سورۃالروم ایک مختصر تعارف

Spread the love

سورۃالروم ایک مختصر تعارف

محمد عبدالحفیظ اسلامی خطیب مسجد صالحہ قاسمؒ و سینئر کالم نگار حیدرآباد 9849099228

سورۃ الروم مکی ہے۔ اس کے کُل آیات 60 اوررکوع 6 ہیں۔ اس کا نام آیت ’’غُلِبَتِ الرُوم‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس سورۃ کے تفصیلی مطالعہ سے دو بہت بڑی پیشین گوئیاں ہمارے سامنے آتی ہیں اور یہ بات بھی ہم پر واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی حیات طیبہ میں نازل شدہ سورۃ مذکور میں اللہ تبارک وتعالیٰ روم کا تذکرہ کیوں فرمارہا ہے۔سورہ روم کی ابتدائی آیات کریمہ میں دراصل دو ایسی عظیم پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور اس کا پیغام پہنچانے والی عظیم ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت حق (کی حقانیت) پر ایک بہت بڑی دلیل اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اس سورۃ میں بتایا گیا کہ آج روم شکست کھاکر مغلوب ہوگیا (اور ایران غالب آگیا) روم غالب آجائے گا۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ رومی جو مذہب پر قائم تھے وہ عیسائی مذہب تھا اور یہ لوگ اہل کتاب ہونے کے ساتھ منکر آخرت نہ تھے اس طرح مسلمان ان کے قریب تھے۔ ایرانی جس مذہب پر چلتے تھے اس میں شرک پایا جاتا تھا یعنی آگ کی پوجا کرتے تھے۔ لہٰذا مشرکین مکہ ان کے قریب تھے۔ اس طرح آتش پرستوںسے بُت پرستوں کو لگاؤ اور ہمدردیاں تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک معقول وجہ یہ بھی تھی کہ جب مشرکین مکہ کی طرف سے اہل ایمان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور ان کا مکہ میں رہنا دشوار ہوگیا تھا ایسے حالات میں ایک قابل لحاظ تعداد مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلی گئی اور حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی۔ مشرکین مکہ کی سفارتی کوششوں کے باوجود حبشہ سے مسلمانوں کو بے دخل نہ کیا جاسکا ، نہ ہی ان کی سفارتی کوشش کام آئی اور نہ ہی قریش کی جانب سے پیش کی گئی رشوتیں اپنا اثر دکھائیں۔ غرض کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے روم کے مغلوب ہونے اور چند سال بعد پھر غالب آنے کی جو بات ارشاد فرمائی ہے بظاہر ایسی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی لیکن یہ چیز ہوکر ہی رہی۔ جب یہ پیشین گوئی کی گئی تو مشرکین مکہ مذاق اُڑا رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے اسی انداز سے ہم مسلمانوں کو اور ان کے دین کو مٹا ڈالیں گے۔ لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہوا کہ قیصر و روم نے اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ایک زبردست حملہ کی تیاری شروع کردی۔ 623 ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ آذر بائجان میں داخل ہوکر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجادی اس طرح پہلی پیشین گوئی 9 سال میں پوری ہوگئی۔ دوسری پیشین گوئی مسلمانوں کو خوشیاں منانے کی ، کی گئی تھی اب اس کا وقت بھی آپہنچا۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم 622 ء میں مکہ سے ہجرت فرماکرمدینہ پہنچے اور ایک سال میں یعنی 623 ء میں جنگ بدر واقع ہوئی۔ جس طرح آتش پرست مشرکین ، ایران میں مغلوب ہوئے، اسی طرح اُسی سال اور اُسی دن بت پرست مشرکین بدر کے میدان میں پسپا ہوکر ناکام ہوچکے۔ اس طرح مسلمانوں کو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں اور مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ قرآن حکیم کی ان پیشین گوئیوں کے حق ثابت ہونے پر کئی لوگوں نے اسلام قبول کرتے ہوئے اس کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۃ روم میں ابتدائی طور پر روم کاتذکرہ فرمایا اور پھر آگے تین رکوع تک فکر آخرت کا بیان چلتا ہے اور ہر طریقے سے یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آخرت ہرگز ناممکنات میں سے نہیں ہے بلکہ آخرت کا ہونا معقول بات ہے اس کی ضرورت بھی ہے۔ اگر آخرت نہ ہو اور انسان کو خدا کے ہاں جوابدہی کا احساس نہ ہو تو پھر انسان اپنی زندگی غلط راہ پر ڈال دیتا ہے۔ لہٰذا ہر آدمی اپنی موجودہ زندگی کو آخرت پر یقین رکھ کر گزارے۔ چوتھے رکوع سے بیان کا رُخ توحید باری تعالیٰ کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف بھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کیلئے فطری دین اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ایک خدائے واحد کی غلامی اختیار کرے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اسی کا حکم مانے۔ شرک کے ابطال میں واضح انداز میں یہ بتایا گیا کہ شرک فطرت انسانی کے خلاف ہے اور فطرت کائنات کے مدمقابل ہے اور یہ بھی بتادیا گیا کہ جہاں بھی زمین پر شرک ہوتا ہے وہاں فساد برپا ہوکر رہتا ہے۔ مشرکانہ عقائد کی گمراہی کے سبب پچھلی قومیں فساد میں مبتلا ہوکر رہی ہیں۔ اس سورۃ کے اختتام پر دل و دماغ پر نقش ہونے والی تمثیل بیان کی جاتی ہے تاکہ اللہ کی طرف سے کی گئی وحی اور نبوت کی اہمیت اُجاگر ہو۔ چنانچہ ایک مثال دی گئی کہ دیکھو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل باراں رحمت (بارش) سے مردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہے اور بہترین کھیتی لہلہانے لگتی اور اس سے بے شمار زندگی کے خزانے نکل پڑتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مردہ پڑی ہوئی انسانیت کیلئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی جارہی ہے اس کے مطابق اپنی زندگی بنالو گے تو خود تمہارا اپنا بھلا ہے اگر اس موقع سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی تمہارے حصہ میں آئے گی ورنہ روز محشر ظالموں کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی۔اس سورت میں اہل ایمان کے لیے سخت سے سخت حالات میں بھی ہمت وحوصلہ بناے رکھنے کی تعلیم دی گي، تاکہ ایمان والے بندوں کے قدم حق پر جمے و ڈٹے رہیں ؛ اسکے علاوہ خدا سے بغاوت کرتے ہوے شب وروز گزارنے والوں کے لے غور فکر اور درس عبرت کے بہت سے پہلو ہیں اور نوع انسانی سے متعلق ماضی کے اہم واقعات کی خبر پنہچارہے ہیں ، وہیں پر حالات حاضرہ پر غور فکر کی دعوت دیتے ہوہے اپنے برے انجام سے بے خبر لوگوں کو جو ،اسلام قرآن اور اسکے پیش کرنے والی؛ (باران رحمت لیکر آنے والی، مشفق انسانیت) ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکی پیش کردہ تعلیم کے جو لوگ دشمن بن بیٹھے اور اسے مٹا کے رکھدینے کی ٹھان لیے ہیں؛ انہیں سخت انتباہ دیتے ہوے دعوت حق کو قبول کرنے، قرآنی تعلیمات پر توجہ دینے اپنی موجودہ نا شکری کی حالت سے باہر نکل کر ایک خدا کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی گئ ہے۔آج دنیا میں ہر طرف تکریم انسانیت کا درس دیا جاتا ہے، نوع انسانی کو ارتقائ منازل تک پہنچاے جانے پر گھنٹوں مباحث ہوتے ہیں، خوبصورت ایوانوں میں دل فریب انداز گفتگو ہوتی ہے لیکن افسوس (الاماشاءاللہ) یہ ساری چیزیں مردہ دلی وخود غرضی پر مبنی ہونے کی وجہ، نہ لوگوں کی بے ضمیری کم ہورہی ہے اور نہ دلوں کی سختی میں کمی ہوتی دکھائ دیتی ہے، بلکہ دنیا میں ہر نیا دن ایک نئ مصیبت کے ساتھ نوع انسانی کا استقبال کرتے دیکھائ دیتا اور بربادی کی خبریں سناتا ہے؛ اور اکثر یہ دیکھا گیا کہ حقوق انسانی کا دم بھرنے والے ہی سب سے زیادہ ان پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ اب دنیا کو کوي چیز امن وامان مہیا کرسکتی ہے تو بس خدائ رہنمائ سے ممکن ہے۔اب دنیا کو جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ہے قرآن مجید کو کلام الہی مانے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول برحق تسلیم کرے اور سارے خداوں کی نفی کرتے ہوے خداے واحد لا شریک له کی بندگی اختیار کرلے۔ اس سورہ میں”غلبت الروم“ روم کی مغلوبیت کے ذکر کے بعد عنقریب پھر غالب ہوجانے کی بات کا سچ ہوجانا یہ اس بات کی طرف، مغرور اور اللہ سے بغاوت پر آمادہ قوموں کو آگاہ کرنا ہےکہ کائنات کا مقتدر اعلی صرف اللہ تعالی ہے اور زمین پر جسے بھی وہ اقتدار دیتا ہے وہ دائمی و دوامی نہیں ہے ۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس سورہ میں آجکی مغرور وطاقتور اور بدمست ، مشرک ومنکر آخرت، دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ؛ دیکھو خوب یاد رکھو! اللہ کے بھیجے ہوے رسولؐ اور آپکے قلب اطہر پر نازل کردہ روشن نشانی قرآن مجید کی قدر جانو اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرو ورنہ اللہ تعالی تم سے وہ تمام اقتدار کی طاقت چھن لے گا اور تم مغلوب ورسوا ؛ ذلیل وخوار ہوکر رہو گے !!!آج دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ زیادتیاں ہورہی ہیں ڈرایا دھمکایا، ستایا اور مارا پیٹا جارہا ہے، یہ ساری چیزیں ہم سے پہلے ایمانداروں کے ساتھ بھی ہوچکیں ہیں۔ آخری آیت کریمہ میں جسطرح اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلایا کہ آپ اپنے موقف پر ۔۔۔۔ رہیں اللہ نے دنیا وآخرت میں آپکی نصرت و فلاح کا جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔ یہ وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس زمانے کے لوگوں کے ساتھ تھا اور یہ وعدہ آج ہمارے ساتھ بھی ہے

لیکن شرط یہ ہیکہ جو لوگ اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں وہ ہمیں کسی بہانے بے وزن بنانے کا موقع نہ پائیں!۔

یعنی ہماری اسلامی تہذیب وتمدن، کا مذاق اڑانا مذہبی تشخص میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوے اسلام مخالف طور طریقوں کو خوب بڑاھاوا دیکر مرعوب کرنا وغیرہ یہ سب بے ہمت وبے وزن کرنے کی سازشیں ہیں۔

لہذا ان ساری چیزوں کو خاطر میں لاے بغیر ہم اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں اور دعوت حق اور اپنے موقف پر ڈٹے رہیں تو ان شاء اللہ حق اور اہل حق کو مٹانے والے خود بے وزن بےاثرورسوا ہوکر رہیں گے۔

جس دن معرکہ بدر ہوا اسی دن رومی غالب آے۔ اللہ نے قرآن مجید نازل فرماکر رسول اللہ ؐ کی زبان حق سے جو بات بتلائ تھی وہ 9 سال میں پوری ہوئی ۔

اور اسی طرح اللہ کے فضل وکرم سے میدان بدر اس بات پر شاہد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص ساتھیوں کا مذاق اڑانے اور انہیں سماج میں بے وزن کرنے کی سعی کرنے والے مشرکین مکہ کے قدم، ”یوم فرقان“ کے موقع پر اول مرحلہ میں اکھڑ گئے اور وہ ہمیشہ کے لیے ناکام ہوچکے۔مستفاد کتب، تدبر قرآن،ضیا القرآن،تفہیم القرآن اور تفسیر مظہری۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *