لو جی ڈراموں پر بھی سنی رنگ چڑھنے لگا
لو جی ڈراموں پر بھی سنی رنگ چڑھنے لگا
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علماے بندیل کھنڈ
پڑوسی ملک کے ڈرامے انڈیا میں بہت زیادہ دیکھے جارہے ہیں، صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی جم کر دیکھ رہے ہیں، حالت یہ ہے کہ ڈرامہ رلیز ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی اس کے ویوز کی تعداد لاکھوں بسا اوقات کروڑوں میں پہنچ رہی ہے، رشتے داریوں میں خواتین کے مابین آج کل ساس بہو، نند، بھابی کی برائی اور لڑائی سے زیادہ انھیں ڈراموں کے چرچے ہیں، دیوانگی اس قدر ہے کہ پوچھیے مت – ان ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مختصر ہوتے ہیں جب کہ انڈیا میں ایک سیریل اتنا لمبا ہوتا ہے کہ باپ، بیٹا اور پوتا تینوں ایک ہی ڈرامہ دیکھ لیتے ہیں، گویا کہ ڈرامہ نہیں وہ “اکھنڈ جیوتی” ہے –
فیس بک پر چند مختصر کلپ دکھائی دیں جن میں میلاد اور نعت رسول مقبول علیہ السلام اور سلام پیش کیا جارہا تھا، معلوم ہوا ہے کہ یہ رجحان حال ہی میں پیدا ہوا ہے اس سے قبل ڈراموں میں یہ چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں، آخر ایسا کیا ہوا کہ فلمی آوارہ گروہ اس طرف مائل ہوا؟
میری سمجھ کے مطابق اس کی چند وجوہات ہیں –
اول : یہ ہے کہ کسی ڈیڑھ ہوشیار کو یہ سمجھ آگئی کہ آج بھی مسلمانوں کا کچھ طبقہ ایسا ہے جو ڈرامہ یا فلم انڈسٹری بیزار ہے، نیز اپنے بچوں کو اس انڈسٹری سے دور رکھنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ اپنے بچوں کو ڈراموں اور ڈراموں کے کیرکٹرس سے متاثر نہیں ہونے دینا چاہتا، ایسے میں اس مذہبی طبقے تک پہنچنے کے لیے انھیں مذہب کا سہارا لینا پڑ رہا ہے تاکہ وہ ہر گھر تک پہنچ سکیں جس سے ان کی کمائی میں اضافہ ہو ، ساتھ ہی شوبیز انڈسٹری کو قبول عام حاصل ہو –
دوم : ڈراموں میں معمولات اہل سنت کو فلما کر وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بھی دین کا کام کر رہے ہیں اور یوں بھی دین کا کام کیا جا سکتا ہے، دین کا کام صرف علما کا حق نہیں ہے، چند سالوں بعد عوام کو یہ بھی عالم لگنے لگیں گے اور اپنی سمجھ کے مطابق ٹی وی پر بیٹھ کر دین سکھا رہے ہونگے، یعنی آنے والے دنوں میں ہم کئی مِرزے اور غامدی دیکھیں گے یہ اور بات ہے کہ “مرزا تے شئے ای کوئی نی” –
یہی وجہ ہے کہ پڑوس کی یہ رقاصائیں اپنی اس بے حیائی کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہماری پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی ہے، یا میں بھی حافظہ قرآن ہوں، میں نے اتنے عمرے اور حج کیے ہوے ہیں، ان کے یہ کہنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ غلط نہیں کر رہے ہیں، اسلام ان چیزوں سے نہیں روکتا، یہ علمائے کرام اپنی طرف سے سختی کرتے ہیں، خواتین اگرچہ عالمہ، حافظہ کیوں نہ ہوں وہ بھی اس کام میں قسمت آزما سکتی ہیں اور پیسہ کما سکتی ہیں –
سوم : حالیہ چند سالوں میں انڈیا اور پڑوسی ملک میں کئی ادا کار اور ادا کارائیں فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ چکی ہیں، بالی وڈ سے زائرہ وسیم، ثنا خان، بھوج پوری سنیما کی سحر افشاں شامل ہیں، پڑوس میں قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہیں عائشہ نسیم، شوبیز انڈسٹری کا حصہ رہیں رابی پیر زادہ، مشہور گلوکارہ شازیہ خشک، نور بخاری، عجب گل وغیرہ شامل ہیں – ان سب نے اپنے کام کو چھوڑتے ہوئے صاف کہا کہ ہم اللہ کے لیے یہ کام چھوڑنے جارہے ہیں –
فلم انڈسٹری کو کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور کھٹکتی ہوگی اسی بنا پر انھوں نے معمولات اہل سنت کو ڈراموں میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا، تاکہ دین کی خاطر شوبیز انڈسٹری چھوڑنے والوں کو مذہبی چورن دے کر انڈسٹری میں ہی روکے رکھا جا سکے یعنی ہر ایک کے ٹیسٹ کے مطابق انھیں کام دیا جائے –
بہر حال یہ ڈیڑھ ہوشیار لوگ دونوں ہاتھوں میں لڈو لیے گھوم رہے ہیں، وہ عوام جو ابھی تک ان سے دور تھی اب مذہبی بلیک میلنگ کے ذریعے یہ لوگ ان تک پہنچنا چاہ رہے ہیں، شیطان کو معلوم ہے کہ کون کس حربے سے بہکے گا اس کے لیے وہ وہی حربہ استعمال کر رہا ہے، اب بہوئیں، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں اپنی، ساسوں، ماؤں، دادیوں، نانیوں اور اجداد کو یہ سمجھانے پر مصر ہیں کہ دیکھیے کتنا اچھا ڈرامہ ہے، نعت بھی پڑھی جارہی ہے، سلام بھی پڑھا جارہا ہے، حجاب کے ساتھ سنتوں پر عمل بھی ہو رہا ہے، اب تو ہمیں ڈرامہ دیکھنے دیا جائے، اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو آپ بھی دیکھیں پھر بتائیں کہ کیا ایسا ڈرامہ دیکھنا غلط ہے؟
بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں کہ انڈین مشرکانہ، فحاشی پھیلانے والے ڈراموں سے بہتر ہے کہ یہ ڈرامے دیکھے جائیں، ہم کہتے ہیں کہ جتنا نقصان مشرکانہ رسومات سے لبریز ڈرامے نہیں کرتے اس سے دس گنا زیادہ یہ مذہبی ڈرامے نقصان دہ ہیں، ان ڈراموں میں طلاق، خلع، نکاح، جبری نکاح، خالا زاد، ماموں زاد بھائی بہنوں کے درمیان محبت ایسے پروسی جاتی ہے جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہو –
ایک ہی ڈرامے میں ایک عورت کے کئی کئی نکاح ہو جاتے ہیں، جس سے یہ ذہن دیا جاتا ہے کہ غلطیاں مرد حضرات کی ہی ہوتی ہے ہیں، خلع جیسے معاملات کو ہائی لائٹ کرکے بنے بنائے گھر توڑنے کا تجربہ کرایا جاتا ہے، جلد شادی کے خلاف پورے کے پورے ڈرامے بنائے جاتے ہیں – مشرکانہ رسومات دیکھ کر انھیں اپنانے کی کوشش کوئی نہیں کرتا لیکن مذہبی ڈراموں کے ذریعے اسلام، اسلامی طرز معاشرت ،اسلامی قوانین سب کے خلاف ماحول سازی کی جاتی ہے، بتائیے نقصان کہاں زیادہ ہے؟
اپنے برے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے جس طرح گھروں میں بچے زور لگا رہے ہیں یوں ہی شوبیز انڈسٹری کے رقاص /رقاصائیں بھی اپنی امیج کو ستھرا کرنے کی جد و جہد کر رہی ہیں – ان کیدکن عظیم –
اللہ ہم سب کو ان کے برے ہتھ کنڈوں سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین
Pingback: الیکشن 2024، ہم نے کیا کھویا کیا پایا ⋆ تحریر محمد زاہد علی مرکزی