بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے
بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے
‘آدی پرش’ پر ہنگامے کے بیچ، منوج منتشر کی وضاحت کے پس منظر میں بالی ووڈ نغمہ نگار، منوج منتشر پیدائشی منوج شکلا ہوا کرتے تھے۔
جب فلمی دنیا میں قدم رکھا اور یہ محسوس کیا کہ اس نام نہاد ہندی فلم انڈسٹری میں تو ڈائیلاگ سے لے کر گانوں تک ہر طرف اردو کا دور دورہ ہے؛ پھر کیا تھا، صرف اردو میں فلموں کے مکالمے اور نغمے ہی لکھنا شروع نہیں کیا، اپنے نام سے شکلا کا لاحقہ ہٹا، عربی اصل والا ایک اردو لفظ ‘منتشر’ جوڑ دیا۔
اس طرح منوج شکلا سے منوج منتشر کا وجود عمل میں آیا۔ خدا جانے، یہ منتشر لاحقے کا کمال تھا یا خود منوج کے فن کا؛ بہر حال جو بھی ہو.
خاصی شہرت کمائی اور خوب پیسے بھی بٹورے۔ پھر آیا بھارتی سیاست کا تاریک ترین سال یعنی ٢٠١٤ء جب اس ملک کے لیے اور بالخصوص مسلمانان ہند کے لیے چیزیں بڑی تیزی سے بدلنے لگیں۔ وویک اگنی ہوتری سے لے کر کنگنا رناوت تک کئی فلمی ہستیوں میں واضح بدلاؤ نظر آنے لگا۔
اس طرح، کل تک جو لوگ بڑے آزاد خیال اور سیکولر سمجھے جاتے تھے، اچانک حکومت وقت کے مسلم-مخالف ایجنڈے میں شامل ہو گئے۔ منوج نے بھی حالات کو بھانپ لیا اور مغلوں کو گالی دینا شروع کر دیا۔ جو شکلا کبھی نام سے قلم زد کر دیا گیا تھا، منوج نے پھر سے اسے اپنے نام کا حصہ بنایا۔
البتہ، منتشر کو شاید اس لیے رہنے دیا کہ نغمہ نگار کا تشخص اس سے جڑ چکا تھا۔ پچھلے تین چار دنوں سے راماین پر مبنی ‘آدی پرش’ نامی فلم کے ساتھ ساتھ منوج منتشر کافی چرچے میں ہیں۔ در اصل، شکلا نے اس کے مکالمے لکھے ہیں۔
اور اس فلم کے ٥ مکالموں پر سنگھیوں کو یہ کہہ کر سخت اعتراض ہے کہ اس طرح کے بازاری جملے راماین جیسے عظیم رزمیہ کے کرداروں اور بالخصوص رام بھگت ہنومان جی کے شایان شان نہیں ہیں۔ جس ڈائیلاگ پر سب سے زیادہ ہنگامہ برپا ہے، وہ کچھ یوں ہے: “کپڑا تیرے باپ کا، آگ تیرے باپ کی، تیل تیرے باپ کا، جلے گی بھی تیرے باپ کی.
” اس معاملے نے اتنا طول پکڑ لیا کہ پرسوں خود منوج کو ایک لمبی پوسٹ لکھ کر صفائی دینا پڑی۔ شکلا نے اپنے مداحوں سے وعدہ کیا ہے کہ جن پانچ مکالموں سے ان کے جذبات مجروح ہوے ہیں، ان میں جلد ہی ترمیم کر دی جاے گی۔ اپنے اس وضاحتی نوٹ میں ایک مقام پر منتشر نے لکھا:
“میں سوچتا رہا، اختلاف راے ہو سکتا ہے، لیکن میرے بھائیوں میں اچانک اتنی کڑواہٹ کہاں سے آگئی کہ وہ شری رام کا فلسفہ بھول گئے جو ہر ماں کو اپنی ماں سمجھتے تھے۔
” واضح رہے، انہیں یہ اس لیے لکھنا پڑا کہ کئی لوگوں نے منوج پر تنقید کرنے میں ان کی ماں تک کو نہیں چھوڑا اور انہیں گندی گندی گالیاں دی ہیں۔ میں عرض کروں گا: شکلا جی، یہ کڑواہٹ اچانک نہیں آئی ہے۔ پچھلے نو سالوں سے اس دیش میں نفرت کا جو زہر بویا جا رہا.
یہ اسی کی فصل ہے جو ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ اور جس پر آپ محظوظ ہوتے نہیں تھکتے۔ مگر آج جب آپ کو یہ فصل کاٹنا پڑی تو بلبلا اٹھے! شاید ایسے موقعوں کے لیے ہی راحت اندوری صاحب کہہ گئے ہیں:لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میںیہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
✍️ محمد حیدر رضا