رسم شبیری والے رسم تعزیہ داری لے بیٹھے
رسم شبیری والے رسم تعزیہ داری لے بیٹھے
خود کو متقی بنا لینا یا پارسائی کی ایکٹنگ کرنا آسان ہے مگر اتقا و پارسائی کی دعوت دینا ذرا مشکل کام ہے۔
ٹھیک اسی طرح پارسائی کی دعوت دینا، صدقۂ و خیرات کی تلقین کرنا بہت سہل ہے مگر حقوق العباد کے تحفظ کے لیے غاصب و قابض شخص کے سامنے بندے کے مغصوب پر غاصب کی ملامت میں آسمانی انذار و تعزیر کی بات کرنا اتنا ہی دشوار ترین مسئلہ ہے۔
اس مسئلہ کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ زید پکا نمازی ہے۔مگر اس کے سامنے باہوبلی خالد نے غریب الوطن بکر پر ناحق ستم روا رکھا ہے اب حسینی نماز کا تقاضا ہے کہ زید کسی لومت لائم کی پرواہ کئے بغیر، انجام سے ڈرے بنا بکر کے حق میں آواز بلند کرے۔
اگر بکر مار کھا رہا ہے اس کے کراہنے کی آواز دبا کر وہ نماز کے لیے نکل گیا تو فرضیت تو بالکل ادا ہو جاۓ گی وہ نمازی بھی کہلاۓ گا مگر کربلائی نماز کی لذت سے یکسر محروم رہے گا۔حسینیت کی نماز کی تکمیل کے لیے انجام سے بے خبر یزیدیت کے خلاف نکل پڑنا ہی تکملۂ دین ہے۔
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے یہ تلخ سچائی ہے کہ آج کربلا کا علم بردار طبقہ اگرچہ دعوئ حسینیت کے بلند بانگ نعرے لگا رکھے ہیں مگر عملا اس کے اندر یزید رچا بسا ہے۔
خانقاہوں میں گدی نشینی کا جھگڑا کوئی نیا نہیں۔کوئی اگر بالجبر یا بزور بازو مسند طریقت پر براجمان ہو اور ادھر یا حسین یا حسین بھی کرے تو ایسے شخص پر عملا یزیدی و قولا حسینی کا منافقانہ کیس بنتا ہے۔
موجودہ سلگتے حالات میں ہمارے قائدین، فاتحین ، غازیان،مجاہدین، رہنمایان کی خاموشی کٹتے جھلستے سسکتے اور زخموں سے لہو لہان لوگوں کے لیے کسی نمک پاشی سے کم نہیں ہے۔
محرم کے ان ایام میں ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا راگ چھیڑنے والے گفتار کے غازی “وما علینا الا البلاغ” کی لائن سنا کر کردار کے منظر سے یکسر ندارد ہیں۔
تعزیہ تعزیہ کا ڈھول پیٹنے والی جتنی خانقاہیں تھیں سب نے منہ میں دہی جما لیا ہے۔ شیخ طریقت، رہبر راہ شریعت کا بھاری بھرکم تمغہ والے مریدی حلقوں میں صبر حسین و استقامت حسین کی غلط تشریح کرنے نکلے ہیں۔
قانون و آئین کے باجود جنہیں ظالم حکمراں کے خلاف بولنے کی سکت نہیں ہوتی وہ بہتر کربلا والوں کی دلیری، حق گوئی کا پرچار کرنے نکلے ہیں۔
جو جیل کا نام سنتے ہی تھر تھرا جاتے ہیں وہ جرأت زینب کا خطبہ سنا رہے ہیں۔محلے کے چوکیدار کو دیکھ کر جن کی سٹی پٹی گم ہو جاتی ہے ایک نعرے سے سارے یزیدیوں کو تھر تھرا دینے کا دعوی بھی شان سے کرتے ہیں۔
ان کی گفتار جتنی ہائی لیبل کی ہوتی ہے کردار اتنا ہی زیرو پوائنٹ پر ہے۔یہ لوگ کھوکھلے نعروں سے یزیدیت پر فتح پانے کا خواب پال بیٹھے ہیں جو کبھی ممکن نہیں ہے۔
جب کہ امام عالی مقام کی زندگی کا سب سے بڑا اور کربلا کی جنگ کا اہم سبق ہی یہ ہے کہ جب ظالم و جابر شخص حکمران بن بیٹھے اس کے جور و جبر، ظلم و ستم کی رات گہرانے سے پہلے کھل کر اس کے خلاف آواز بلند کرو۔
