محدث کبیر مولانا سید محمد یحیٰ ندوی

Spread the love

محدث کبیر مولانا سید محمد یحیٰ ندوی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ندوۃ العلماء کے گل سر سبد ، اسلاف کی یاد گار، محدث کبیر، تواضع انکساری کے پیکر، سادگی میں اپنی مثال آپ، نامور محقق، عربی زبان وادب کے رمز شناش، مخطوطات پر گہری نظر رکھنے والے مشہور عالم دین، خرد نواز، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے استاذ اور اجازت حدیث عطا کرنے والی بڑی شخصیت مولانا سید محمد یحیٰ ندوی ؒ 17؍ رمضان المبارک 1444ھ مطابق 8؍ اپریل 2023ء بوقت گیارہ بجے شب سفر آخرت پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز 18؍ رمضان کی شب 10؍ بجے مطابق 9؍ اپریل ان کے آبائی گاؤں سانحہ موجودہ ضلع بیگوسرائے میں ان کے پوتا مولانا احمر القاسمی نے پڑھائی، جنازہ کے قبل ان کے وارثین نے مقامی علماء کے مشورے سے میرا بیان طے کر رکھا تھا، چنانچہ حافظ امتیاز رحمانی نے ان کے خاندانی احوال وکوائف اور احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)نے ان کے علمی رسوخ، حافظہ، ذہانت اور حدیث کے حوالہ سے ان کی خدمات کا مختصر تذکرہ کیا، یہ موقع طویل تقریر کا ہوتا بھی نہیں ہے ، تدفین ان کے آبائی قبرستان میں گاؤں کی مسجد کے قریب ہوئی،ا میر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت پر ایک سہ نفری وفد قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی ، قاضی شریعت مولانا محمد انظار عالم قاسمی اور راقم الحروف پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد سانحہ پہونچا اور مولانا مرحوم کے جنازہ اور تدفین میں شریک ہوا، سانحہ گاؤں میں اتنا بڑا ’’سانحہ‘‘ شاید ہی کبھی ہوا ہوگا، رمضان المبارک کا مہینہ اور رات کے دس بجے جنازہ میں جو ہجوم تھا وہ ان کی عند الناس محبوبیت اور عند اللہ مقبولیت کی دلیل تھی ۔ مولانا سید محمد یحیٰ ندوی ؒ بن سید فضل الکبیر یکم رمضان المبارک 1338ھ مطابق 1930ء میں اپنے آبائی گاؤں سانحہ اس وقت کے ضلع مونگیر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ دار العلوم معینیہ سے پائی ، خاندانی وجاہت اور زمینداری اللہ نے عطا کی تھی ، آپ کا خاندانی تعلق سادات بارہ گاواں سے رہا، ابھی چھ سال کی عمر ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے والدین اور نانی کے ساتھ حج کی سعادت بخشی

اعلیٰ تعلیم کے لیے 1944ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور اس وقت کے نابغہ روزگار شخصیات حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مولانا شاہ عطا سلونوی اور مولانا اویس ندوی نگرامی رحمہم اللہ سے درسیات پڑھیں اور کسب فیض کیا، 1948ء میں یہاں سے فراغت پائی ، عربی زبان وادب کی طرف طبیعت مائل ہوئی تو مولانا عبد العزیز میمن (م 1978ئ) اور مولانا بدر الدین علوی (م 1965ئ) کی شاگردی اختیار کی ، حدیث کی طرف متوجہ ہوئے تو مولانا عبد اللیف علی گڈھی (م1959) کے حلقہ درس میں داخل ہو گیے، مولانا عبد اللطیف علی گڈھی

حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی (م 1313ھ) کے اجازت یافتہ تھے، احادیث کے کتابوں کے مدون اور مروج ہوجانے کے بعد اجازت حدیث کی پہلے کی طرح وہ اہمیت باقی نہیں رہی ، لیکن عالی سند کا حصول اب بھی قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔علی گڈھ سے کسب فیض کے بعد مولانا جامعہ ازہر جانا چاہتے تھے ، ان کے استاذ شیخ عبد العزیز میمن نے اس کا انتظام بھی کر دیا تھا

لیکن والدہ اتنی دور بھیجنے کو تیار نہیں ہوئیں اور مولانا کو اپنا ارادہ ترک کردینا پڑا۔ مولانا مرحوم نے مولانا فضل اللہ جیلانی سے حدیث پر تحقیق کا طریقہ سیکھا اور تصوف کے رموز اور اصلاح قلب کا کام بھی مولانا فضل اللہ ہی کی صحبت با اثر میں تکمیل کو پہونچا

علی گڈھ کے بعد مولانا نے مئو کا رخ کیا اور وقت کے نامور محدث اسماء الرجال کے ماہر مولانا حبیب الرحمن اعظمی (م 1992ئ) جنہیں مئو والے بڑے مولانا کہتے تھے، ان سے کسب فیض کیا اور ان کی صحبت نے ان کو اس فن میں ماہر بنا دیا۔

وہ اس تحقیق کے کام سے اس قدر لگ گیے کہ دوسرے کسی کام کے نہیں رہے، مطالعہ، مطالعہ اور صرف مطالعہ ان کا شوق اور شغف بن گیا۔مولانا کی شادی مولانا لطف اللہ رحمانی بن قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری کی صاحب زادی اور مولانا مناظر احسن گیلانی کی بھانجی عائشہ رحمانی سے ہوئی تھی ، خانوادہ مولانا محمد علی مونگیری سے مصاہرت ہونے کی وجہ سے ان کا تعلق جامعہ رحمانی ، خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ سے انتہائی مضبوط تھا، کچھ دنوں وہ سیاست میں بھی لگے

جمعیۃ علما کے لیے بھی کام کیا اور پورے بہار کا دورہ کیا، وہ اس تنظیم کے بہار میں نائب صدر اور ضلع کے صدربھی رہے، لیکن علم وتحقیق ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، اس لیے زیادہ دنوں تک یہ سلسلہ نہیں چل سکا، مولانا کا حافظہ غضب کا تھا، مخطوطات شناشی میں وہ ابومحفوظ الکریم معصومی کے بعد میرے علم کے مطابق ہندوستان میں آخری شخص تھے، ان کا مطالعہ انتہائی وسیع وعمیق تھا

انہوں نے ہر فن کی کتابوں کامطالعہ کیا تھا لیکن کمال علم حدیث میں تھا ، جو ان کی شناخت بن گئی تھی، وہ لکھتے کثرت سے تھے اور اپنے اساتذہ کے بعض تحقیقی کاموں میں وہ علمی مساعد بھی رہے، ان کی کئی تحقیقات کو دوسروں نے اپنے نام سے چھپوا لیا اور خوب روپے کمائے، مولانا کو اس دجل کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ چھوڑیے کچھ روپے کما لیے تو کیا ہوا۔ مولانا کے مزاج میں تواضع اور انکساری کے ساتھ اپنے کو مخفی رکھنا بھی شامل تھا، وہ اپنی علمی تحریروں کو بھی نہ چھپوا سکے اور نہ ہی سَجو کر رکھ سکے، اب یہ کام ان کے وارثوں خصوصا مولانا احمر القاسمی کا ہے کہ اس کو چھپوانے کی طرف متوجہ ہوں اور ان تحریروں کو محفوظ کر نے کا انتظام کریں۔

مولانا کی شفقت مجھے بے پناہ حاصل تھی ، جب بھی وہ امارت شرعیہ آتے تو گھنٹوں علمی موضوعات پر مجھ سے گفتگو کرتے، میری کتاب تفہیم السنن شرح آثار السنن کی تعریف کرتے اور ہدایت دیتے کہ اس کی دوسری جلد کاکام بھی مکمل کرو

وہ آثار السنن کو نئے خد وخال اور تحقیقی حاشیے کے ساتھ لانے کی تلقین کرتے جس میں دفتری مشغولیات اور نقیب کی ادارتی ذمہ داریوں کی وجہ سے اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ، لیکن مقام مسرت ہے کہ مولانا سعید انور سمستی پوری اور مفتی جاوید احمد ہریانوی نے الگ الگ ڈھنگ سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچا دیا ہے۔

مولانا کو ایک بار میں نے ذکر کیا کہ میرے پاس مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری کے مختلف کتابوں کے درسی افادات ہیں

خصوصا صحاح ستہ میں سے کئی کتابوں کے تو حکم دیا کہ اسکی تحقیق وتخریج کرکے شائع کرواؤ، اب مولانا کی طرح کوئی نہیں رہا جو حکم دے، طریقہ بتائے، حوصلہ افزائی کرے اور نئے نئے گوشوں کو اجاگر کرکے میری علمی صلاحیتوں کو مہمیز کرکے جگائے۔ باتیں بہت ساری ہیں، واقعہ یہ ہے کہ :سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *