حسن پیش کش کی عصری معنویت

Spread the love

حسن پیش کش کی عصری معنویت

نشاط رومی

(کٹیہار، بہار)

تقریر ہو یا تحریر، طباعت ہو یا اشاعت، تنظیم ہو یا تحریک، ادارہ ہو کہ تعلیم گاہ ہر ایک کی اثر انگیزی اور پذیرائی کا انحصار کہیں نہ کہیں حسن پیش کش پر بھی ہے۔ حسن پیش کش ہی ہے جو انسانی ترغیب و تشویق کا سبب بنتا ہے۔ اور شئ کا جمالیاتی رنگ دل کش ترتیب و تضمین پر مشتمل پیش کش کے ذریعہ سے ہی نکھر کر سامنے آتا ہے۔

چناں چہ انفرادی پیش کش ہی شئ کی ندرت و انفرادیت اور اس کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت پر غماز ہوا کرتا ہے۔ اسی حسن پیش کش کی طرف قرآن پاک میں واضح اشاریہ ہے:

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-

ترجمہ- اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو۔

آج کا یہ جدت پسند دور ایڈواٹائز کا دور ہے، میڈیا کا دور ہے۔ ہر ادارہ، ہر تحریک اور ہر کمپنی اپنے فروغ و ارتقاء کے حوالے سے حسن پیشکش کے تیئں نہایت ہی حساس اور فعال نظر آتی ہے۔ عالمی منظر نامہ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پیشکش کے حسن و قبح کی تفتیش کرکے ہی شئ کے محاسن و معائب کے معیار طۓ کۓ جاتے ہیں۔ یہی حسن پیشکش ”من لم یعرف اھل زمانه فھو جاھل“ کا روشن استعارہ بھی ہے اور فطری محاسن کی ضرورت بھی۔

حسن پیش کش کو عصری پیش کش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تغیر زمانی کے ساتھ پیش کش کے جمالیاتی معیار میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے حسن پیش کش کا شعور ہمارے ہاں کافی حد تک مفقود نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے کام؛ کارہائے نمایاں معلوم نہیں ہوپاتے۔

ہمارے یہاں کے تعلیمی، تعمیری، تحقیقی اور اشاعتی کاموں کا غائرانہ جائزہ لیجئے، عصری پیش کش اور مقتضیات زمانہ سے بے اعتنائی برتنے کی وجہ سے خاطر خواہ انہیں ترقی حاصل نہیں ہوپاتی۔

دارالعلوم سے لے کر دارالافتاء تک، دارالتحقیق سے لے کر دارالاشاعت تک تجزیاتی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پیش کش کی دیرینہ روایت کے التزام اور مروجہ عصری پیشکش سے اعراض کی وجہ سے انہیں جس اعلیٰ معیار کی ترقی حاصل ہونی تھی؛ حاصل نہ ہوسکی۔ ان کے معیاری کام عالمی سطح تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ مذہب و مسلک کے فروغ و استحکام میں کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے یہاں کام نہیں ہورہے ہیں، ہمارے یہاں قابل اور ذی استعداد افراد کی کمی ہے۔ بس حسن پیشکش کا عدم شعور، مزاج زمانہ سے غیر آشنائی ہے، جس کی بنیاد پر ہم اپنے آپ کو باور نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہیں اغیار عصری پیشکش اور وسائل زمانہ کے ذریعے اپنے کاموں کو چہار دانگ عالم میں پھیلانے کی سعی کررہے ہیں۔ اپنے باطل افکار و نظریات کی تبلیغ و تشہیر میں مصروف عمل ہیں۔

آج تک ہماری تقریریں تدبر و تفکر اور مواد سے عاری ہوکر وہی چند قصے، واقعات، خالص جذباتیت، چیخنے اور چلانے، سے باہر نہیں ہوپا رہی ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم مقتضیات زمانہ اور اسلوب پیش کش سے بے بہرہ ہیں۔

ہماری تحریریں آج تک وہی چند پارینہ اسلوب کی پیداوار ہیں۔ وہی چند گھسے، پیٹے عناوین پر خامہ فرسائی کے سوا کوئی علمی، ادبی، تحقیقی اور فکری عنوان ہمارے پاس نہیں۔ ہماری یہاں کی نعت خوانی روحانی لطف و کیفیت سے ماورا قسم قسم کے بھدے اسٹالئس میں ہوتی ہے۔

اور اس تناظر میں ہم فقط اپنے آپ میں ترقی یافتہ ہونے کا زعم لیے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ:

چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح

پلٹ کے دیکھا تو بیٹھے ہیں نقش پا کی طرح

~احمد فراز

حسن پیش کش اور مقتضیات زمانہ سے روگردانی کرکے ہمارے ترقیاتی خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے نہایت حساس ہونے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *