ڈاکٹر یا ڈاکو

Spread the love

*ڈاکٹر یا ڈاکو سیمانچل کے ایک المیہ پر تجزیاتی میرے ہی گھر کا حادثہ ہے۔ واقعہ کو ایک سال سے زیادہ بیت گیا۔

میرے والد گرامی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ قلبی تسلی کے لئے پورنیہ ایک اسپتال داخل کرایا۔ اس اسپتال میں سواے آئی سی کے کچھ بھی نہ تھا ، ڈاکٹر بھی باہر سے آتے تھے۔

والد صاحب کو ایک دن کے لئے ایڈمٹ کر دیا ، جس کا یومیہ بیڈ چارج 7000 روپے طے پایا۔ پہلے کمپاؤنڈر (چیلے) نے تھیلا بھر دوائیاں لکھوادی ، ڈاکٹر آنے کے بعد میرے ہاتھ میں ایک اور لمبی فہرست تھمائی گئی۔ فہرست کی دوائیاں اتنی تھیں کہ میں اس کا بوجھ سر پر مشکل سے اٹھا پا رہا تھا۔ وزن بیس کیلو کے قریب ہوں گے۔

اس میں کیا کا تھے ؟

مریض کو چھونے کے لیے دستانے ، کھانا کھلانے کے دستانے، پیشاب پاخانہ صاف کرنے کے اوزار ، دس سے زائد پائپ، یہاں تک کہ کچڑے اٹھانے کا آلہ ، پشاب پھیکننے کا آلہ ، کھانا رکھنے کا آلہ گویا کہ غیر ضروری چیزوں سے پورا کاٹون (باکس) بھرا تھا۔

مختلف سیرپ ، دوائیوں کے پتے ، بوتلیں وغیرہمیں نے اعتراض کیا تو کہا گیا کہ جو دوائیاں استعمال میں نہیں آئیں گی، وہ واپس ہو جائیں گی۔

بعد میں پتا چلا 90 فیصد ادویہ استعمال ہو گئی ہیں۔میں نے پوچھا کہ مریض تو آئیسولیٹ ہے ، وہ دوائیاں کب کھائے ؟

اگر کھائے بھی خالی ڈبے اور پتے کہاں گئے ؟در اصل وہ لوگ آدھی سے زائد دوائیاں واپس بیچ آئے تھے۔ ایک دن مکمل ہوئے۔ ایک دن کا صرف بیڈ چارج 7000 روہے تھا۔

دوسرے دن ہم نے مریض ڈسچارج (باہر نکالنے) کا فیصلہ کیا۔ ساری کاروائیاں ہو گئیں۔ 12 بجے کا وقت طے ہوا۔ بل میں مریض کو چھونے کے ، کھانا کھلانے کے ، پیشاب کے پائب نکالنے کے، کئی طرح کے انجیکشن لگانے کے ، یہاں تک ڈریسنگ (کپڑے پہنانے کے) الگ الگ چارجیز (روپے) لکھے تھے۔

کمپاونڈروں کی کاہلی کی وجہ سے 12 سے ایک بج گئے۔ ڈسچارج کے وقت پتہ چلا کہ اس اضافی ایک گھنٹہ کی وجہ سے اگلے ایک دن کے اور 7000 روپے بھرنے پڑیں گے۔ میں نے بہت ہنگامہ کیا۔ والد صاحب کی لاش بنی حالت زیادہ کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی

اس کے با وجود کئی غریب مریضوں کو وہاں سے منتقل کرایا۔ اس طرح کی لوٹ کا شکار تنہا میں ہی نہیں ہوا ، رات دن ہزاروں کی تعداد میں غریب اور بے کس ہوتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی یقین ہے ، آپ یا آپ کا کوئی قریبی بھی ضرور اس کا شکار ہوا ہوگا۔

