حافظ ملت کا نظریہ صحافت

Spread the love

حافظ ملت کا نظریہ صحافت

نشاط رومی مصباحی

(کٹیہار، بہار)

حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اپنی اعلی افکار و نظریات کے توسط سے قوم و ملت کی زلف پریشاں کو سنوارنے اور جماعت اہلسنت کے تانے بانے سلجھانے کے لیے ہمہ جہت و ہمہ گیر منصوبہ بندی و افراد سازی فرمائی۔ یہ ان کی فکری وسعت اور بلند نگاہی ہی کا کمال ہے کہ جس کے اثرات ان کے تلامذہ در تلامذہ پر مرتب ہوتے گئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصباحی علما نے ہر محاذ، ہر مقام پر فتح و کامرانی کا پرچم لہرایا اور دین و ملت کی بے لوث خدمات انجام دیں۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ کے انہیں ہمہ جہت اور بلند افکار و نظریات میں ایک صحافی نظریہ بھی ہے۔

صحافت انتہائی اہم اور حساس فیلڈ ہے۔ جس کا ہدف اصلی عوام کی ذہنی تعمیر و تربیت اور معاشرتی تہذیب و ثقافت کی ترویج ہے۔ انسانی افکار کو منظم کرنے اور ان کے اقدار کو بحال کرنے میں صحافت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ صحافتی قوت متحرکہ نے ہر دور میں اپنا اثر دکھایا ہے۔ یہ تمام مثبت نتیجے اس وقت برآمد ہوسکتے ہیں جب صحافت اصول و آداب اور اپنے اہداف اصلی پر موقوف ہو ورنہ اس کے برعکس منفی نتائج ہی نکل سکتے ہیں جیسا کہ عصر حاضر میں صحافت نے اسے بالکل واضح کردیا ہے۔

صحافت کی اہمیت و افادیت تب اور دوبالا ہوجاتی ہے کہ آج کے اس ڈیجیٹل زمانے میں صحافتی اثر و رسوخ کے بغیر قومی، ملی، مذہبی، سیاسی، سماجی روز افزونی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا چونکہ آج جس کے پاس میڈیائی طاقت اور صحافتی سطوت ہے اس کی آواز پوری دنیا میں جاتی ہے۔

چناں چہ اس جدت پسند دور تک پہنچتے، پہنچتے صحافت کے مختلف آلات و اسباب کی فراہمی اور اسلوب و طرز کی خوش آئند تبدیلی سے غیر معمولی ترقی اور سہولت ہوگئ ہے تاہم رسائل و جرائد اور اخبارات صحافتی میدان کے وہ اہم عناصر ہیں جن کے ذریعے جہاں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی جاسکتی ہے وہیں اپنی زریں تاریخ کو صفحہ قرطاس پر اتار کر نسل مستقبل تک پہنچایا جا سکتا ہے، جس کے آئینے میں وہ اپنی صلاحی و فلاحی لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے حافظ ملت علیہ الرحمہ کا نظریہ گراں بہا قابل ملاحظہ ہے کہ جب آپ علیہ الرحمہ سے پریس اور قلم سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:

”ہر مسلمان مذہب و ملت کا ذمہ دار ہے، علماے کرام زیادہ ذمہ دار ہیں۔ عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ پریس کی طاقت بھی حفاظت مذہب کے لئے ضروری ہے تو علماے اہل سنت کا تعاون کریں، علماے اہل سنت ان شاءاللہ قلمی خدمت بھی کریں گے اور حتی الامکان کرتے بھی ہیں۔ یہ کھلی اور ظاہر حقیقت ہے کہ سنیوں میں جذبہ تعاون نہیں کہ کتنے جرائد و رسالے شائع ہونے اور اسی بیماری کی نذر ہوگئے، جماعتیں قائم ہوئیں اور اسی مرض کا شکار ہو گئیں۔

(حیات حافظ ملت بحوالہ حافظ ملت نمبر قدیم، اشرفیہ ص:77/76)

مندرجہ بالا اقتباس سے حافظ ملت علیہ الرحمہ کے صحافتی نظریہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور اس نظری کسوٹی پر صحافت کی معنویت و افادیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس جانب انہوں نے جہاں علماے کرام کی توجہ مبذول کرائی وہیں عوام اہلسنت کو دست تعاون دراز کرنے کی ترغیب بھی دی۔

جب حافظ ملت علیہ الرحمہ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا سنی علما پیچھے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ”یہ بات غلط ہے کہ سنی علما وہابیوں سے پیچھے ہیں، یہ اور بات ہے کہ وہابیوں، دیوبندیوں میں پروپیگنڈہ ہے۔ وہابیوں، دیوبندیوں میں تنظیم ہے، سنیوں میں تنظیم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کا کام منظر عام پر کار نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنوں کا کام منظر عام پر معلوم نہیں ہوتا۔ اتفاق اور انتشار میں بڑا فرق ہے“ ( حافظ ملت نمبر اشرفیہ قدیم ص:77)

اس اقتباس سے جہاں حافظ ملت کا تنظیمی، تحریکی مزاج سمجھ میں آتا ہے وہیں صحافت کی اہمیت بھی اجاگر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی سرگرمی کی تشہیر بغیر صحافت کے ناممکن ہے اور جب ہمارے افراد صحافتی میدان میں ہوں گے ہی نہیں تو ہمارے کام منظر عام پر کیونکر نمایاں ہوں گے؟ اور اسلامی افکار و نظریات کیسے عام ہوں گے؟

اس موقع پر علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کی ادارت میں نکلنے والا “ماہنامہ پاسبان” کے نشاۃ ثانیہ پر حافظ ملت علیہ الرحمہ نے جو علامہ نظامی علیہ الرحمہ کے نام مکتوب ارسال فرمایا تھا وہ بھی کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے علامہ نظامی علیہ الرحمہ کی صحافتی خدمت کی پذیرائی و حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ اور صحافتی تاثیر و تحریک کو واضح فرمایا ہے۔ مکتوب آپ کے نظر نواز ہے:

”اس دور الحاد میں تبلیغ و ہدایت کی جس قدر شدید ضرورت ہے، اظہر من الشمس ہے۔ مسلمان اپنی جہالت سے بے دینی کا شکار ہورہا ہے، دولت ایمان کھو رہی ہے، کفر کی تاریکی، ظلم و طغیان کی اندھیری چھائی ہوئی ہے، حق و صداقت کی آواز کان تک پہنچا سخت دشوار ہوگیا۔ ایسے نازک دور میں “پاسبان” کی دوبارہ زندگی سے بے حد مسرت ہے۔ پاسبان بڑا زریں مقصد لے کر اٹھا ہے، دین و ملت کی پاسبانی کرنا چاہتا ہے۔ مولاے کریم اس کو ثبات و دوام اور استحکام عطا فرمائے اور اسی مقصد کے تحت چلنے کی توفیق بخشے۔

(ماہنامہ اشرفیہ، انوار حافظ ملت نمبر نومبر، دسمبر1992ء ص: 50/49)

اسی طرح 1944ء میں جب آپ ہی کے شاگرد رشید قائد اہلسنت، رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے کلکتہ سے پندرہ روزہ “جام کوثر” کا پہلا شمارہ جاری فرمایا تو وہ رسالہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی پہنچا جس پر آپ نے مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے ہوئے قائد اہلسنت علیہ الرحمہ کے نام مکتوب روانہ فرمایا، مکتوب ملاحظہ فرمائیں:

”آپ کا “جام کوثر” جمشید پور میں ملا تھا۔ جام کوثر کے متعلق یہ عقیدہ تھا اور ہے کہ ایک ہی جام پی کر پیاس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ مگر آپ کا جام کوثر وہ ہے جس نے بے پناہ تشنگی بڑھا دی۔ جی چاہتا ہے کہ اس کو پندرہ روزہ نہیں، ہفتہ وارانہ نہیں، روزانہ بار بار پیا جائے۔ یہ جام کوثر اپنی صوری و معنوی خوبیوں میں آپ اپنا نظیر ہے۔ پہلا ہی قدم اتنی بلندی پر ہے کہ چاروں طرف سے متوالے ٹوٹ پڑے، ہاتھوں ہاتھ لۓ گۓ، جو پڑھتا ہے پرچہ نہیں دینا چاہتا، بہ دشواری ایک پرچہ مبارک پور تک لایا، بہ حفاظت اپنے پاس رکھا، مگر حضرت مولانا شاہ غلام آسی صاحب نے اس پر قبضہ کرلیا۔ امید ہے کہ وہ اس سے جام کوثر کا کچھ کام ہی کریں گے، مگر میں بے جام ہی رہ گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ سب پرچہ اپنے پاس رکھوں۔ میری دلی منشا اور قیمتی مشورہ ہے کہ مسلمان اس کو اس طرح اپنائیں کہ جام کوثر ہر مسلمان کے گھر میں رہے اور ہر ہر پرچہ محفوظ رہے۔ بفضلہ تعالیٰ آپ صاحب لسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیکر ایثار و اخلاص ہیں۔ پھر جام کوثر کے ثبات و دوام میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ صرف استقلال کی ضرورت ہے۔ مولی تعالیٰ کرم فرمائے، بام عروج و ترقی کی انتہائی منزل پر گامزن فرماۓ، آمین بجاہ سید المرسلین علیہ و علی افضل الصلوة والتسلیم “

(علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار بحوالہ حیات حافظ ملت، المجمع الاسلامی، 2008ء ص: 489)

اس پورے مکتوب سے جہاں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے علمی، ادبی اور اخلاقی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے وہیں صحافتی بصارت و بصیرت کا بھی پتا لگتا ہے۔

سابق مدیر ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور حضرت مولانا بدر القادری مصباحی رحمۃ اللہ علیہ نے ماہنامہ اشرفیہ 1978ء کا اداریہ “ہندوستان میں سنی صحافت” کے زیر عنوان چند دہائیوں کے گزشتہ اور موجودہ رسائل و جرائد کا جائزہ لیتے ہوئے “استقامت کان پور” کے تعارفی حصے میں رقم طراز ہیں:

”استقامت جناب ظہیر الدین صاحب کی جفاکش، محنتی اور مصائب بردوش شخصیت سے عبارت ہے، اس غریب لفظ کو بھی چرخ صحافت کے سارے برجوں کی سیر کرنی پڑی۔ کبھی یہ پندرہ روزہ تھا، ہفتہ وار ہوا، پھر روزنامہ کی شکل اختیار کر گیا۔ انہی دنوں ظہیر صاحب مبارکپور بھی آۓ اور بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور حضور حافظ ملت نے گولہ بازار میں لفظ “استقامت” پر اپنی عالمانہ اور نکتہ بارانہ تقریر فرمائی تھی اور ظہیر صاحب کو مبارک پور سے پچیس لائف ممبر دے تھے۔ خود مبارک پور کی گلی گلی پھر کر سنیوں کے اس اخبار کو زندہ رکھنے کی سعی فرمائی تھی“ (علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور، 1978ء، ص:4)

مندرجہ بالا تحریری اقتباس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ دین و ملت کی خدمات کے لیے میدان صحافت کو کس قدر اہم سمجھتے تھے اور خود بھی بڑھ چڑھ کر تعاون فرماتے تھے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے صحافتی نظریہ کو سمجھنے کے لئے جامعہ اشرفیہ اور فرزندانِ اشرفیہ کا تذکرہ بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس اشرفیہ سے حافظ ملت نے اپنی جوہر آشنائی اور افراد سازی کی نایاب تاریخ رقم فرمائی، جامعہ اشرفیہ میں متعدد شعبہ نشر و اشاعت کے قیام اور ماہنامہ اشرفیہ کی اجراء کے ذریعے جماعت اہلسنت کو صحافتی دنیا کی طرف ترغیب و تشویق اور اسلامی افکار و نظریات کی ترسیل و تشہیر کے لیے قابل تحسین و لائق تقلید کارنامے انجام دیے۔ ماہنامہ اشرفیہ شمارہ اول کے صفحہ:7 پر حافظ ملت علیہ الرحمہ کا یہ ارشاد گرامی قارئین کے نظر افروز ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم- نحمدہ و نصلی علیٰ حبیبه الکریم، اما بعد!

برادران اسلام! السلام علیکم—- مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور ایک قدیم دینی درسگاہ ہے جو ترقی کرکے دارالعلوم اشرفیہ اور اب الجامعۃ الاشرفیہ ہے۔ یہ دینی ادارہ اپنی پوری جد و جہد کے ساتھ تعلیمی و تبلیغی، دینی خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ 20 شوال 1393ھ کی مجلس شوریٰ نے اس میں شعبہ نشر و اشاعت کا اضافہ کیا۔ یہ شعبہ اپنی بساط کے مطابق تقریری و تحریری خدمات انجام دیتا رہا۔ قلمی خدمات سے “ارشاد القرآن” “اشرفیہ ماضی اور حال” “الوسیۃ السنیہ” شائع ہوکر منظر عام پر آچکیں۔ اب مستقل “ماہ نامہ اشرفیہ” آپ کے زیر نظر ہے۔ ان شاءاللّٰه المولیٰ القدیر یہ رسالہ، مذہبی ماہ نامہ نہایت پابندی کے ساتھ وقت پر پہنچتا رہے گا۔ امید ہے کہ آپ اس کی قدر کریں گے اور حتی الامکان اس کی اشاعت کو فروغ دیں گے اور اعانت فرمائیں گے۔ دعا ہے کہ مولاے کریم اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والتسلیم کے صدقہ میں اس ماہ نامہ اشرفیہ کو قوم و ملت اور مذہب اہل سنت کے لیے مفید تر فرماے، آمین ثم آمین۔ فقط: عبد العزیز [25/ذوالحجۃ 1395ھ]

(علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار ص: 45/44)

حافظ ملت علیہ الرحمہ کے اس کارفرمائی سے جو گراں قدر نتائج برآمد ہوے، اس حوالے سے ڈاکٹر شکیل اعظمی کا جام نور، دہلی کو دیا گیا انٹرویو کا یہ حصہ قابل ملاحظہ ہے: ”مقررین و خطبا تو ہماری جماعت میں بہت تھے، لیکن انشاء پرداز صحافی اور قلم کار کم تھے، اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے حافظ ملت نے ماہنامہ اشرفیہ کا اجرا فرمایا اور باضابطہ نشر و اشاعت کا ایک مستقل شعبہ قائم فرمایا، جس کے خوب صورت اور قابل قدر نتائج آج دنیا کے سامنے ہیں۔ آج مصباحیوں میں نہ خطبا کی کمی ہے، نہ قلمکار انشا پرداز صحافی کی“ (علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار بحوالہ ماہنامہ جام نور دہلی، شمارہ مارچ 2007ء ص:40)

بلاشبہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کے فیضان نظر سے بہرہ مند ہونے والے طلبہ جو ہر فیلڈ میں نمایاں نظر آتے ہیں وہیں وہ مطلع صحافت پر ظاہر و باہر نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے 2004 میں اپنے ایک مضمون (مطبوعہ: ماہنامہ کنزالایمان، دہلی، اکتوبر 2004ء) میں فرزندانِ اشرفیہ کی ادارت میں نکلنے والے رسائل و جرائد کی جو فہرست دی ہے وہ کچھ یوں ہے:

ماہ نامہ اشرفیہ کے علاوہ ماہ نامہ اسلام ، بنارس [ مولانا قاری محمد عثمان اعظمی ] ، پندرہ روزہ جام کوثر، کلکتہ، ہفت روزہ رفاقت، پٹنہ اور ماہ نامہ جام نور، کلکتہ [ رئیس القلم علامہ ارشد القادری ] ، ماہ نامہ فیض الرسول، براؤں شریف [ مولا نا صابر القادری نیم نستوی، مولانا محمد احمد مصباحی مبارک پوری] ماه نامہ المیزان، بمبئی [ مولانا سید محمد جیلانی مصباحی کچھوچھوی ] ، ماہ نامہ نمائندہ [ ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی ] ، پندرہ روزہ شان ملت، پٹنہ [مولانا قاری محمد عثان اعظمی] ، ماه نامه الدعوة الاسلامیہ ، برطانیہ [ مولانا قمر الزماں اعظمی] پندرہ روزہ ریاض عقیدت، جالون [ مولانا اسلم بستوی مصباحی] سال نامہ المصباح، مبارک پور [ مولانا سید اصغر امام قادری] سہ ماہی کوثر، مبارک پور [ مولانا نوشاد عالم مصباحی] ماہ نامہ رضاے مصطفی، بریلی شریف [مولانا محمد حنیف رضوی] ، ماه نامہ جام شہود، کلکتہ [مولانا سید رکن الدین اصدق مصباحی ] ، وائس آف اسلام ، ہالینڈ [ مولا نا بدر القادری مصباحی] ، ماه نامہ حجاز جدید، لندن [مولانا قمرالزماں اعظمی] ، ماه نامه حجاز جدید، دہلی [مولانا یسین اختر مصباحی] سہ ماہی امجدیہ، گھوسی [علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری] اور دی گفٹ، ساؤتھ افریقہ [مولانا فتح احمد بستوی مصباحی]

(علامہ احمد مصباحی احوال و افکار ص:89) یہ 2004ء کی فہرست ہے، اگر اب تک کی فہرست تیار کی جاے تو اس کے لیے ایک تفصیلی باب درکار ہوگا، کیونکہ ان رسائل و جرائد کے علاوہ بے شمار ایسے مجلات و رسائل اور روزنامے معرض وجود میں آ چکے ہیں، جن میں مصباحی علماء و فضلاء مدیر اعلیٰ، مدیر معاون، بانی و منتظم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ بعض تو عصری اداروں سے مکمل صحافت کورس کرکے چرخ صحافت پر اپنا پھریرا لہرا رہے ہیں۔

یہ حافظ ملت کا نظریاتی فیضان ہی ہے جس نے ان خاک زادوں کو لؤلؤ و مرجان کا ہم پلہ بنا دیا۔

6 thoughts on “حافظ ملت کا نظریہ صحافت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *