فارغین مدارس کے لیے چند تجاویز
فارغین مدارس کے لیے چند تجاویز خلیل احمد فیضانی
میں اپنی بات فخر فیضان اشرف، ڈاکٹر غوث محمد فیضانی ،ازہری،راجستھان،انڈیا کی بات سے شروع کرنا چاہوں گا فارغین طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوۓ آپ فرماتے ہیں کہ اصل تعلیم آپ کی اب شروع ہوئی ہے ابھی تک آٹھ سال جو تم نے پڑھا وہ تعلیم کا صرف مقدمہ تھا مقدمہ ختم ہوا جاتا ہے اب یہاں سے کتاب شروع ہو رہی ہے
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات اگر فارغین اپنے دل و دماغ میں اٹھالیں تو انھیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے کوئی چیز روک نھیں سکتی فارغین کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ “فارغ عن التحصیل” نھیں ہوے ہیں بلکہ “فارغ للتحصیل ” ہوے ہیں
یعنی ایسا نھیں ہے کہ اب علم کی ضرورت ختم ہوگئی اور مزید حاصل کرنے سے فارغ ہوگئے حقیقت یہ ہے کہ مزید حاصل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں اب ہی فارغ ہو ر ہے ہو۔
درس نظامی گویا زینے کی حیثیت رکھتا ہے صرف زینے پر چڑھ جانا اور مقصودِ اصلی کی جب شروعات ہو تو تساہلی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کوتاہی برتنا قرین دانش مندی نھیں ہے علوم و فنون کی رفعتوں پر فائز ہوکر کمال حاصل کرنا تو فراغت کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ” ارتجالا “چند چیزیں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں پڑھیں اور حرز جاں بنائیں
حد بندی اور پھر اس کی پابندی اس اصول پر سختی سے عمل پیرا رہنے کی کوشش کریں
طلب الکل فوت الکل کے مصداق کبھی نہ بنیں جس فیلڈ کو آپ منتخب کریں اس کے بدل کامل بنیں اور نمایاں طور پر اپنا مقام بنانے کی کوشش کریں
ہر فن مولا بننے کے خبط سے اپنے آپ کو بچائیں علوم حدیث،تفسیر ،فقہ ،وغیرہ جس فن کے اندر آپ کی روچی ہو اسی کو اختیار کیجیے
ہاں!اس میں اگر ٹھیک ٹھاک کام یابی حاصل ہوجاۓ تو پھر دوسرے فنون کی طرف بھی فرداً فرداً توجہ دیجئے ایک ساتھ کبھی بھی سب کو ہاتھ میں مت لیجیے تحریری ،تقریری اور تدریسی کسی بھی میدان کو منتخب کریں؛ آپ کی نیت خالص ہونی چاہیے خدمت اسلام اور رضاے رب آپ کا مطمح نظر ہونی چاہیے اپنی فکر کو مثبت اور مزاج کو ہمیشہ سنجیدہ رکھیں ، فضول بحثوں اور غیر منتج مشربی جھگڑوں سے کوسوں دور رہنے کی کوشش کریں ورنہ آپ کی صلاحیتیں صرف زنگ آلود ہی نھیں ہوں گی سرے سے ختم ہی ہوجائیں گی ہاں!!!!
عقائد کے حوالے سے سیسہ پلائی دیوار بن کر رہیں دیگر فرق کی فکر سے دوری بناۓ رکھنے کے ساتھ ساتھ آج کے دور میں رافضی اور تفضیلی فکر سے اپنے آپ کو خصوصی طور پر بچا کر رکھیں آج کچھ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر تبصرہ کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں ایسوں کی محبت اپنے دل سے کھرچ کر دیوار پر دے مارئیے اور ان کے ساتھ کبھی بھی مجالست قائم نہ کیجیے
ہماری محبت اور نفرت صرف اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیم کے لیے ہونی چاہیے۔ عوام سے بقدر ضرورت ہی تعلق رکھیں،ان کے ساتھ اس قدر گھل مل جانا کہ آپ کی امیج خراب ہوجاے قطعی طور پر مناسب نھیں ہے لہذا اس حوالے سے احتیاط برتیں۔ غیر مھذب اور غیر سنجیدہ اشخاص سے دور رہنے کی کوشش کریں (ضرورت مستثنی سمجھیں)
اب چاہے وہ اشخاص مذہبی ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ ہم یہ تو کہ سکتے ہیں کہ ہر مولانا ماشاء اللہ سنجیدہ اور مھذب ہی ہوتا ہے مگر اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ ان میں تلازم نھیں ہوتا ہے بہر حال!اپنی حذاقت اور مہارت کے ساتھ تعلقات بنائیے اور علمی اور فکری طور پر خوب مضبوط بننے کی کوشش کیجئے ۔
جس ادارے سے آپ فارغ ہیں،اس ادارے کو جان سے عزیز تصور کیجئے ہر موڑ پر اپنے ادارے کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیجئے آپ کے اساتذہ،جنھوں نے آپ کو تراشا ہے انھیں ہمیشہ یاد رکھیں
حتی الوسع ان کی خدمت کیجیے ان سے رابطے میں رہیے اگر آپ ایسا نھیں کرتے ہیں تو پھر اپنے شاگردوں سے وفا اور محبت کی امید بھی چھوڑ دیجئے ۔ ہر مولانا کے اندر کم از کم اتنی صلاحیت تو ہونی ہی چاہیے کہ بوقت ضرورت وہ اپنا مافی الضمیر تقریر یا تحریر کی صورت میں احسن انداز سے پیش کرسکے سو اس پر خصوصی طور پر ورک کریں تحریری حوالے سے بھی کوشش کیجئے میرا مطلب ہے کہ فراغت کے بعد ہر طالب علم کو کم از کم ایک سال تک تحریری حوالے سے ضرور محنت کرنی چاہیے تاکہ اسے مطالعہ کی گہرائی اور نفیس مطالعہ کرنے کا شعور حاصل ہوسکے اور جس کا ذوق کسی دوسری فیلڈ میں ہو وہ وہ اسی میں کمال حاصل کرنی کی کوشش کریں مگر کچھ نہ کچھ کریں ضرور!!!
بغیر ہنر اور بغیر کمال کے انسان ادھورا ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی یعنی کام اس طرح کے کیجئے کہ دشمن بھی آپ کے فضل کے گن گاۓ محنت میں عظمت ہے سو اس سے کبھی بھی جی نہ چرائیں جی توڑ محنت کیجئے اور اپنے مطلوبہ اہداف کی تکمیل کیجئے
اخیر میں محترم زعیم احسن کے کلمات کو یہاں رقم کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں آپ نے چند تجاویز اور خطوط قائم کئے ہیں ہم جیسے نو فارغین اور بالخصوص تازہ ترین فارغین کو تو ان پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے۔ لکھتے ہیں:-
آپ درس نظامی سے فارغ ہوئے ہیں تحصیل علم سے نہیں ، لہذا خلوص کے ساتھ حصول علم کا سفر جاری رکھیے ۔
درس نظامی میں آپ نے نصابی مطالعہ پر توجہ مرکوز رکھی ،یہ ضروری ہے کیوں کہ نصابی مطالعہ آپ کو روایت سے جوڑتا ہے ، تاہم غیر نصابی مطالعہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کیوں کہ عصرڑ موجود کی نبض پر ہاتھ نہ ہو تو نئے فکری امراض کی تشخیص ممکن نہیں
اس واسطے مطالعہ کتب کے لیے محدود عنوانات سے نکل کر عالم گیر موضوعات کا انتخاب کریں ۔
یہ دور باہمی تنازعات میں ہمہ وقت مشغول رہنے کا متحمل نہیں لہذا تعمیری کام کو اپنا نصب العین بنائیں ورنہ ” تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں “.
اہل علم کی فکری مخاصمت کو عامۃ الناس کے سامنے خطبوں میں یا عوامی پلیٹ فارمز پر ذکر کرنے سے احتراز کریں اس سے ان کے اذہان میں دین کے حوالے سے تشکیک پیدا ہو گی ۔
آپ “جشن فتح مبین” مناتے رہ جائیں گے اور عوام کب دین سے بیزار ہو جائے اس کا آپ کو شعور تک نہ ہو گا ۔
اگر آپ خطیب بننے کے متمنی ہیں تو غور کریں کہ سنجیدہ طبقہ جیسے ڈاکٹرز، ججز یا اعلی عہدیدار لوگ آپ کا سامع بننا کیوں پسند نہیں کرتے ، اپنے خطاب کو معیاری بنائیں تا کہ سنجیدہ پڑھی لکھی عوام آپ کا خطاب ہضم کر سکے ۔
مختصر اور معنی خیز گفتگو کریں ، جو دین ملال قوم کے پیش نظر تطویل صلوۃ سے منع کرے اسے خطبے کی بابت اس کی حساسیت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے ۔
اگر آپ محرر بننے کے خواہش مند ہیں تو براہ راست کتاب کی تصنیف کے بجائے مضامین لکھنے کا آغاز کریں ، اساتذہ سے اغلاط کی تصحیح کرائیں ۔
معیاری، تحقیقی اور مستند مضامین پڑھ کر ان کے خصائص اپنی تحریر میں شامل کرنے کی کوشش کریں ۔ موضوعات کا انتخاب کرتے وقت “نفع مسلمین” کو ذہن میں رکھیں۔
اپنا تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کرتے رہیں۔ جتنے بھی اکابر کی سیرت پڑھ لیں حصول علم کے بعد تزکیہ نفس کے لیے صوفیا کی بارگاہ میں حاضری دینا اکثر کا معمول نظر آئے گا ۔
لہذا اہل دل جن کی نظر میں یہ مادہ پرستانہ دنیا ہیچ ہو ان کے حضور بکثرت آنا جانا رکھیں ۔ دور حاضر میں اہل علم کے اکثر داخلی مسائل تصوف سے دوری کا نتیجہ ہیں ۔
ممکن ہو تو انگریزی زبان لازمی سیکھیے ، یہ ایک طرح سے رابطہ کا عالمی ذریعہ ہے ۔ خود رسول اللہ صلی ﷲ علیه وسلم نے تبلیغ دین کے واسطے ایک صحابی کو ملک غیر کی زبان سیکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔
ہر ہر ملک کی زبان پر مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں تو کم از کم انگریزی سیکھ کر ہم عالمی سطح پر دین کا ابلاغ اور دفاع کرنے کی سعی کر سکتے ہیں ۔
نیز مذہب اور بالخصوص اسلام اور اہل اسلام کی صورت مسخ کرنے کے ناپاک عزائم کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔
آپ علم کی کتنی ہی منزلیں طے کر جائیں جمہور اور اجماع کی مخالفت ہر گز ہر گز مت کیجیے گا، امت کے تسلسل کا خلاف دین کی فکری اور عملی اساس پر حملہ ہے ۔
فتدبر کسی بھی دینی و دنیاوی مسئلہ پر تبصرہ کرنے یا رائے دینے سے قبل آخرت کی جواب دہی کو پیش نظر ضرور رکھیں ۔