لشکر کی پرواہ نہ کرو تاکہ وقت رہتے زخموں کا علاج ہو سکے۔ہماری غفلت سے کہیں امن و امان، صلح و آشتی کا سویرا ہونے میں دیر نہ ہو جاۓ۔پوری قوم کو تعزیہ کے نام پر گمراہ بنانے والی خانقاہیں عملا یزیدیت کے نشر و اشاعت کے مجرمانہ ارتکاب کی ذمے دار ہیں۔
زبان سے خواہ جتنا بھی محبت حسین و غم کربلا کا دم بھر لیں مگر سچائی یہی ہے کہ یہ ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ تو کجا،مسلسل بڑھ رہے ظلم و عدوان کی مذمت و ملامت کے لیے دو لفظ بولنے کی ہمت جٹا بھی نہیں پاتیں۔
ملک میں جفا و جبر کی آندھی چل پڑی ہے۔فرعونیت ننگا ناچ رہی ہے۔ موسوی خیمے میں بھگدڑ مچی ہے۔نمرودیت نے خلیلیوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔یزیدیت پورے لاو لشکر سمیت سر اٹھانے لگی ہے۔
حسینیت ایک بار پھر دشت بلا میں بے یار و مددگار کھڑی ہے۔خانقاہی درگاہی سرکاریں اپنی جلوت کی محفل برخاست کر کے اپنے خلوت کدے میں ٹھنڈے اے سی کے نیچے نیند کی گولی کھا کر آرام فرما رہے ہیں۔
جنہیں خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی ذمے داری تھی وہ آج صرف رسم تعزیہ داری کا چورن بیچنے کو عین دین و سنیت سمجھ لیا ہے۔
یہ لوگ اپنے اپنے بھکتوں کو فری میں جنت کا سبز باغ دکھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حسینیت بحال کر دی۔جن کے گھر میں سب سے زیادہ اقربا پروری (Nepotism) کی کھیتی ہوتی ہے وہ امیر معاویہ کے خلاف تقریر جھاڑ رہے ہیں۔
ٹرین میں قتل کئے گئے مسلم مسافر جو مودی بھکت کی بندوق کے شکار ہوۓ، گروگرام کے مسجد کے امام کی بے دردی سے قتل اور ہریانہ میں پلاننگ کے ساتھ مسلم دکانات مکانات کی تہس نہس اور جائداد کی لوٹ کھسوٹ دیکھنے کے باوجود ہم اور ہمارے قائدین ابابیل جیسی خدائی فوج کے منتظر ہیں۔
ان دنگوں میں مارے گئے اور لٹے گئے لوگوں کو اگر ہم انصاف نہ دلا سکے تو یاد رکھیں کل کا وقت مزید ابتر ہے اس آنے والے کل میں آپ کا یا میرا بھی نمبر ہو سکتا ہے۔
آج حافظ سعد تو کل میں یا آپ۔اگر روز ہو رہے ان فتنہ و فساد، دنگا و عدوان سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔پھر بھی آپ حالات سے آنکھ موند کر محض تعویذ غنڈے، چادر گاگر، تعزیہ و امام
بارے کے فوائد و فضیلت پر خطاب جھاڑ رہے ہیں میرا شیخ ایسا، تیرا پیر ویسا کھیل رہے ہیں تو آپ ایک نمبر کے بزنیس مین ہیں۔
بزنیس کیجئے اپنی دنیا میں مگن رہیے، حسینیت کو بدنام مت کیجئے۔رہی قوم تو خدا حافظ ہے۔
یوں تو جنت جانے کے لیے نیک عمل ضروری ہے مگر زندگی میں امن و امان بحال رکھنے کے لیے نقض امن کے مجرمین و مرتکبین کے خلاف بر وقت فاسٹ ایکشن لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نماز کی دعوت دینا بہت آسان ہے مگر قوم کے سکھ دکھ میں ساتھ رہنا، حاکم وقت کے آگے دو ٹوک لفظوں میں حق کو حق، باطل کو باطل کہنا، مظلومین کے انصاف کے لیے غازیانہ تیور کے ساتھ نکلنا سب کے بس کا نہیں۔
کاش ہمارے دراز ریش والے قلندران ہند صدی پہلے بے ریش اقبال کی چیخ و پکار ہی سن لیتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
اقبال چیختے رہے
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوۓ رہبانیت
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
مشتاق نوری