قانون سازی میں جلد بازی جمہوریت کے لیے خطرہ
تحریر : ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدر آباد) قانون سازی میں جلد بازی جمہوریت کے لیے خطرہ
قانون سازی میں جلد بازی جمہوریت کے لیے خطرہ
ملک میں کسی بھی قانون کی موثر عمل آوری کے لیے قانون سازی سے پہلے اس پر کھلے مباحث کا ہونا اور جو قوانین بنائے جارہے ہیں اس پر اتفاق رائے
( Consensus )
کا پایا جانا لازمی ہے ۔ حکومت کوئی بھی قانون پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ اپنی عددی طاقت کے بل پوتے پر جلدی بازی میں بنانے کی عادی ہو جائے تو یہ کوئی صحت مند جمہوریت کی علامت نہیں ہے۔
موجودہ مرکزی حکومت نے ملک میں قانون سازی کا جوطریقہ کار اختیار کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں جمہوری نظام کی بنیادوں کوکھوکھلا کر کے رکھے گا۔
گزشتہ چند برسوں سے لیا بی جے پی حکومت ایسے قوانین بناتی چلی جارہی ہے جس سے ملک کی عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور شہری یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نریندرمودی کی زیر قیادت حکومت کے پیش نظر عوامی رائے کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔
شہریت ترمیمی قانون ہو کہ تین زرعی قوانین یا پھر حالیہ دنوں میں لڑ کیوں کی شادی کی اقل ترین عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال مقرر کرنا ہو یا پھر انتخابی اصلاحات کے نام پر فہرست رائے دہندگان کو آدھار کارڈ سے مربوط کرتے ہوئے شہریوں کی شخصی آزادی کوختم کرنے کا معاملہ ہو۔
یہ سارے قوانین اس دعویٰ کے ساتھ مدون کیے جارہے ہیں کہ اس میں ملک اور قوم کا مفاد شامل ہے۔ کسی بھی ملک کو بہتر انداز میں چلانے کے لیےقانون کا ہونا لازمی ہے۔ بغیر قانون کے ملک افراتفری کا شکار ہو جا تا ہے۔
لیکن جمہوریت میں حکومت آیا کسی بھی قانون کو من مانی انداز میں بناتےہوئے ملک کی عوام پر زبردستی تھوپ سکتی ہے؟ ۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کے دوران حکومت کسی بحث و مباحثہ کے بغیر کوئی ایسا قانون منظور کر لی ہو جس کا راست اثر عوام کی آزادیوں کی اور ان کے حقوق پر پڑتا ہو۔ اس کی کوئی نظیر یا مثال گزشتہ 75 برسوں کے دوران نہیں ملتی ۔
لیکن آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ ایک ہی دن میں پارلیٹ میں بل پیش بھی کیا جا تا ہے اور چند لمحوں میں اسے منظوری بھی کی جاتی ہے۔ اس کا منفی اثر یہ پڑ رہا ہے کہ عوام کو سڑکوں پر آ کر اس قسم کے قوانین کے خلاف احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔
جب کوئی احتجاج حکومت کے قابو سے باہر ہو جا تا ہے تو پھر ایسے قوانین کو واپس لینے کی نوبت آتی ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں بی جے پی حکومت نے جو تین متناز عہ زرعی قوانین ملک کے کسانوں پر مسلط ملک کیے تھے اس کا کیا حشر ہوا وہ سب کے سامنے آ گیا۔
کسانوں سے حکومت 380 دن کے زبردست احتجاج کے بعد وزیراعظم کو ان تینوں قوانین سے دستبردار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ طرفہ تماشا مہ یہ بھی ہوا کہ ہے وزیراعظم نے معافی بھی چاہی۔
یہ ہزیمت آخر مودی کو کیوں اٹھانی پڑی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے کسانوں سے رائے ومشورو اور دیگر سو کی پارٹیوں سے مشاورت اور مذاکرات کے بغیر ملک کے سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لیے کسانوں کے گلے کاٹنے کی تیاری کر لی تھی ۔
کسانوں نے ان کی اس سیای چال کو بھانپتے ہوئے فوری اپنے گھروں اور کھیتوں کو چھوڑ کر دہلی کا رخ کیا اور اپنے احتجاج کے ذریعے حکومت کے گھٹنے ٹکا دئیے
افسوس کہ ان زرعی قوانین کو بہ حالت مجبوری منسوخ کرنے کے بعد بھی مودی حکومت نے محسوس نہیں کیا کہ ملک میں قانون سازی کے معاملے میں عجلت پسندی کسی بھی لحاظ سے بہتر نہیں ہے۔
قانون کو بنانے اور نافذ کرنے کے لیےجو میکانزم ملک میں پہلے سے پایا جارہا ہے اسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مودی حکومت نے اس کے برعکس قوانین کو بنانے میں مزید جارحانہ رو یہ حالیہ دنوں میں اختیار کر لیا ہے۔
بی جے پی حکومت نے اپوزیشن پارٹیوںکی زبردست مخالفت اور ملک کی ایک بڑی اکثریت کی جانب سے احتجاج کے باوجود گزشتہ منگل 21 ڈسمبر کولڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 21 سال مقرر کرتے ہوئے لوک سبھا میں بل پیش کر دیا ۔
اس بات کی قوی توقع ہے کہ اب یہ بل قانون کی شکل بہت جلد اختیار کرلے کیا اور ملک میں نافذ بھی کر دیا جائے گا۔
اسی طرح منگل کے روز راجیہ سبھا میں فہر ست رائے و ہندگان کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور کر لیا گیا۔ ان دونوں قوانین کا تعلق پورے ملک کے میں شہریوں سے ہے۔ اس میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کی بھر پور مخالفت کی۔ کرسی صدارت سے بھی خواہش کی گئی کہ اسے سلکٹ کمیٹی سے رجوع کیا جائے تا کہ ان قوانین کے تعلق سے جواندیشےپائے جار ہے ہیں اسے دور کیا جا سکے۔
لیکن حکومت نے کوئی اپوزیشن پارٹی کی ایک نہیں سنی اور ان متنازعہ بلوں کومنظور کرانے میں کا م یاب رہی۔ لڑکیوں کی شادی کی اقل ترین عمر 21 سال مقرر کر کے حکومت نے عائلی مسائل کا ایک نیا
Pandora box
کھولا ہے ۔ یہ وہ شہد کا چھتہ ثابت ہوگا کہ خود مودی حکومت اپنے طبقہ کے افراد کے غیض و غضب کا شکار ہو جائے گی ۔ دنیا کے کسی ملک میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 21 سال نہیں ہے۔
ہندوستان جہاں کئی مذاہب اور کئی تہذیبوں کے لوگ رہتے ہیں۔ ہر ایک کے اپنے پرسنل لاء موجود ہیں وہاں حکومت کیسے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ کسی لیےکی شادی 21 سال پورے ہونے سے پہلے نہ کی جائے ۔
جب ملک میں ووٹ ڈالنے کے لیے 18 سال کا ہونا کافی ہے تو پھر مودی حکومت کی یہ کیا منظق ہے کہ 18 سال کی لڑکی شادی نہیں کر سکتی وہ اس عمر میں اتنی با شعور ہوتی ہے کہ اپنے نمائندوں کو منتخب کر سکتی تو کیا وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے میں سمجھداری نہیں دیکھائے گی۔
شادی کی اقل ترین عمر کو بڑھانے سے بہتر تھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی صحت کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے یہ عجیب و غریب بات ہے کہ حکومت بغیر شادی کے مردوزن کو ساتھ رہنے کی قانونی اجازت دیتی ہے جسے
Lming Relationship
کا نام دیا گیا۔
اس طرح ہم جنس پرستی کو قانونی جواز بخشا گیا۔ لیکن کوئی والدین اپنی لڑکی کی شادی سن بلوغ کو پہنچتے ہی کر دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے قانونی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں ۔
معاشرہ کو فحاشی، جسم فروشی، اور دوسری خباثتوں سے پاک و صاف رکھنے کے لیےشادی ہی ایک موثر ذریعہ ہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب میں اس بات کی تائید کی گئی کہ لڑکوں یالڑکیوں کو بغیر شادی سے زیادہ دنوں تک نہ رکھا جا ہے اس سے سماج میں برائیاں پھیل سکتی ہیں۔ اسلام نے بھی اس ضمن میں واضح ہدایات دی ہیں۔
حکومت ان قوانین کے ذریعہ سماج کو بے لگام کردینا چاہتی ہے تا کہ ملکی سماج میں برائیاں پنپتی رہیں اور کوئی بھی حکومت سے سوال کرنے کے بارے نہ سوچے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بل کولوک سبھا میں پیش کر نے میں بی جےپی حکومت نے اپنا سارا زور لگا دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس قانون کی مدافعت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ بیٹیوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے کے لیے شادی کی عمر میں اضافہ کیاگیا ہے۔
پر یاگ راج میں منگل کے دن ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیٹی بچاؤبیٹی پڑھاؤ کی مہم کے تحت ہی مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی بڑھاؤ کی مہم کے تحت ہی مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے ۔
بیٹی کو بچانے اور بڑھانے کے اور بھی کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ آج ہزاروں عورتیں تغذیہ بخش غذا نہ ملنے سے فوت ہو رہی ہیں ۔جہیز کے نام پر عورتوں کو جلانے اور مارنے کے آئے دن واقعات ہوتے ہیں ۔
دلت عورتوں کے ساتھ جو بے رحمانہ سلوک بھی ہوتا ہے کہ اس سے وز یر اعظم واقف نہیں ہیں ۔ ان کے درد کا مدوا کون کرے گا ؟
بی جے پی حکومت نے ووٹر کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل بھی کسی مشاورت اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کوتسلی بخش جواب بغیر دونوں ایوانوں میں منظور کر لیا۔
اب صدر جموریہ کی دستخط سے یہ بل قانون کا درجہ حاصل کر لے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میںبل کی پیش کشی کے موقع پر حزب اختلاف کی پارٹیوں نے یہی مطالبہ کیا کہ اس بل کا تعلق شہریوں کی شخصی آزادی سے ہے
اس پر پارلیمنٹ میں کافی غور و خوص ہونا ضروری ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کواسٹانڈ نگ کمیٹی سے رجوع کرنے پر زور دیا۔
لیکن حکومت نے لڑکیوں کی شادی کے قانون کو ایسی ہنگامہ آرائی کے دوران منظور کر لیا یہی حربہ یہاں بھی استعمال کرتے ہوئے لک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور کرا لیا۔ یہ سب پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیادپر کیا گیا۔ لیکن اس کے جو دور رس نتائج نکلیں گے اس سے ہندوستانی جمہوریت کی ناپئداری ساری دنیا میں آشکارہ ہوگئی۔
کوئی بھی حکومت محض طاقت کے سہارے قانون بنانے اور نافذ کرانے کا مزاج بنالے تو عوام ایسی حکومت کو زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکتی ۔ ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے اجلاس سے واک اوٹ کے بیچ انتخابی قوانین بل دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا۔
بی جے پی خود جمہوریت کے لیےایک خطرہ کی علامت ہے کہ ملک کی بڑی بڑی پارٹیوں کو بھی اعتماد میں لیے بغیر ملک میں قانون سازی کا عمل جاری ہے۔
ہندوستان کے ابتدائی دہوں کی پارلیمانی روایات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی اپوزیشن پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر اور ملک کی عوام کو بھروسہ دلا کر کوئی قانون بناتی تھیں ۔
اس سے ملک اور قوم دونوں کا فائد ہ ہوتا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت جو قوانین بناتے جارہی ہے اس سے ملک کا کوئی بھلا ہور ہا ہے اور نہ ملک کے شہریوں کو کوئی راحت مل رہی ہے ۔شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ملک کے ایک مخصوص طبقہ کی شہریت کو ختم کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ طبقہ عدم تحفظ کا شکار ہو گیا ہے۔
اسے یہ خوف کھاےجا ر ہا کہ نہیں معلوم اس کی آنے والی نسلیں اس ملک میں بحثیت ہندوستانی شہری رہ بھی سکیں گے یا نہیں؟ آیا انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنے پر مجبور کیا جائے گا ؟۔
کسانوں کے خلاف قوانین بنا کر ان کی زندگیوں کو اجیرن کرنے کی سعی نا کام کی گئی ۔اب بھی ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ۔ان کو روزگار سے محروم کرنے کے لیےتین کالے قانون لائے گیے تھے جسے حال ہی میں بادل نخواستہ منسوخ کرنا پڑا۔
اب مودی حکومت نے لڑکیوں کی شادی کے لیے اقل ترین عمر 21 سال مقرر کرنے کا نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ اس سے جو سماجی بھونچال پیدا ہوگا وہ ہندوستان کی صدیوں قدیم روایات کو تہس نہس کر دے گا۔ ملک کا کوئی بھی طبقہ اس قانون کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بادی النظر میں یہ قانون محض مسلمانوں کی دشمنی میں لایا گیا ہے۔
مسلمانوں کے عائلی قوانین موجودہ فسطائی حکومت کے آنکھوں میں شروع دن سے کھٹک رہے ہیں ۔ اس لیے کسی نہ کسی طرح مسلم پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے ۔ کبھی طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے اور کبھی یونیفارم سول کوڈ کو ملک میں نافذ کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔
اور اب لڑکیوں کی شادیوں کی عمر کی آڑ میں شریعت اسلامی میں مداخلت کا دروازہ کھولا جارہا ہے۔ لیکن حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وسیع تر سماجی تائید اور باہمی مشاورت کے بغیر بزور طاقت جوقوانین بنائے جاتے ہیں وہ بہت جلد ختم بھی ہوجاتے ہیں۔
جمہوریت میں ڈکٹیٹر شپ کا انداز حکومتوں کے زوال کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اس لیےوقت کا تقاضا ہے کہ قانون کے بنانے والے خود پہلے قانون کے پابند ہوں اور ایسے قوانین بنانے سے باز آئیں جو سماجی اصلاح اور قومی ترقی کے بجائے ساجی انتشار اور برہمی کا ذریعہ بنتے ہوں ۔اسی میں ملک وقوم کا مفادضمر ہے
روزنامہ احباب دہلی
ْ۔28 دسمبر 2021 بروز. منگل
تحریر : ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
(حیدر آباد)
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں