صحافت کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار
صحافت کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار
محمد صادق جمیل تیمی
ناشر:- تحریک پاسبانِ ملت سیمانچل
بلا شبہ صحافت اپنے افکار و خیالات ،احساسات و جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک اہم و موثر ہتھیار ہے۔اس کے ذریعہ وقت کا رخ اور دریاوں کی دھار کو مو ڑ ا جا سکتا ہے ۔
گویا صحافت تلوار کی دھار ہے جو تیز و باریک ہے ۔ یہ ایک روشنی جس سے دونوں طرح کا کام(یلغار و دفاع) لیا جا سکتا ہے۔یہ کمزوروں کو طاقت بخشتی ہے ۔ سوئے ہوئے کو بیدار اور بیدار کو سوے منزل رواں دواں کرتی ہے ۔
ایک مہذب معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔قبل اس کے کہ میں آپ کے سامنے صحافت کے سلسلے میں بات کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف بیان کردوں تاکہ نفس موضوع کی فہمائش میں آسانی ہو ۔
صحافت کی تعریف:
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’صحف ‘‘سے ماخوذہے ،جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتاہے ۔
انگریزی میں ’’جرنلزم ‘‘جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حسا ب یا روزنامچہ ۔
صحافت کی تعریف مختلف کی گئی ہے ،مشہور انگریزی ادیب آر نالڈ نے صحافت کی تعریف یو ں کی ہے ’’صحافت عجلت میں لکھا گیا ادب ہے ‘‘journalism is literature in a hurry (رہبر اخبار نویسی ،سید اقبال قادری : ۱۲ )لیکن یہ تعریف متنازع فیہ ہے ۔
اس کی صحیح اور جامع تعریف فن صحافت کی عمدہ امریکی کتاب ’’ایکسپلورنگ جرنلزم ‘‘کے مطابق یہ ہوگی کہ’’صحافت جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات ،رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے ‘‘(حوالہ مذکورایضا)۔
صحافت کی ابتدا و ارتقا :
تاریخ کے آینے میں : صحافت کی تایخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ لندن کے تقریبا ایک درجن پبلشروں (ناشروں)نے ۱۶۶۲ء میں اپنی ایک انجمن قایم کی اور یہ اہتمام کیا کہ ایک دوسروں کو خبریں باہم تبادلہ کریں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ بہت ساری خبریں بیک وقت مہیا ہونے لگیں ۔
اور اسے چھوٹے چھوٹے کتابچہ یا رسالہ کی شکل میں چھاپنے لگے تو عوام بھی ایسے اہم معلومات میں خاصی دل چسپی لینے لگی ،ایسے کتابچوں نے روز نامہ اخباروں کے لیے راہ ہموار کردی اور پھر لندن کا پہلا روزنامہ اخبار ’’لندن ڈیلی کورانٹ ‘‘کے نام سے پہلی بار ۱۷۰۲ء میں منظر عام پر آیا ۔اٹھارہویں اور انیسو ی صدی میں صحافت قدر ترقی میں رہی
لیکن بیسوی صدی میں اس نے بے حد ترقی کی اور اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ ہندو ستان میں طباعت کا کام سب سے پہلے مسیحی مبلغوں نے شروع کیا ۔
۱۵۵۷ء میں گوا میں انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب شائع کی ۔۱۸۱۱ء میں اسٹیم انجن کی ایجاد کے بعد زمانے نے ترقی کی اور رفتہ رفتہ بڑی بڑی چھپائی مشینیں ایجاد ہوئیں جو بڑی آسانی سے اخبارات کے پرچے نفاست کے ساتھ چھاپ دیتی تھیں۔
اس طرح اس جانب توجہ گئی اور ہندوستان کا سب سے پہلا اخبار کلکتہ سے ۱۷۸۰ء میں شائع ہوا ۔’’ہکّیز بنگال گزٹ ‘‘اس اخبار کا نام تھا ،اس کے مدیر کا نام گنگا دھر بھٹا چاریہ تھا ۔
بنگالی زبان میں راجہ رام موہن رائے ’’سمباد کومودی ‘‘نامی اخبار نکالا ،اسی طرح اردو کا سب سے پہلا ہفتہ واری اخبار ’’جام جہا ں نما‘‘ہے جو ۲۷مارچ ۱۸۲۲ء کو شائع ہو ا جس کے ایڈیٹر منشی لالہ سدا سکھ تھے ۔
اسی طرح اردو کا پہلا روزنامہ اخبار ’’اردو گائڈ‘‘کلکتہ سے مولوی کبیر الدین کی زیر ادارت شائع ہوا ۔اس کے بعد ہندوستان میں ’’گل رعنا ‘‘کریم الاخبار ‘‘اسعد الاخبار ‘‘جیسے اردو کے اہم ابتدائی اخبارات جاری ہوئے،اس طرح اردو صحافت نے ہندوستان میں دیگر زبانوں کی صحافت کے مد مقابل سر اٹھا کر کھڑی ہوئی ۔(اردو صحا فت اور علما:۳۲)۔
صحافت کی اہمیت :
آج کے اس تیز رفتار دور میں صحافت کی اہمیت و افادیت اورضر ورت اہل علم سے مخفی نہیں ۔بلا شبہ صحافت انسانی اقدار کے محافظ ہے ،کسی بھی معاشرہ میں اخبارات کی ایک مخصوص طاقت ہوتی ہے جو اپنا جداگانہ اثر رکھتی ہے ۔تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ اخبارات نے ہی کئی حکومتیں قائم کیں ،کئی حکومتوں کو استحکام بخشا اور کئی کو جڑ سے اکھاڑ پھیکا ہے ۔
مشہور فاتح نپولین بونا پارٹ کو اخبار کی طاقت کا صحیح علم تھا ،ان کا قول ہے کہ ’’تین مخالف اخباروں سے ایک ہزار بندوقوں سے بھی زیادہ خوف کھانا چاہئے‘‘(رہبر اخبار نویسی :۲۶)
کسی شاعر نے اس کی مزید ترجمانی کی ہے
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
اکبر اعظم کے زمانے میں ایشیا وسطی کے کسی حکمرا ں نے کہا تھا کہ ’’مجھے اکبر اعظم کی تلوار سے اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا ابو الفضل کے قلم سے ڈر لگتا ہے ‘‘اسی طرح مولانا آزاد کے اخبار ’’الہلال ‘‘کی تحریروں کا اثر دیکھ کر فرنگیوں کے کلیجے کانپ جاتے تھے ،اس کے علاوہ کئی اخبارات نے اپنے گرج دار اداریوں سے برطانوی حکومت کے لیے سوہان روح تھے(حوالہ مذکور ایضا)
آج کے اس جدید دور میں صحافت کی اہمیت اس سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ اخباروں کے ساتھ ساتھ اس کا عکس انٹرنیٹ ،ٹیلی ویژن پر بھی نظر آتا ہے ،ٹیو ٹر ،فیس بک ،گوگل ،پلس یوٹیوب جیسے شوسل نیٹ وراس کے علاوہ عالمی سیٹلائٹ اسٹیشنوں میں مواصلات کی دنیا میں جیسے برق رفتاری لا دی ہو ،دنیا اب اسے ’’چوتھی طاقت ‘‘کا نام دیتی ہے ۔مذکورہ چند تفصیلات سے صحافت کی اہمیت ہمارے سامنے دو آتشہ ہو جاتی ہے ۔
صحافت کے مقاصد :کتاب The elements of journalism” ”کے مطابق صحافت کے مقاصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے عوام الناس کو ایسی اطلاعات فراہم کرنا جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ،اور پھر وہ شہری اس حاصل معلومات کی بنیاد پر اپنی زندگی ،قومیت ،سماج اور اپنی حکومت کے بارے میں بہتر رائے قائم کر سکتا ہے ۔تمام انسانوں کو بہتر سے بہتر حالات میں زندگی گزارنے کی آسانی بہم پہنچاتا ہے ،احقاق حق اور ابطال باطل جیسے اہم صحافت کے مقاصد ہیں
