ایک سچے عاشق رسول نے اس دار فانی کو الوداع کہا

Spread the love

ایک سچے عاشق رسول نے اس دار فانی کو الوداع کہا !

مفتی نعیم اختر قاسمی

مدرس مدسہ اسلا میہ شکرپور بھروارا، دربھنگہ

مسجد غلام حسین ریڈیو مارکیٹ چنیٔ کے سابق صدر اور جامعہ تجوید القرآن اتی پیٹ کے سر پرست مخلص اور سچے دینی رہنما اور سچے عاشق رسول جناب الحاج صلاح الدین صاحب 23 جون 2024 بمطابق 16 ذی الحجہ 1445 ہجری کو انتقال فرماگئے ، مرحوم کا سانحۂ ارتحال ملت کا عظیم خسارہ ہے۔

حاجی صلاح الدینؒ ایک اصول پسند اور ایماندار تاجر تھے ، نظافت و طہارت آپ کی زندگی کا جزءلاینفک تھا، صوم و صلوۃ کی پابندی آپ کی عادت و فطرت میں شامل تھی

درود شریف کی کثرت اور تلاوتِ قرآن پاک آپ کی زندگی کا محبوب مشغلہ تھا ، علما و حفاظ سے حد درجہ محبت و عقیدت اور مدارس و مساجد کی بے لوث خدمت ، غریب و پریشان حال لوگوں کی حاجت روائی ، یتیموں مسکینوں، بیواؤں کی دلجوئی و غم خواری آپ کو ورثے میں ملی تھی ۔

آپ کے والد گرامی حاجی امیر جان صاحب مرحوم ایک نہایت دیندار اور خوشحال انسان تھے اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے ، وہ زیورات کا کاروبار بڑے پیمانے پر کرتے تھے جس کی بناء پر خوب وسعت و فراخی حاصل تھی۔

حاجی صلاح الدین صاحب کو اللہ تعالٰی نے جہاں خوب مال وزر سے نوازا تھا وہیں حد درجہ تواضع و خاکساری منکسر المزاجی اور متانت و سنجیدگی مبداء فیاض سے وافر مقدار میں انہیں عطا ہوئی تھی ۔

      آپ کو نعت شریف اور سیرت پر تقاریر سننے کا بہت شوق تھا ۔ آپ سچے عاشق رسول تھے ، رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے ذکر کے وقت آپ کی ہیئت قابل دید اورقابل رشک ہوا کرتی تھی۔

آپ طویل مدت تک ہندوستان کے دوسرے نمبر کی الکٹرانکس ریڈیو مارکیٹ مونٹ روڈ چنیٔ کے پریزیڈنٹ رہے

اور مسجد غلام حسین جو ریڈیو مارکیٹ کے قلب میں واقع ہے تقریباً بیس سالوں تک اس کی صدارت کے عہدے پر فائز رہے ، آپ باضابطہ الیکشن کے ذریعہ منتخب ہوئے تھے۔ آپ مسجد کی تعمیر و ترقی اور نمازیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت پہونچانے کے لیے ہمہ وقت فکر مند رہا کرتے تھے

اسی طرح خدام مسجد کا بھی ہرطرح خیال رکھتے تھے ،گر چہ خدام مسجد کی دل و جان سے خدمت کرنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہندوستان میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ، اس مسجد میں تمل ناڈ کے اکثر لوگوں کو نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہے ۔

آپ بڑے تاجر اور مارکیٹ کے صدر ہونے کے باوجود پورے ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ قبل از وقت مسجد میں حاضر ہوتے اور خود آذان دینے کی سعی و کوشش کرتے تھے ، عشق ومستی میں سرشار ہو کر بندگان خدا کو ندا لگاتے تھے 

آپ مسجد کی ہر ایک چیز کی نگہبانی اور نگرانی کرتے اور ہر چیز کو اپنی جگہ سلیقہ اور قرینہ سے رکھتے اور رکھواتے تھے ، مشائخ ، علما حفاظ، طلبا اور مدارس دینیہ کے سفراء حضرات سے غایت درجہ محبت و عقیدت رکھتے تھے

بلا تفریق مسلک و مشرب مدارس دینیہ کی مالی فراہمی کے سلسلے میں بڑے فکر مند اور بے چین رہتے تھے، خود کو پورے ماہ رمضان مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و اذکار اور علماء و سفراء مدارس کو فائدہ پہونچانے کیلئے وقف کر رکھا تھا

اور پابندی کے ساتھ بتری مسجد میساپیٹ رائی پیٹا میں ظہر، عصر، اور مغرب، میں ایک مخصوص جگہ پر آدھا گھنٹہ قبل بیٹھ جاتے اور آنے والے علماء وسفراء حضرات سے مدرسہ کے احوال و کوائف معلوم کرتے ، تحقیق کے لیے سند سفارت کا زیروکس لیتے اس کے علاوہ دیگر کاغذات بھی دیکھتے

اور اعلان کے لیے نظام الاوقات بنا کر سفراء حضرات کو ایک مقررہ نماز و تاریخ میں بلاتے اور متعینہ تاریخ میں سفرا کو ایک پرچی لکھ کر دیتے جس میں وہ امام صاحب کو مائک دینے کے لیے لکھتے اور سفراء مختصر انداز میں اپنے مدرسے کا تعارف کراتے اور پیچھے آکر بیٹھ جاتے 

مقتدی حضرات روپے دیتے ہوئے چلے جاتے اور چندہ سے فراغت کے بعد روپے کی گنتی میں سفراء کے ساتھ وہ بذات خود شامل ہوتے اور چندہ زیادہ اور مناسب ہونے پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور رب کریم کا شکریہ ادا کرتے اور پھر اپنی اور دیگر متعلقین حضرات کی رسید بھی بنواتے اور ہر آنے والے مدرسے کے نمائندہ کو کچھ نہ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔

ہمارے برادر گرامی قاری نسیم اختر ثاقبی بانی و ناظم مدرسہ تجوید القران اتی بیٹ چنئی ان کی صدارت کے زمانے میں مسجد غلام حسین ریڈیو مارکیٹ کے نائب امام تھے، قاری صاحب خوش الحان ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ لب ولہجہ کے مالک بھی ہیں ۔

آپ نے عارف باللہ قاری صدیق صاحب باندویؒ کے دور نظامت میں جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ کے شعبۂ تجوید و قرات کے معروف استاذ قاری مظہر علی فاروقیؒ سے کسب فیض کیا اور ان کے محبوب نظر رہے ۔

چناں چہ حاجی صلاح الدین صاحب مرحوم قاری صاحب سے بے انتہاء محبت و شفقت فرمایا کرتے تھے اور نظرعنایت بھی رہتی تھی ، اگر میں یہ کہوں کہ وہ سرزمین مدراس میں روز اول سے تادم حیات قاری صاحب کے سرپرست رہے اور ہر خوشی و غم کے ساتھی رہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔

14 دسمبر بروز منگل 2004 کو جب قاری نسیم اختر ثاقبی صاحب کا نکاح ہوا تو اس میں الحاج صلاح الدین صاحب اور حاجی عبدالحمید اومیگا صاحب مرحوم نائب صدر مسجد غلام حسین نے ہمارے آبائی وطن بھتورہ مدہوبنی بہار تشریف لانے کی زحمت گوارا کیا۔اس وقت ہمارے بہار کے راستہ کی صورت حال نہایت خستہ حال تھی خصوصا ہمارے گاؤں اور اطراف کی سڑکوں کی حالت ناقابل بیان تھی ۔

ہم باشندگان بھتورہ کو امید بھی نہ تھی کہ یہاں کا راستہ ٹھیک ہو جائے گا اور بجلی کا انتظام وغیرہ ہو جائے گا ۔

ان کی آمد کی خبر سن کر خوشی و مسرت بھی ہوئی اور شرمندگی بھی چونکہ یہ لوگ مدراس کے باشندہ تھے اور ریڈیو مارکیٹ کے یہ حضرات نامور تاجر تھے

بہرحال ان کی ضیافت اور راحت و آرام کی ذمہ داری بندہ ہی کے سپرد کی گئی اور ان حضرات کو اپنے دروازے ہی پر ٹھہرانے کا فیصلہ کیا گیا چنانچہ دو تین دن قبل روم کو آراستہ اور مزین کرنے کے لیے سامان لایا گیا

جس میں کپڑا پلاسٹک اور وال پیپر وغیرہ شامل تھے ، مکمل 24 گھنٹے دو تین دوستوں کے ہمراہ روم کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہا اللہ کے فضل اور ہمارے دوستوں کی محنت و کوشش کے ذریعہ وہ روم قابل دید بن گیا ۔

 احقر اپنی راحت اور آرام کو قربان کر کے ان حضرات کو سہولت فراہم کرنے کی حتی المقدور کوشش میں لگا رہا، حاجی صاحب مع اپنے رفقا پانچ بجے صبح بروز منگل کو بھتورہ پہنچے۔

فجر کی نماز سے فراغت کے بعد معزز مہمانوں کو ہلکا ناشتہ کرایا گیا

پھر ان حضرات نے آرام کیا، نیند سے بیدار ہونے کے بعد غسل وغیرہ کیا، پھر باضابطہ روایت بہار کے مطابق ناشتہ پیش کیا گیا

پھر ہم لوگ دیگھیار ضلع دربھنگہ گئے اور والد مکرم الحاج حافظ مطیع الرحمن صاحب نے نکاح پڑھایا اور ہمارے برادر اکبر ڈاکٹر شمیم اختر قاسمی جو اس زمانے میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ریسرچ اسکالر تھے ان کی خواہش پر ہمارے گاؤں کے معروف خطیب مولانا سالم القاسمیؒ نے خطاب فرمایا، اسی بستی میں میرے والد گرامی امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے

راقم الحروف بہار کی مرکزی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ میں عربی سوم کا متعلم تھا، جب میرا گھر جانا ہوتا تو والد گرامی کے حکم پر جمعہ کو دیگھیار پہونچتا اور جمعہ کا بیان کرتا اور اگر کوئی میلاد وغیرہ ہوتا تو اس میں بھی بیان ہوتا جس کی بنا پر وہاں کے لوگ خصوصا نوجوان حضرات کافی محبت کرتے تھے

تحدیث نعمت کے طور پر یہ بتا دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں دوران طالب علمی ہر چھوٹے اور بڑے پروگرام میں میری تقریر ہوتی اور عربی چہارم کے سال میں یوم جمہوریہ کے پروگرام کی نظامت بھی

اس سلسلے میں اسلامیہ کے نہایت متحرک و فعال مخلص سابق استاذ مولانا طارق انور ندوی صاحب کی خصوصی رہنمائی اور حوصلہ افزائی ہوتی

یوم جمہوریہ کے پروگرام کی نظامت کی تیاری کے زمانے میں استاذ مکرم مولانا طارق انور صاحب ندوی نے مضمون لکھنے کی شد بد پیدا کرنے کی کوشش فرمائی

اور اس کے بعد دارالعلوم وقف کے جس مسابقہ خطابت میں حصہ لیا اس میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل ہوئی ۔ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ۔

نکاح سے فراغت اور ما حضر تناول کرنے کے بعد ہم ان مہمانان کرام کو والد گرامی کی مسجد لے گئے اور عزیزی نور الاسلام سلمہ جو آج حافظ قرآن اور فاضل دارالعلوم دیوبند ہیں

انہوں نے اور ہمارے دوست عبدالحفیظ نے نہایت خوبصورت انداز اور دلکش لب و لہجہ میں نعت شریف سنایا جس سے ان مہمانوں کو قلبی خوشی ہوئی اور حاجی صاحب نے دونوں صاحبان کو نقدی انعام عنایت فرماکر حوصلہ افزائی فرمائی 

ہماری بستی آکر دونوں مہمانوں کو قلبی خوشی اور روحانی مسرت ہوئی کیوں کہ ہماری بستی اور ہمارے دادا کی اولادوں میں علما اور حفاظ کی تعداد کافی زیادہ ہے اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی حرج اور دشواری نہیں ہے کہ مدہوبنی ضلع کے یکہتہ اور ململ بستی کے بعد بھتورا میں علماء حفاظ و قراء اور مفتیان عظام کی کثرت ہے

ہمارے دادا حافظ حکیم سلیمان صاحبؒ کے شب و روز کی محنت اور للہ فی للہ قران کریم کی خدمت اور حافظ جمیل صاحبؒ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے، بعد میں چل کر صوفی مولوی صاحبؒ ، ڈاکٹر علی امام صاحبؒ ،حافظ صابر صاحبؒ ، مولانا شعیب مفتاحی صاحبؒ

الحاج ظہیر صاحب کی اور قاری نسیم صاحب بھاگل پوری کی بھی بڑی محنت اور کوشش شامل رہی ہے اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اپنے شایانِ شان بدلہ عنایت فرمائے، آمین۔

حاجی صاحب دوسرے دن ولیمہ کے بعد سوتنترتاسنانی ایکسپریس سے دہلی گئے، وہاں سے سہارن پور پور اور سہارن پور ریلوے اسٹیشن پر حافظ و قاری مظاہر صاحب سامع تراویح مسجد غلام حسین ریڈیو مارکیٹ موجود تھے

ان کے ساتھ ان کی بستی موغل مرزا تشریف لے گئے اور اس بستی کے مدرسہ عربیہ قاسم العلوم میں قیام کیا 