(٢) حال ہی کا واقعہ ہے۔ کشن گنج کے ایک اسپتال میں ، اسپتال والوں کی نا اہلی اور لا پروائی کی وجہ سے ہمارے گاوں کی زچہ اور بچہ (ماں اور بچہ) دونوں کی موت ہو گئی۔

(٣) میری بھانجی ابھی بھی (تحریر لکھے جانے کے وقت تک) بستر علالت پر ہے۔ کشن گنج کے اسی اسپتال میں آپریشن ہوا۔ سِلائی میں بے احتیاطی اور اوزار کی صفائی کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے زخم بھر نہیں پایا اور ایک ماہ سے زائد ہوئے وہاں سے نکل کر پورنیہ کے مختلف اسپتالوں کے چکر لگا رہی ہے۔ اللہ نہ کرے ، امکان یہ بھی ہے کہ دوبارہ آپریشن کی نوبت آئے۔

جس پرائیوٹ اسپتال میں یہ دونوں واقعات پیش آئے ، اس کا حال یہ ہے کہ مریض ایڈمٹ کرنے کے بعد مرض کی نوعیت کے حساب سے اسپتال میں باہر سے کرایے کے ڈاکٹر منگائے جاتے ہیں۔ آپ اسی سے اسپتال کے معیار اور علاج کی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

پورے سیمانچل کے ہر گاوں یا اڑوس پڑوس میں آپ کو ایک دو ایسے نوجوان ضرور ملیں گے، جو خود کو تو ڈاکٹر کہلاتے ہیں ؛ لیکن ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ڈسکاؤنٹ پر ڈاکٹروں کو مریض فراہم کرتے ہیں۔ ایک ایک مریض کے لانے پر ایسوں کو اچھی خاصی رقم ملتی ہے۔

امراض اور ڈاکٹر اس وقت سیمانچل کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ پائی پائی جوڑنے والوں کی کمائی کا اچھا خاصا حصہ یہ ڈاکٹر اور اسپتال ہڑپ جاتے ہیں۔

پورنیہ اور کشن گنج کے ڈاکٹر اور اسپتال عورتوں کے زیورات ، غریب کسانوں کی زمینیں ، مویشی سب بکوا دیتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ان نام نہاد ڈاکٹروں سے زیادہ بھوکا ، لٹیرا اور غنڈہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (جاری۔۔۔)

*ڈاکٹر یا ڈاکو (٢)میں نے اپنی زندگی میں ان نام نہاد ڈاکٹروں سے زیادہ نیچ ، بھوکا ، لٹیرا اور غنڈا نہیں دیکھا۔

لوٹ کے چند حربے :

آپ کوئی بھی مرض لے کر حاضر ہوں ، بیماری ٹٹولنے سے پہلے ہی ڈاکٹر آپ کو پیشاب ، خون ، دل اور کئی طرح کے جانچ لکھ دیں گے؛ اس پر یہ غنڈا گردی کہ آپ کو اسی ڈاکٹر کے نشان زدہ سینٹر ہی سے چیک کرانا ہے ، ایک دن پہلے کے رپورٹس اس کی نظر میں ردی ہیں۔

آپ نے کئی ایسے مریض دیکھے ہوں گے ، جو مرغیاں، بکریاں ، اور گہنے بیچ کر یا کسی طرح سے بمشکل سنگین بیماری کے علاج کا انتظام کیے ، ڈاکٹر کے پاس گئے اور اپنی پوری رقم ان ”جانچوں“ پر خرچ کرکے ، دوا کی ایک خوارک لِیے بغیر گھر واپس ہوئے۔

ڈاکٹروں اور اسپتال والوں کی لوٹ گھسوٹ کا ایک حربہ یہ بھی ہے کہ ان چوروں کی پوری ٹولی صرف اسی فراق میں رہتی ہے کہ کوئی بھی مریض بغیر ایڈمٹ ہوئے صحت یاب نہ ہو پائے یا کوئی بھی زچہ بغیر آپریشن کے اپنا بچہ ہرگز نہ جن پائے۔

میڈیکل اسٹورس اور جانچ گھروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ نہ ہرمیشن ہے ، کہ کوالیفیکیشن ہے نہ ہی ڈگریاں۔ ایک ایک ڈگری پر دس اسٹورس کھولے بیٹھے ہیں۔

سرٹیفیکیٹ کسی اور کے نام پر ، میڈیکل اسٹور کا مالک کوئی اور ہے ، بولی لگاکر کر کسی اور لے رکھا وہ ، وہ کسی پانچویں کو سال دو سال کے کانٹریکٹ پر دے رکھا ہے۔ سوچیے ! ایسے میڈیکل اسٹورس سے کتنے کفایتی، معیاری اور شدھ دوائیاں فراہم ہوں گی!میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ کئی میڈیکل اسٹور ایسے ہیں کہ ڈاکٹر ان کے اشارے پر دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔

ڈاکٹروں کی ڈاکا زَنی سے بچنے کی چند تدابیر:

ہم اس تحریر سے ان لٹیروں کی لوٹ اور ان کے کالے دھندے تو نہیں روک سکتے، چند احتیاطی تدابیر سے ان کی لوٹ گھسوٹ سے خود کو ضرور بچا سکتے ہیں ۔

1 ہر جانچ اور دوا کی تفتیش کی جائے۔ کون سی دوا یا جانچ کس مرض کے لئے ہے ، اس تعلق سے بنیادی معلومات رکھیں، جہاں کچھ شکوک ہوں ، اعتراض کریں !

بار بار پوچھیے ! بات نہ ماننے کی صورت میں مریض بغیر علاج گھر لے جانے کی دھمکی دیجیے!

2 گھریلی خواتین زچگی میں زیادہ سے زیادہ اس بات کی کوشش کریں کہ نارمل بغیر آپریشن بچہ کی پیدایش ہو۔

3 بیماریوں میں گھریلو نسخے اور ٹوٹکے استعمال کیے جائیں ۔

4 مجبوری میں کوئی مریض ایڈمٹ کرانا ہو تو ایڈمٹ کے وقت ہی ساری چیزیں اور اخراجات طے کر لیں! 5

سرکاری اسپتالوں کا رخ کریں اور وہاں بے ضابطگی دیکھیں تو اس کی با ضابطہ شکایتیں درج کر وائیں !

6 میری طرح ہزاروں کی تعداد میں عوام اس لوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ میرے ایک پوسٹ کے بعد صرف 6 گھنٹوں کے اندر سو سے زائد پڑھے لکھے احباب کے میرے پاس میسیج آئے ۔

انھوں نے اقرار کیا کہ کبھی وہ بھی ڈاکٹروں کی لوٹ ماری اور غنڈا گردی کے شکار ہو چکے ہیں۔ ایسا آپ کے ساتھ ہو تو فورا آوازِ احتجاج بلند کی جائے اور خامشی سے ان کے مشق ستم بننے سے بچا جائے۔

پروین شاکرؔ نے کہا تھا : ؔ ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہراخامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

7 آخری بات، جس کی طرف خطیب اہل سنت رفیق محترم حضرت مولانا ارشاد القادری مصباحی صاحب قبلہ نے توجہ دلائی۔ ہمارے اپنے علاقوں میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں۔

ہم جتنے ڈاکٹروں کے خندق نما توند بھر رہے ہیں ، وہ سب کے سب انپورٹیڈ ہوتے ہیں۔ پچھلے 20 سالوں میں بستیوں کے حلیے بدلے، بستیاں اپنے قدیم رقبے سے کئی گنا بڑھیں ، کچے مکانات کی جگہ اونچی اور پکی بلڈنگوں نے لے لی ، بس یہ غریب بستیاں اپنے اندر سے اچھے ڈاکٹر نہیں دے پائیں !

(جاری

تحریر: انصار احمد مصباحی

aarmisbahi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *