اتراکھنڈ سے مسلمانوں کی ہجرت
اتراکھنڈ سے مسلمانوں کی ہجرت
محمد حیدر رضا
پس منظر، پیش منظر اور مولانا ارشد مدنی کا بیان
پچھلے کئی دنوں، بلکہ ہفتوں سے اتراکھنڈ کے اتر کاشی میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے (اور بہت سے کر بھی چکے ہیں). سنگھی غنڈے ان کی دکانوں پر حملے کر رہے۔ گزشتہ دنوں کھلے عام دھمکیاں دی گئی تھیں کہ ١٥/ جون کو منعقد ہونے والی مہا پنچایت سے قبل، مسلمان علاقہ خالی کر دیں۔
فی الحال اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد، ١٤/ سے ١٩/ جون تک اتر کاشی کے متأثرہ پرولہ قصبے میں دفعہ ١٤٤/ نافذ ہے۔ اور میڈیا رپورٹس کے مطابق، حالات معمول پر لوٹتے نظر آ رہے ہیں۔
مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ دراصل، ہندو وادی تنظیموں نے ٢٥/ جون کو اس حوالے سے ایک مہا پنچایت کے انعقاد کی بات کہی ہے۔ ایسے میں وہاں سکونت پذیر مسلمان جس خوف کے سایے میں جی رہے ہوں گے، اس کا صحیح اندازہ بس انہیں ہی ہوگا۔
اس مشکل گھڑی میں بجاے اس کے کہ پریشان حال مسلمانوں کی مدد کی جاتی یا کم سے کم اخلاقی طور پر ان کا ساتھ دیا جاتا؛ جمعیت علماے ہند (ارشد دھرا) کے صدر، مولانا ارشد مدنی نے اپنی طبیعت کے عین موافق، الٹا مسلمانوں سے اپیل کر ڈالی ہے کہ وہ پرولہ سے ہجرت کر جائیں۔
مدنی صاحب کو کون سمجھاے کہ دہائیوں کی جمی جمائی تجارت سے یوں دست بردار ہو جانا اور سب چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر انہیں کیا، موصوف کو تو بس حکومت وقت کی دلالی کرنا ہے۔
سو وہ بخوبی کر رہے۔ مولانا کی منطق کے مطابق، اگر دہلی، ممبئی، کولکاتہ اور دوسرے بڑے شہروں میں بسے لوگوں سے یہ کہا جانے لگے کہ آپ لوگ یہاں کے نہیں ہیں، اس لیے واپس اپنے اپنے گھر چلے جائیے؛ تو سوچیے، ملک کا کیا حال ہوگا!
یہاں غور کا مقام یہ بھی ہے کہ آخر ایک ١٤/ سالہ ہندو لڑکی کو بھگا لے جانے کے واقعے پر اتنا طوفان کیوں کھڑا کیا جا رہا؟ وہ بھی اس صورت میں کہ اس بھگانے میں صرف کوئی مسلم شخص (عبید خان) ہی نہیں، ایک ہندو آدمی (جیتندر سینی) بھی ملوث ہے۔
اور وہ بھی تب جب کہ دونوں کو تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے ساتھ ساتھ “پوکسو” POCSO (Protection of Children from Sexual Offences) جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے؛ نیز لڑکی اپنے اہل خانہ کے سپرد کی جا چکی ہے۔
اور مزید تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، لڑکی نے خود کہا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی آدمی کو نہیں جانتی۔ جب وہ کسی کو جانتی ہی نہیں تو پیار محبت کی بات کہاں سے آ گئی؟ اور جب ایسا کچھ ہے نہیں تو پھر کڈ نیپنگ کے ایک واقعے کو لو جہاد کا نام دے کر اتنا واویلہ کیوں مچایا جا رہا؟
دراصل، اتراکھنڈ کو دیو بھومی (بھگوانوں کی سر زمین) کہا جاتا ہے۔ سنگھیوں کو یہ بات بار بار کچوکے لگاتی رہتی ہے کہ اگر مسلمانوں کے حرمین شریفین میں کفار و مشرکین کے دخول پر شروع سے پابندی ہو سکتی ہے تو ہمارے ارض مقدس کو یہ خصوصیت کیوں نہیں۔ اس لیے اس طرح کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔
اور اس لیے بڑی تیزی سے بھاجپا حکومت وہاں سنگھ کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں رو بعمل بھی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جن ریاستوں کو ہندو راشٹر کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا، اتراکھنڈ ان میں سر فہرست ہے.
تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ ١٩٤٧ء میں تقسیم وطن کے وقت ایک ساتھ رہ رہا اکثریتی طبقہ یکایک کیسے مسلمانوں کے خون کا پیاسا بن گیا تھا۔ اور جن مسلمانوں کے ساتھ وہ برسوں سے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے، کیسے اچانک انہیں پہچاننے تک سے انکار کر دیا تھا۔ اس حوالے سے اتر کاشی کا تازہ معاملہ بڑا چشم کشا ہے۔ در اصل، سونو میر نامی ایک شخص، اتر کاشی سے بی جے پی اقلیتی شعبے کا چار بار ضلع صدر رہ چکا ہے
لیکن فرقہ واریت کا ذرا سا جھونکا کیا آیا کہ خود سونو بھی اس کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اور اب انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ بڑا دھوکہ ہوا ہے۔
میر کے واقعے نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ چاہے ان کے لیے کچھ بھی کر دیا جاے، جب فرقہ وارانہ ماحول بنے گا؛ یہ سنگھی اپنا اصلی رنگ دکھانے میں ذرہ برابر بھی جھجھک محسوس نہیں کریں گے۔
✍️ محمد حیدر رضا