وہاں سے رائےپور اور ریڑھی تاج پورہ گئے اور دونوں اداروں کے ذمہ دار اور صاحب نسبت بزرگ مفتی عبدالقیوم صاحبؒ خانقا رحیمیہ رائےپور اور جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ کے مہتمم مولانا اختر صاحبؒ سے خصوصی گفتگو ہوئی

ان بزرگوں سے کچھ وظیفہ بھی لکھوایا اور پھر وہاں سے کلیر شریف گئے جہاں انہوں نے صابر کلیریؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھا۔

  آپ نے دارالعلوم دیوبند اور مظاہرالعلوم سہارن پور کا بھی دیدار کیا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو جانے کا بھی شرف حاصل کیا

اور یہاں سے اپنے وطن عزیز چنئ تشریف لے گئے 2016 میں بھی دوبارہ ان جگہوں کی زیارت کی، بندہ پہلی بار رمضان کے بعد 2005 میں اپنے بھائی قاری نسیم صاحب کی نیابت کے لیے مدراس گیا تو آپ اور حاجی سلیم صاحب مرحوم نے انتہائی محبت و شفقت کا معاملہ کیا اس سفر میں حاجی صاحب میرے ساتھ صرف آٹھ دن رہے

اور پھر حج بیت اللہ پر روانہ ہو گئے، اس موقع پر بھی فضیلت حج کے عنوان پر مسجد غلام حسین میں میری تقریر ہوئی، حاجی جلال صاحب اور ان کے صاحبزادے اور بزرگ صفت انسان حاجی فضل اللہ شریف صاحب ہمارے بڑے خیر خواہ رہے ہیں اور ہیں (اللہ تعالیٰ ان کا سایہ عاطفت امت مسلمہ پر دراز فرمائے، آمین)

اور پھر میں دس مہینوں کے بعد تراویح پڑھانے کی غرض سے حاضر ہوا تو آپ اکثر و بیشتر میرا قرآن سنتے،اور لوگوں کے پاس ذکر جمیل کرتے،اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور غلطیوں کی نکیر کرتے تھے، یہ سلسلہ تقریباً چھ سالوں تک تواتر کے ساتھ جاری رہا۔

2011 میں جب دارالعلوم وقف سے تکمیل افتاء کے بعد خادم قرآن الحاج وی ایس نور اللہ صاحب کے انوار الصفہ ٹرسٹ کا سپروائزر منتخب ہوا تو آپ کی خوشی کی انتہاء نہ رہی اور شیروانی اور صدری پہننے کا مشورہ دیا، آپ میری تلاوت نظامت اور تقریر سنتے اور تحریر پڑھنے کے بڑے شائق تھے۔

پھر 2012 کے اواخر میں آپ کے مشورے سے قاری نسیم صاحب نے جامعہ تجوید القرآن قائم کیا تو آپ اس کے روز اول سے سرپرست رہے اور مدرسہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے ،طلبا کی تعلیم و تربیت اور لباس و پوشاک اور آرام و سہولت پر گہری نظر رکھتے تھے 

حاجی صاحب مدرسہ کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں ذوق و شوق کے ساتھ شامل ہوتے اور قاری صاحب کو میری نظامت کا حکم فرماتے اس کے علاوہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں تقریبا 300 علماء حفاظ ائمہ ومؤذنین اور قریبی رشتہ داروں کو کرتا پاجامہ کا کپڑا اور کچھ روپے کا لفافہ نہایت محبت کے ساتھ تھیلی میں رکھ کر اور آداب و القاب کے ساتھ نام لکھ کر پہنچ واتے ۔ آپ نے انگریزی میں ڈپلومہ کیا تھا اور انگریزی زبان فراٹے سے بولتے تھے

مگر آپ کو اردو لکھنے اور پڑھنے میں کافی دلچسپی تھی، ادھر 15 سالوں سے اردو میں قرآن کا ترجمہ، تفسیر ، حدیث اور اس کی توضیح کے علاوہ اکا بروں کے سوانح حیات و تاریخ وسیر کا مطالعہ ہی آپ کا مشغلہ تھا

الغرض جس روم میں آپ کا قیام تھا وہ مستقل کتب خانے کی شکل اختیار کر گیا تھا، ماشاءاللہ پسماندہ گان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، سارے بیٹے اور داماد دین اور کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کی علما، حفاظ، ائمہ اور موذنین و مدارس و مساجد کی محبت اور بے لوث دینی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے سیات کو حسنات سے مبدل فرمائے ساتھ ہی آپ کو اعلٰی علیین میں جگہ نصیب فرمائے 

آپ کے وارثین کو صبر و جمیل اور اپنے سچے عاشق رسول والد گرامی کے نقش قدم پر چلائے آمین 

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *