سر جھکا کر کیوں
از قلم : غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی سر جھکا کر کیوں ؟
سر جھکا کر کیوں
ان دنوں ہندوؤں کی تقریباً ہر ریلی/جلوس/یاترا میں ایک گانا خوب بجایا جارہا ہے، جس کے بول ہیں؛ٹوپی والا بھی سر جھکا کے جے شری رام بولے گاشاید ہی کوئی ریلی یا جلسہ ہو جس میں یہ گانا نہ بج رہا ہو۔
ریلی کسی مسجد یا مسلم محلے سے گزر رہی ہو تب تو اس گانے پر کٹّرپنتھیوں کا جوش وخروش کئی گنا بڑھ جاتا ہے، انہیں لگتا ہے اپنے بھگوان کو خوش کرنے کا اس سے اچھا موقع شاید دوبارہ نہیں ملے گا۔
ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہندو سماج مسلمانوں سے زبردستی جے شری رام کیوں بلوانا چاہتا ہے۔ہندو اپنے بھگوان کے جے جے کار صبح و شام کریں دن و رات کریں لیکن مسلمانوں سے زبردستی کا کیا مطلب ہے۔ کیا اس سے ان کے بھگوان کا قد اونچا ہوجائے گا؟
یا ان کے دھرم کے پیروکار بڑھ جائیں گے؟
ظاہر سی بات ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، تو پھر ان شدت پسندوں کو ٹوپی والوں سے جے شری رام کہلوانے کا اتنا جنون کیوں ہے؟
اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ انہیں خود اپنے دھرم کی سچائی پر شک ہے اس لیے دوسروں سے زبردستی کہلوا کر اپنی جھینپ مٹانا چاہتے ہیں یا پھر حکومت کے نشے نے انہیں پوری طرح پاگل بنا دیا ہے، جس کا مظاہرہ سڑک چھاپ غنڈوں سے لیکر آشرم کے باباؤں کے ذریعے بھی کیا جارہا ہے۔
جب کہ مسلمانوں نے اپنے عہد حکومت سے آج تک کسی چوٹی والے کو مجبور نہیں کیا کہ وہ سر جھکا کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائے۔
کیوں کہ ہمارا ماننا ہے کہ جب کسی دین کی حقانیت دل میں بس جاتی ہے تو انسان سر جھکا کر نہیں فخر سے سر اٹھا کر اُس دین کا نعرہ لگاتا ہے اور دنیا کے سامنے اس دین کی سچائی اور عظمت کا کھلے بندوں اعلان کرتا ہے۔دورنگی کیوں؟
ہندو سماج کے سرکردہ افراد ہمیشہ سے مسلم بادشاہوں پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ طاقت وقوت کے زور پر کسی سے اپنی بات/نظریہ/مذہب قبول کرانا انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔
اب یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ ہندو سماج جس بات کا الزام مسلمانوں پر لگاتا ہے خود وہی کام کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں دیتے گھوم رہے ہیں۔ ہمیں ان گنوار گلوکاروں پر کوئی افسوس نہیں ہے جو ایسے سستے اور گھٹیا گانے مارکیٹ میں لارہے ہیں
ہمیں افسوس ہندو دانش وروں کے اس طبقے پر ہے جو ایسے واہیات گانوں پر خاموش رضامندی سے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور پس پردہ شرپسندوں کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے ایسے گھٹیا گلوکار ککرمتّے کی بیل کی طرح بڑھتے جارہے ہیں۔
ایک طرف ہندو دھرم گرو، حضرت اورنگزیب عالمگیر اور سلطان ٹیپو جیسے بادشاہوں پر بزور شمشیر قبول اسلام کا الزام دہراتے نہیں تھکتے دوسری طرف یہی لوگ ٹوپی والے سے سر جھکا کر رام کی جے بلوانے کی تمنا و حسرت بھی رکھتے ہیں اور جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہاں کمزور غریب اور اکیلے مسلمان کو ڈرا دھمکا کر اپنی دلی حسرت پوری بھی کرتے ہیں۔
اچھی طرح یاد رکھیں!ایسے بزدلانہ کاموں سے ہندو دھرم کی عزت بڑھے گی نہ مذہب اسلام کی حقانیت پر کوئی حرف آئے گا۔یہ ظلم و زیادتی ہمارے ایمان کو اور پختہ کرے گی، لیکن اگر ناانصافیوں کا دور ختم نہیں ہوا تو ملک میں بد امنی پھیلانے کے سب سے بڑے قصور وار وہی ہوں گے جس کے لیے تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
قبول دین کے بارے میں اسلامی نظریہ قبول حق کے بارے میں اسلامی نظریہ بہت صاف اور واضح ہے کہ ہر انسان اچھی طرح غور وفکر کرے اور بغیر کسی دباؤ کے جو دین اسے اچھا لگے اسے دل سے قبول کرے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔(سورہ کہف:29)
“فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔”یعنی اسلام میں زبردستی کا کوئی concept ہی نہیں ہے۔
تاریخ کے کسی موڑ پر ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ملے گا جب کسی امیر یا بادشاہ نے کسی غیر مسلم کو سر جھکا کر اللہ اکبر بولنے کی دھمکی دی ہو یا ڈرا کر ایسا کہلوایا ہو۔
اگر بھارت میں اسلام مسلم بادشاہوں کی تلواروں کے زور پر پھیلا ہوتا تو مغل سلطنت کے ٹوٹتے ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد مرتد ہوجاتی اور اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سن 1707ء میں حضرت اورنگ زیب عالمگیر کا وصال ہوا
1757 ء میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی
1799ء میں سلطان ٹیپو کی شہادت ہوئی اور
1857ء میں نام کی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
اس طرح مسلم سلطنت کو ختم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن مسلمان آج بھی اسلام کے دامن میں اسی طرح بہ خوشی آباد ہیں جیسا مسلم سلطنت کے زمانے میں آباد تھے
کیوں ہمارے آبا واجداد نے بادشاہوں کی تلوار نہیں بلکہ صوفیا ومبلغین کے اسلامی کردار سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا اس لیے تمام تر آزمائشوں کے بعد بھی ہم اپنے دین پر مضبوطی سے قائم ہیں۔اسی سے یہ پروپیگنڈہ اپنی موت مرجاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔
تلوار کا زور اس وقت تک رہتا ہے جب تک تلوار والے کا زور رہے، تلوار والے کا زور جاتے ہی تلوار کا زور بھی ختم ہوجاتا ہے۔
لیکن بھارت میں تیس کروڑ مسلمانوں کی موجودگی اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ ہمارے اجداد کا قبولِ اسلام تلوار نہیں اسلامی کردار کی بنا پر تھا، اس لیے تلوار کا زور بھلے ہی ختم ہوگیا لیکن اسلامی کردار واقدار آج بھی زندہ اور سلامت ہیں۔
اس لیے کسی بھی فسادی کی دھمکیاں اہل ایمان کو ڈرا پائیں گی نہ دبا پائیں گی، توحید ورسالت کی پر کیف صداؤں سے اس ملک کی وادیاں ہمیشہ گونجتی رہیں گی
از قلم : غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی