا نظریہ صحافت ⋆ نشاط رومی
Pingback: نام میں کیا رکھا ہے ⋆ حیدر رضا
Pingback: اتراکھنڈ سے مسلمانوں کی ہجرت ⋆ محمد حیدر رضا
Pingback: بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے ⋆ تحریر: حیدر رضا
Pingback: یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ قسط چہارم ⋆ تحریر :محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: علما اور مبلغین کے مقامی ہونے کی اہمیت و افادیت ⋆ تحریر محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: صحافت کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار ⋆ اردو دنیا
Pingback: اگر صحافت صالح مقصد کے ساتھ ہو تو یہ عبادت ہے ⋆ اردو دنیا