مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میں

Spread the love

محمدامام الدین ندوی مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میں

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی حفظہ اللہ حلقۂ اہل علم ودانش میں محتاج تعارف نہیں۔آپ کا شمار قدآور علما میں ہوتا ہے۔بہار کے مرکزی ادارہ امارت شرعیہ کے آپ نائب ناظم اور وفاق المدارس کے ناظم ہیں۔مختلف دینی و ملی تنظیم کے روح رواں،اور مختلف مدارس کےسرپرست ہیں۔ہفتہ روزہ امارت شرعیہ کا ترجمان “نقیب” کے مدیر (ایڈیٹر) ہیں۔

مفتی صاحب مدظلہ العالی صلاحیت وصالحیت کے جامع ہیں۔اللہ تعالٰی نے زبان وبیان پر قدرت دی ہے۔قلم کی دنیاں میں بھی آپ کا قد بڑا ہے۔انداز تحریر شگفتہ پھول کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے۔تحریر میں جاذبیت اور شہد سی مٹھاس ٹپکتی نظر آتی ہے۔جس عنوان پر آپ کا قلم اٹھتا ہے بلا افراط وتفریط جامۂ جامعیت میں ملبوس نظر آتاہے۔وفیات پر قلم چلتا ہے تو شخص مذکورکےمراتب کا بھرپور خیال ہوتا ہے۔اس شخص کی پوری تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔مفتی صاحب مدظلہ العالی کی تحریر میں گرانی نہیں ہوتی ہے ۔حشووزائد سے پاک چند جملوں میں پوری بات کہ دی جاتی ہے۔آپ قلم کے اچھے شاہ سوار ہیں۔

 

 

آپ اچھے ادیب بھی ہیں۔سوانح نگار بھی ہیں۔انشاء پرداز بھی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کوئی ادیب” مولوی” کو ادیب ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہےجبکہ ایک مولوی باادب “ادیب ہوتاہے۔آپ نے تھوڑی بہت شاعری بھی کی ہے۔جب سے”ہفتہ روزہ نقیب” کے اداریہ کی ذمہ داری آپ کے دوش ناتواں پر ڈالی گئی ہے “نقیب”میں نئی روح،اور جامعیت پیدا ہوگئی ہے۔

مفتی صاحب مدظلہ العالی درجنوں کتاب کے مصنف،مؤلف ومترجم ہیں۔آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی سیاحت وصحرہ نوردی میں گذر رہی ہے۔ مفتی صاحب کی زندگی جہد مسلسل،یقیں محکم،عمل پیہم،سے عبارت ہے۔ دل دردمند کےحامل ہیں۔دور اندیش اور نبض شناش ہیں۔حالات کو بھانپتے کا ملکہ اللہ نے عطا کیاہے۔نرمی آپ کی خمیر میں ہے۔خندہ جبیں آپ کا امتیازی شان ہے۔آپ کی نگاہ میں ہر چھوٹوں کے لئے شفقت پدری،اور ہر بڑوں کے لیےتکریم ہے۔

مفتی صاحب اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں۔آپ بافیض مدرس بھی رہ چکے ہیں۔آپ کا طریقۂ تدریس انوکھا اور نرالا رہا ہے۔آپ کے درجۂ حفظ کے بعض شاگردوں نے کہا کہ مفتی صاحب سے جتنا حفظ کیا وہ پختہ ہے۔اور وجہ بتائی کہ مفتی صاحب سبق کے ساتھ ہی سبقا پارہ سنتے تھے۔یہ طریقہ ان دنوں عموما مفقود ہے۔مفتی صاحب مشفق استاد بھی رہے اس کا تذکرہ مولانا اظہار الحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ حسن پور وسطی مہوا ویشالی بارہا اپنی مجلس میں کیا کرتے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم بربٹہ سمستی پورمیں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی۔وہاں کے بعض شاگردوں کا بھی بیان ہے کہ مفتی صاحب نے جو پڑھایا آج بھی یاد ہے۔

مفتی صاحب اصول پسند ہیں۔آپ کی زندگی روزنامچے کے تحت گزرتی ہے۔ہر کام کے لئے وقت متعین ہے۔اتنی مشغول،اور بھاگ دوڑ کی زندگی میں بھی پڑھنے لکھنے کے معمول میں فرق نہیں پڑتاہے۔یہ غیرمعمولی بات ہے۔ مفتی صاحب جہاں بھی گئے تواپنےلیے اس شعبے کو چنا جسے لوگ جلدی لینا پسند نہیں کرتے ہیں یا قہراوجبرا لیتے ہیں۔اس ذمے داری کو سنبھالنے کے بعد اسے نبھانے اور اس پر کھڑا اترنے کی آپ پوری کوشش کرتےہیں۔ اور اسے بام عروج عطا کرتےہیں۔مفتی صاحب عزم میں پختہ ہیں۔آپ نےجس کام میں ہاتھ ڈالا اسے پوری لگن، دلچسپی،اورخوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہوچایا۔

احساس ذمہ داری مفتی صاحب کے اندر بہ درجہ اتم موجود ہے۔یہی احساس انسان کو بڑابناتاہے۔ارو ارتقائی منزلیں عطا کرتا ہے۔یہی انسانوں کو معتمد بناتاہے۔

مفتی صاحب سادگی پسند ہیں۔سادہ زندگی گزارتے ہیں۔آمدورفت میں جو سواری میسر ہوئی استعمال کرلیا۔دیگر علماء کی طرح نزاکت پسند نہیں ہیں۔صبروشکر کا جذبہ رکھتے ہیں۔اس لئے جو ملا کھا لیا اور پہن لیا۔

مفتی صاحب نہ تو احساس کمتری کے شکار رہے اور نہ ہی احساس برتری،کے۔بلکہ میانہ روی آپ کا شیوہ رہا ہے۔ دین کی تبلیغ،امت کی فکر،آپ کا نصب العین ہے۔پچھلے چند ماہ بیمار رہے۔تیمار داروں کا تانتا لگارہا۔اس میں بھی ملک وملت کی فکر ان کی بیماری پر غالب نظر آئی۔

امت کے درد کے آگے اپنا درد بھول گئے اور بلا مبالغہ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے اسی پر گفتگو کی۔کرونا کی وجہ سےطلبہ کی تعلیم پر جو برے اثرات مرتب ہوئے اس پر بھی تشویش ظاہر کی۔ اس مہاماری میں بہت سے طلبہ نے تعلیمی سفر موقوف کردیا اور کام کاج میں لگ گئے اس پر اپنےگہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا۔عجب بات یہ لگی کہ اس حالت میں بھی ان کے معمول میں فرق نہیں آیا۔

آپ نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں بھی خدمت کی۔اور مدرسہ کو ہر طرح سے عروج بخشا۔

اخلاص آپ کا زیور ہے۔وفا آپ کا شیوہ ہے۔دوسروں کی تکلیف سے پریشان ہونا آپ کی فطرت ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ان شاءاللہ کبھی اس پر گفتگو ہوگی۔ مفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت پائی۔

دونوں بزرگوں سےکسب فیض کیا۔دونوں بزرگوں کادست شفقت آپ کر سرپےرہا۔نیزدونوں بزرگوں کو آپ پر اعتماد تھا۔امارت شرعیہ میں آپ کا بڑامقام ہے۔

مفتی صاحب نے افکار امارت،ونظریات اکابر امارت(اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھردے)کو ملک و بیرون ملک میں پیش کیاہے۔۔ادارہ چھوٹا ہویا بڑااس کو چلانے کے لیے” مالیات” ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔اس کا صحیح اندازہ اسے ہےجو کسی ادارہ سے منسلک ہیں۔آپ امارت شرعیہ کی مالی استحکام کے لیے بیرون ملک کابھی دورہ کرتے ہیں۔

اس سے امارت کو غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے۔اعلی ظرفی اورخودداری میں بھی آپ ید طولی رکھتے۔ مفتی صاحب کی شخصیت سازی میں جہاں اساتذہ کرام کی توجہ کار فرما رہی وہیں ان کی ذاتی لگن ومحنت،غیرمعمولی جدوجہد،اور سعادت مندی،والدین اور بڑے بھائی کی دعائیں،اہلیہ کی غیرمعمولی قربانی شامل ہے۔ آپ کے اندر وسعت بھی ہے، گہرائی بھی ہے،اور خاموش مزاجی بھی ہے۔شاید “کیف” نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا

“کیف پیدا کر سمندر کی طرح وسعتیں،گہرائیاں،خاموشیاں

مفتی صاحب ایک سایہ دار وپھل دار درخت ہیں۔جو،جب،جیسےچاہے اس سایہ دار وپھل دار درخت سے مستفید ہوسکتا ہے۔اللہ تعالٰی اس درخت کو بارآور اورسرسبزوشاداب بنائے۔آمین

(نوٹ۔ یہ میرے ذاتی تآثرات ہیں۔)

محمدامام الدین ندوی

مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

9801805853

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *