نام میں کیا رکھا ہے
نام میں کیا رکھا ہے
از : محمد حیدر رضا
مشہور عالم انگریز ادیب، ولیم شیکسپیئر (William Shakespeare: 1564-1616) کو دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما نگار مانا جاتا ہے۔ انہوں نے بہت سے غیر معمولی ڈرامے لکھے۔ ان میں ایک ‘رومیو اور جولیٹ’ (Romeo and Juliet) کے نام سے بڑا ہی معروف ہے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ انہی دونوں نام کے عاشق و معشوق کی کہانی پر مشتمل ایک المیہ ڈراما ہے۔ اس کے ایک مکالمے کا یہ حصہ شہرت کے اس درجے کو پہنچا اور عام بول چال میں اس قدر مقبول ہوا کہ شاید خود شیکسپیئر کا کوئی دوسرا قول اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، دوسرے ڈراما نگاروں کو تو چھوڑیے۔ ڈرامے کے ایکٹ: 2، منظر: 2 کا وہ ڈائیلاگ کچھ یوں ہے: “What’s in a name?” (نام میں کیا رکھا ہے؟)
استفہام انکاری پر مشتمل یہ سوال، در اصل، مرکزی خاتون کردار، جولیٹ تب کرتی ہے، جب اس کے خاندان والے رومیو سے اس کی محبت پر اعتراض جتاتے ہیں۔ وجہ بتاتے ہوے اس سے کہا جاتا ہے کہ رومیو کا پورا نام رومیو مونٹیگ (Romeo Montague) ہے، جب کہ اس کا جولیٹ کوپیولیٹ (Juliet Copulet)۔ اور مونٹیگ و کوپیولیٹ دونوں خاندانوں میں بڑی زبردست دشمنی ہے۔ اس لیے اس محبت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس پر جولیٹ کہتی ہے کہ اگر رومیو کا نام مونٹیگ ہے تو اس سے کیا ہو گیا؟ نام سے کیا ہوتا ہے؟ آگے اپنی بات پر استدلال کرتے ہوے، جولیٹ کہتی ہے: “That which we call a rose, by any other name, would smell as sweet.”
تشریح: گلاب ایک مشہور پھول ہے جس کی خوش بو بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ اگر اس کا نام گلاب کی جگہ کچھ اور رکھ دیا جاے؛ تب بھی اس کی خوشبو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نام بدل دینے کے بعد بھی، اس کی خوش بو وہی رہے گی جو گلاب کی صورت میں ہے۔ ٹھیک اسی طرح، اگر رومیو کا خاندانی نام مونٹیگ ہے تو اس سے اس کی ذاتی خوبیوں میں کوئی کمی نہیں آنے والی۔
جن اوصاف و کمالات کا حامل میرا عاشق ہے، وہ جوں کے توں رہیں گے، خواہ اسے ہم مونٹیگ کہیں یا کچھ اور؛ یہاں تک کہ خود رومیو کہیں یا نہیں۔ اور ایسا اس لیے کہ نام میں کچھ نہیں رکھا ہے۔
مگر، اس عظیم ڈراما نگار سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ اس وقت کے انگلینڈ میں رہا ہوگا کہ نام میں کچھ نہیں تھا۔ آج کے بھارت میں، سب کچھ نام ہی میں رکھا ہے۔ یہاں کتنا ہی بڑا سے بڑا جرم کیوں نہ وقوع پذیر ہو جاے، اگر ملزم/مجرم ہندی نام والا ہے تو اس کی گرفتاری کے لیے شدت سے کوئی ٹویٹر ٹرینڈ چلے گا؛ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر کوئی ہیش ٹیگ استعمال ہوگا اور نہ ہی ٹی وی چینلوں پر مجرم کے دھرم اور اس کے دھرم والوں کے خلاف مباحثے ہوں گے۔
بس ایک خبر چلا دی جاے گی اور احساس ذمہ داری سے پیچھا چھڑا لیا جاے گا۔ اور کبھی کبھار تو اس کی حمایت میں ریلیاں تک نکال لی جائیں گی۔ اس کے بر عکس، اگر ملزم اقلیتی طبقہ بالخصوص اردو نام والا ہو تو یہ سارے پیمانے یکسر بدل دیے جاتے ہیں۔ پھر، اس کی گرفتاری کے لیے ٹویٹر ٹرینڈ بھی چلتا ہے؛ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے مذہب اور مذہب والوں (مسلمانوں) کے خلاف ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے بھی ہوتے ہیں۔
یہ بار بار کا آزمودہ ایک ایسا پیٹرن بن چکا ہے کہ اب اس کی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ تازہ معاملہ 56 سالہ منوج ساہنی نام کے ایک شخص کا ہے جس نے 32 سالہ اپنی پارٹنر، سرسوتی ویدیا کا ممبئی میں بے دردی سے قتل کر دیا۔ لاش کو ٹھکانے لگا کر، شواہد کو تباہ کرنے کی غرض سے، اس نے قتل کے بعد لاش کی بوٹی بوٹی کی؛ مکسر میں انہیں پیسا اور پھر پریشر کوکر میں پکا کر نالی میں بہا دیا۔ وہ تو کچھ دنوں کے بعد، جب گھر سے بدبو پھیلنے لگی تو پڑوسیوں نے پولیس کو شکایت کی اور اس طرح اسے گرفتار کیا گیا۔
یہ قتل اس جرم سے کسی درجہ کم نہیں جو آفتاب پونا والا نے شردھا واکر کے ساتھ انجام دیا تھا۔ بلکہ راقم کی نظر میں، بعض جہات سے، اس سے بھی زیادہ گھناؤنا ہے۔ مگر آفتاب کے اردو نام کے سبب، تب جو طوفان اکثریتی سماج اور میڈیا نے کھڑا کیا تھا، وہ اب ندارد ہے۔
مجھے لگتا ہے، اگر شیکسپیئر آج زندہ ہوتے اور بھارتی معاشرے کو نظر میں رکھ کر یہ ڈراما رقم کرتے تو شاید یہ نہیں لکھتے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ بلکہ وہ جولیٹ سے یہ کہلواتے کہ نام ہی میں تو سب کچھ رکھا ہے۔ اس لیے پیار محبت جاے بھاڑ میں، خاندان کا وقار قائم رہنا چاہیے۔
✍️ محمدحیدررضا
Pingback: بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے ⋆ تحریر: حیدر رضا