صحافت کے آداب و اصول :
کسی بھی کام کو بحسن خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پاے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس سے جڑے چند آداب و اصول کارفرما ہوتے ہیں ،جس پر عمل کئے بغیر منزل مقصود کی رسائی ناممکن و محال ہے ،تو آئے صحافت کے چند اصول کو جانتے ہیں
(۱)ایمان داری،سچائی صحافت کے اولین واجبات میں سے ہیں اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے یعنی دروغ گوئی او رجھوٹ کا خفیف سا حصہ بھی اس میں شامل نہ ہو ۔
(۲) شہریوں کی ترجیحات کو مقدم رکھنا
(۳)خبروں کی اشاعت میں بحث و تحقیق کے عنصر کو بحال رکھنا
(۴) اس کا استعمال غیر جانبدارانہ اور تعصب سے پاک ہو
(۵)وقتا فوقتا قارئین و عوام الناس کو اپنی رائے رکھنے اور اس کے حل کے لیے کوئی کالم کا انتخاب کیا جاے
(۶)خبروں کو معتبر ،دلچسپ اور موضوعی بنانے کے لیے پیہم کو شش کرنا
(۷)عوام کی اکثریت اور ملک کے قوانین کا لحاظ رکھنا
(۸)دل چسپی بڑھانے کے لیے غلط نیت کے ساتھ خبروں کی صداقت میں خرد برد کرنا ناقابل معافی اور غیر اخلاقی عمل ہے
(۹)اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام احباب سے حسن روابط رکھنا مزید معلومات کے لیے مراجعہ کیجیے کتاب The elements of journalism.کا ۔صحافت کے اقسام :
دیگر علوم کی طرح صحافت کے بھی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں
(۱)پرنٹ میڈیا (رسائل ،جرائد ،مجلات و اخبارات )
(۲)الیکٹرونک میڈیا (ٹیلی ویژن ،ریڈیو اور نیوز چینلس )
(۳)سائبر میڈیا یا شوسل میڈیا (فیس بک ،ٹیوٹر،گوگل اور واٹساپ )مذکورہ تین بنیادی اقسام کے علاوہ ان سے نکلنے والی ذیلی بہت سارے اقسام ہیں مزید معلومات کے لیے کتاب ’’جرنلزم کیا ہے ‘‘ دیکھا جا سکتا ہے ۔
صحافی کے اوصاف :
صحافی سماج کا نہ صرف نمائندہ ہوتا ہے بلکہ جوابدہ نقاد بھی ہوتا ہے ۔ہر اچھی چیز کی تعریف کرے اور ہر بری چیز کی مذمت کرے لیکن عوامی بہبودی کا خیا ل بدرجہ اتم موجود ہو ۔
مثالی صحافی وہ ہے جو قدیم علوم کا ماہر ہو اور جدید فلسفوں سے واقف ہو ،سیاسی حالات و تغیرات پر عبور رکھتا ہو ۔سینکڑوں صفحات میں لکھی ہوئی چیز مختصر ترین الفاظ میں پوری روانی اور سہولت کے ساتھ تحریر کر سکتا ہو ۔
اسی طرح صحافت سے جڑے ہر فرد جسمانی طور پر صحت مند ہو ،ذہنی طور پر مضبوط و مستحکم ہو ،کیوں کہ صحافت میں ترقی و کامرانی کے لیے کسی بھی فرد کا عام سطح سے ذرا بلند سطح پر ذہین ضروری سمجھا جاتا ہے ۔
اسی طرح صحافی جسمانی و ذہنی اہلیتوں کے علاوہ اعلی اخلاق و کردار اور اوصاف حمید ہ کے متحمل ہو ۔
صحافت کا طریقہ کار :
مذکورہ تمام چیز وں کی تفصیل کے بعد آئے اب ہم جانتے ہیں کہ اس کے مبادیات کیا ہیں ؟ کیسے ہم اس کو حاصل کریں؟ اس میں لیاقت و اہلیت کیسے پیدا کریں ؟مذکورہ تمام چیزوں سے آپ بھی جرنلزم کی دشت نوردی کے خواہاں ہو گئے ہیں ۔
یاد رکھیں !لکھنا یہ ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے ۔ آپ نے کسی ایسے شخص کے بارے میں نہیں سنا ہوگا جو یکا یک لکھاری بن گیا ہو۔
کم وقت میں صحافت کی دنیا میں ایک منفرد مثال بن گیا ہو ایسا نہیں ہے ۔اس میدان میں بڑی جاں کاہی اور جگر کاوی کرنی پڑتی ہے ،برسوں مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے ۔کتابوں کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔ لکھنا ایک مشکل ،صبر آزما اور محنت طلب کام ہے ۔مشقت اور بھرپور رجحان کا طالب ہے اس وجہ سے تفریح کے لیے اس میدان میں قدم رنجا ہو نا نادانی اور حماقت ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ فرصت کی گھڑیوں میں لکھیں گے تو پھر آپ نہیں لکھ سکتے ۔امریکہ کا مشہور مصنف ’اے بی وائٹ‘کہتے ہیں کہ ’’جو شخص لکھنے کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہو وہ کچھ لکھے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ‘‘(رہنما اخبار نویسی:۳۹)۔
لکھنے کا سب سے اہم اصول یہی ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں قلم آجائے تو سفید قرطاس کو اپنے افکار و خیالات سے سیاہ کر ڈالیں ۔ مولانا آزاد قلعہ احمد نگر جیل میں یہ سو چتے کہ ہمیں بڑی لائبریری ملے گی ،آرام بستر ملے گا ،تو ہم لکھیں گے تو ایسی صورت میں ہم تک ’’غبار خاطر ‘‘جیسی بے مثال کتاب نہیں آتی ۔ ابن تیمیہ زندگی کے بیشتر اوقات جیل میں گزارے ،خصوصا آخری دو سال جیل کے کال کوٹھرے میں گزراے ،مگر یہ قید و بند قلم و قرطاس سے انہیں دور نہیں کر سکی ۔
جب آپ کا انتقال ہو ا تو ساڑھے تین سو کے لگ بھگ کتابیں لکھ چکے تھے ۔اسی طرح شاہ ولی محدث دہلو ی نے دہلی کے جاٹ اور مرہٹوں کے بیچ قلم کے چراغ جلاتے رہے ۔
اس وجہ سے کوئی لکھاری آیڈیل ،ماحول اور مثالی کییفیت کے انتظار میں بیٹھا رہے گا تو وہ نہیں لکھ پائے گا ۔صبر و تحمل کا مادہ جب آپ شروع میں قلم پکڑیں گے تو آپ کو دقتوں کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، الفاظ و جمع آپ کی محسوسات آپ کا ساتھ نہ دے لیکن ایسے میں دلبرداشتہ ہو کر قلم و قر طاس ترک کردینا حماقت ہو گی آپ اپنے تاثرات کو لکھتے رہیں ، آپ جو بھی مناسب سے مناسب تر سمجھ رہے ہیں اس کو بہتر سے بہتر الفاظ کے پیرہن میں پرود یں آپ کی یہی مشق تحریر کو موثر و پر کشش بنانے میں کار گر ثابت ہو گی۔
کوئی بھی ادیب مضمون نویس یا نثر نگار بغیر محنت و مشقت کے نہیں بنتے ، بقول اقبال نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیراگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ صحافت کا کام کر سکتے ہیں تو اس پیشے کو ضرور اختیار کیجیے ۔ یہ پیشہ نہایت ہی دل کش و دل چسپ ہے ،تو آئیے اس کے چند ابتدائی اصول کو جانتے ہیں ۔
(۱) کثرت مطالعہ کسی بھی مو ضوع کو تحریر کر نے کے لیے انسانی مشاہدہ کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی اہم کر دار ادا کر تا ہے ، اخبارات ، رسائل و جرائد کامطالعہ بھی ایک ناگزیر ہے، اس سے آپ کی زبان اچھی و صاف ہو گی ، زبان پر دسترس کے لیے مطالعے کے ساتھ لکھنے اور بو ل چال کی مشق بھی لازمی ہیں ۔
اس کے لیے آپ کو اچھا لکھنے والا ، معیاری و مستند کتابوں ، خوبصورت نثر نگاران صاحب طراز ادیبوں کی کتابیں مسلسل زیر مطالعے رکھنے ہو ں گے ، جیسے حالی ؔ ، شبلی ؔ ، پریم چندر ؔ ، مو لا نا آزاد ؔ ، ظفر علی خاں ؔ ، شاہد احمد دہلوی ؔ ، رشید احمد صدیق ؔ ، صلاح الدین احمد ؔ ، کرشن چندر ؔ ، خواجہ احمد عباس ؔ ، سید ابو الاعلی مو دودی ؔ وغیرہ کے اشہب قلم سے صادر نگار شات ۔ آپ معیاری تحریروں کا جس قدر مطالعہ کریں گے غیر شعوری طور پر آپ کی تحریر بھی بہتر سے بہتر ہو تی جائے گی۔
(۲)آپ ان کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جو آپ سے بیس سال پہلے لکھی جا چکی ہیں ۔مشہور صحافیوں کی آب بیتیوں ،ادیبوں ،شاعرو ں اور سماجی کارنوں کی بائیوں گرافی پڑھیں ۔ا
س سے آپ کو طرز تحریر آئے گا ۔پچاس فیصد ادبی کتابوں کو بھی زیر مطالعہ رکھیں ۔کم ازکم روزانہ دو اخباروں کا مطالعہ ضرور فرمائیں ،اور ان سے حاصل شدہ چیزوں کا نوٹس تیار کریں ،وقتا فوقتا اسے دیکھتے رہیں اس سے علم تازہ رہے گا ۔
(۳)اپنی زندگی میں چند اہم صحافیوں و ادیبوں کا انتخاب کریں ،ان کی تمام خبریں ،تجزیے اور تبصرے پڑھتے جائیں ۔
لائبریری جا کر ان کی تمام تحریروں اور کتابوں کو گھول کر پی جائیں ۔ان کی شخصیت کے بارے میں ،ان کے کام کرنے کے طریقے اور ان کی زندگی کے بارے ان کی فلاسفی تک پڑھ ڈالیں ۔ تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ کیسے یہ لوگ کامیاب ہوئے ؟
ان کی زندگی میں کون سا راز تھا جوانہیں کامیابی و کامرانی کے اعلی مدارج تک لے گیا ۔
(۴)بعض اوقات سکھنے کے خاطر بلا معاضہ بھی کام کریں ،اس سے کچھ تجربے حاصل ہوں گے جو آگے کے لیے راہ ہموار کرے گی ۔ لگے ہاتھوں آپ کو مضمون نویسی کے بھی چند اصول و آداب سے واقف کئے دیتا ہوں ۔
(۱)سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کریں،منتخب شدہ موضوع کے بارے میں مختلف ذرائع سے مواد اکٹھا کریں ۔اساتذہ ،دوست و احباب ،مفکرین و مفسرین اور بڑے ادیبوں کے خیالات ،اخبارات یا انٹر نیٹ پر موضوع کے تعلق سے شائع شدہ تحریروں سے یا اس سے متعلقہ کتابوں سے مدد لی جا ئے۔
(۲)مواد جمع ہونے کے بعد اس اس کو لکھنے کی باری آتی ہے ۔عموما کسی بھی مضمون کے تین حصے ہوتے ہیں ؛دعوی ،دلیل اور نتیجہ ،جو معلومات آپ نے اکٹھا کی ہے اس کو اختصار کے ساتھ صاف کریں اور پھر دعووں کے دلیل کے طور پر اپنے نکتے بیان کریں ،آخر میں دعوے اور دلائل کو سمیٹتے ہوئے جو نتائج برآمد ہو ان کو ضبط تحریر میں لائیں ۔
جہاں تک ہو سکے مضمون کے دونوں طرفہ خیالات کی پیش کش ہونی چاہیے ،جتنا ہو سکے سادگی ،سلاست اور روانگی پورے مضمو ن میں قائم رکھا جائے ۔کسی بھی تحریر کو دلکش و دلچسپ بنا نے کے لیے عبارکا انداز و اسلوب اہمیت رکھتا ہے
آسان الفاظ میں اپنی بات کو رکھنے کی ہنر مند ہو ، تاریخ نویس
ابن خلدون نے کہا کہ الفاظ پیالہ ہیں معانی پانی ، اب اگر پانی ایک بد نما پیالہ میں ہو گا تو پینے والوں کی قدرتی طور پر کوفت محسوس ہو گی تو بعض اوقات خیالات کی بلند ی کے باوجود بھی اسلو ب کی خشکی کی وجہ سے مضمون بے فائدہ ہو جاتا ہے ۔
اس وجہ سے جملہ مختصر اور سادہ صحت زبان کی خاص خیال اور آخیر مرحلہ میں ایک بار نظر ثانی ضرور کر لیں ۔
درسی کتابوں میں پڑھے جانے والے اسباق کو اپنے لفظوں میں بیان کر نے کی کو شش کیجیے ،ہر سبق کے تجزیہ و تفصیل یا تخلیص کی کوشش کیجیے اس سے آپ کو اظہار و تعبیر کا سلیقہ حاصل ہو گا ۔
نظم و نثر کے شہ پارو ں کو حفظ کیجیے اور مضمون لکھتے وقت ذخیرہ شدہ معلومات میں سے اچھی اچھی تعبیرات کا استعمال کریں اس سے آپ کی تحریر میں تازگی گ شگفتگی پیدا ہو گی ، مضمون جملوں سے بنتا ہے اور جملے الفاظ سے ، اس لیے الفاظ کا انتخاب مناسب ہو نا چاہیے
بعض دفعہ ایک لفظ یا نقطہ کے بدلنے سے پورا مفہوم بدل جا تا ہے۔ الفاظ و معنی کے تکرار سے گریز کریں ۔
البتہ ضروری ومناسب مترادف کا استعمال کیا جاسکتا ہے، معنی کا تکرار مضمون کا بڑا عیب شمار ہو تا ہے، مو ضو ع سے باہر مت نکلئے ، اسی مضمون کا ہر ہر جز کو لینے کی کوشش کیجئے ، اسی طرح مضمون کے شروع سے تمام اجزاء مسلسل مرتب اور مربوط ہو نے چاہیے ایسا نہ ہو کہ’’ ایک بڑھیا تھی اور بچپن میں مر گئی ‘‘ جب بڑھیا تھی تو بچپن میں کیسے مر سکتی ہے ؟
ربط و خاکہ یا خطہ کے لیے کتابیں پڑھیں ، اساتذہ سے مدد لیں یا اپنے سے سینئر تجرکار افراد سے رہ نمائی لیجیے ۔ الجھے ہو ئے خیالات سے اجتناب کریں صحیح و درست زبان استعمال کریں ۔پہلے جملے کا دوسرے جملے سے مکمل ربط بھی برقرار رکھیں ۔
(۳)اسی طرح مضمون نگاری میں مہارت کے لیے روزنامچہ لکھا کریں ۔اپنی شبانہ روز کی کارکردگی کو ہر دن اپنی ڈائری میں تحریر کریں اس سے آپ کی تحریر کے اندر رفتہ رفتہ جدت پیدا ہوگی ۔
(۴)کلاسوں میں پڑھی جانے والی اور زیر مطالعہ کتابوں کے اچھے عناوین کا لب لباب و خلاصہ اپنی زبان میں تحریر کریں ۔
(۵)کسی تاریخی مقام کی زیارت یا علمی
اسفار کے احوال کوائف کو قلم بند کریں ۔
کسی واقعہ و حادثہ کی رپوٹینگ کا اہتمام کریں ۔مذکورہ تمام اصول و طریقے مدارس و مکاتب اوراسلامی جامعات میں پڑھانے والوں کے لیے بہت آسان ہیں ہر وہ طالب جو فن صحافت و مضمون نویسی میں شغف رکھتا ہو تو اوپر میں دیے گئے اصولوں کو عملی پیراہن پہنائے تو ہرچند کامیاب ہو سکتا ہے ۔اللہ تعالی ہمیں اس فن کے ماہر و بارع بنائیں اور اس کے ذریعہ ملک و ملت کے مفاد میں کچھ خدمات انجام دینے کی توفیق دے (آمین)۔
Pingback: اگر صحافت صالح مقصد کے ساتھ ہو تو یہ عبادت ہے
Pingback: احتیاط کے ساتھ ردعمل دیجیے ⋆
Pingback: مسلکی تعصب سے باہر نکلو ⋆ توصیف القاسمی
Pingback: بہار و بنگال میں اردو کی صورت حال ⋆ اردو دنیا
Pingback: کس کی تابوت میں کیل،کس کے سرسجے گا تاج ⋆ محمد رفیع
Pingback: میں منتر پڑھوں گا تو بل میں ہاتھ دے ⋆ تحریر : توصیف القاسمی