ماہر تعلیم نصاب ساز ادارہ اساس کے چیئرمین ارشد غازی سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو
ماہر تعلیم نصاب ساز ادارہ اساس کے چیئرمین ارشد غازی سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو
انٹرویو نگار: علیزےنجف
کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں دانش ور قائدین کا نمایاں کردار ہوتا ہے، وہ عارضی عمل و ردعمل کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر دور رس نتائج کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کی نگاہوں میں وہ بصیرت ہوتی ہے جو قطرے میں دجلہ دیکھ لیتی ہیں، وہ آنے والے طوفان کے خطرے کو محسوس کر کے بروقت اپنی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں، ایسے تمام دور اندیش قائدین ضروری نہیں کہ عوام الناس میں یکساں شہرت رکھتے ہوں
بے شک ان میں سے کچھ لوگ بلند و بالا عمارت کی طرح ہر کسی کی نظر میں ہوتے ہیں وہیں ان میں کچھ بنیاد کے پتھر بھی ہوتے ہیں، جو دکھائی تو نہیں دیتے لیکن قوم کے مستقبل کی تعمیر کا بوجھ اپنے کاندھے پہ اٹھائے رکھتے ہیں، ایسے قائدین ہمیشہ ہر دور میں رہے ہیں
موجودہ وقت میں انھیں میں سے ایک نگہ بلند قائد اور مفکر ارشد غازی صاحب ہیں، ارشد غازی صاحب کا تعلق ایک ایسے علمی گھرانے سے ہے جس نے نسل در نسل قوم کی خدمت اور مسلمانوں کے بہترین مستقبل کے لیے خود کو وقف کیے رکھا، ان کے والد مولانا حامد الانصاری غازی تاریخ داں، مدینہ اخبار کے ایڈیٹر اور معروف صحافی تھے جب کہ ان کی والدہ ہاجرہ نازلی معروف ناول نگار تھیں
ارشد غازی صاحب فکر شاعر و ادیب بھی ہیں، ان کی کئی کتابیں بھی منظر عام پہ آچکی ہیں، یہ تعلیمی و ثقافتی ادارے اکیڈمی آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز(اساس )کے چیئرمین ہیں الفلاح کے بڑے ذمےداروں میں سے ہیں جو کہ ایک فعال انویسٹمنٹ گروپ ہے جو غیر سودی بینکاری کے ذریعے تجارت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
ارشد غازی کا بنیادی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مدارس اسلامیہ کے لیے سو سے زیادہ جدید درسی کتابیں تیار کیں۔جس میں ملک کے نامی گرامی ماہر تعلیم کا انہیں تعاون حاصل رہا ۔انہوں نے متعدد غیر ملکی اسفارکئے، کچھ سال قبل حسن روحانی صدر ایران کی دعوت پر ایران گئے جہاں ان کے 12 لیکچر وحدت اسلامی اور ایران و ہند تعلقات پر ہوئے۔ میں اس وقت ان کی سامنے بطور انٹرویو نگار کے موجود ہوں اب مزید ان کے بارے میں انھیں سے جانیں گے
علیزے نجف: سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کی تربیت کس ماحول میں ہوئی؟
ارشد غازی : میرا پورا نام ارشد منصور غازی ہے ۔ جس گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ وہاں ددھیال میں دادا مولانا محمد میاں منصور انصاری مہاجر کابل ۔پر دادا سرسید کے رفیق مولانا عبداللہ انصاری پہلے ناظم دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مولانا عبداللہ انصاری کے والد مولانا انصار علی مدارالمہام مہا راجہ گوالیار سندھیا کے نام سنتے آئے ۔
ننھیال میں حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی نانا قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند کے ناموں اور خدمات سے خود کو جڑا پایا ۔والد محترم مشہور تاریخ دان اور صحافی مولانا حامد الانصاری غازی اور والدہ ہاجرہ نازلی کی نگہداشت میں پرورش ہوئی ۔ بچپن قلندرانہ گزرا مگر مجال ہے ہم میں سے کسی ایک کی زبان پر حرف شکایت آیا ہو۔اور اس کا سبب تھا تربیت ۔۔ ہمیں غم جاناں پالنے کے بجاے غم دوراں کی طرف موڑ دیا گیا۔
روپیہ پیسہ منصب جاہ و جلال کی ہمیں کبھی خواہش نہیں ہوئی۔ بچپن میں ایک حدیث مبارکہ کانوں میں پڑی تھی کہ جس نے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں نقد خرچ کیا اس کی اولاد کو منصب اور جاگیر سے نوازا جائے گا۔ میرے اسلاف نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی تھی سو دنیا ذلیل ہو کر ہمارے قدموں میں آکر گری ۔یہ تربیت ہی تھی جس نے ہم سب بہن بھائیوں کو زندگی میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سلیقہ بخشا حوصلہ دیا ۔ تمام بڑے شعراء اور دانشوروں کا گھر آنا جانا تھا ۔ ان ملاقاتوں نے شخصیت کو سنوارا بھی اور نکھارا بھی۔
علیزے نجف: آپ کے تعلیمی سفر میں وہ کون سے اساتذہ تھے جنھوں نے معلمی کے ساتھ ساتھ مربی کا بھی کردار ادا کیا؟
ارشد غازی: اس سوال کا جواب کچھ عجیب ہے۔ یہ وہ دور ہے جب اساتذہ مڈل پاس ہوتے تھے ۔ہمیں نہایت لائق فائق اور بہترین اساتذہ ملے ۔ سارے استاد مربی تھے ۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ایک رات میں ہمیں کندن بنا دیں ۔ ابھی ہم پرائمری جماعت میں تھے تو والد گرامی نے بتا دیا کہ اسکول اور مدرسے وہ اسٹول ہیں جہاں پڑھا کیسے جاتا ہے لکھا اور سوچا کیسے جاتا ہے سکھایا جاتا ہے ۔
مگر علم تو لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے سے آتا ہے ۔ سو ہم نے یہ بات اپنی گرہ میں باندھی ۔ شخصیت سازی میں بار بار شاہنامہ اسلام ۔۔ مسدس حالی ۔۔ اقبال کی شاعری نے بھی ہمارے ذہن کو جلا بخشی۔
یہ وہ زمانہ ہے جب معاشی تنگی کے سبب مسلم بچے مشکل سے گریجویشن کر پاتے تھے ۔ ہمارے اندر بھی نام کے ساتھ لاحقہ جوڑنے کا شوق نے سر اٹھایا ۔اور ہم نے بمبئی یونیورسٹی کو اپنی ہمہ وقت موجودگی سے دو بار اعزاز بخشا۔ کالج میں اردو کی استاد میڈم مادھوانی کی بڑی شفقت اور محبت ملی کیونکہ ہم اردو کی صف اول کی ناول نگار ہاجرہ نازلی کے بیٹے تھے ۔
کلاس میں بھی اس بات کا چرچا رہتا تھا ۔اور ہم اپنے تاثرات کچھ عجیب طرح ظاہر کرتے گویا وہ قمکار ہمیں تو ہیں۔ اگر موازنہ کیا جاے تو وہ دور تعلیم و تربیت اور اخلاقی قدروں کے لحاظ سے آج سے بہت مختلف تھا۔ آج ساری دنیا زوال پذیر امریکی کلچرل کی زد میں ہے۔ آج امریکی جین کلچرل انسانی جین پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق ایک تاریخی گھرانے سے ہے آپ کو اپنے آباء و اجداد کی طرف سے کس طرح کی خوبیاں ورثے میں ملیں کیا ایک عام خاندان سے تعلق رکھنے والا انسان اس طرح کی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے؟
ارشد غازی: ہاں کر بھی سکتا ہے ویسے تعلیم کہیں تیسری چوتھی نسل میں جاکر شعور کو پختگی بخشا کرتی ہے۔ اس کے بعد کی نسلوں کو عمرانیات کا علم قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے اور یہ شخص آنے والے زمانوں میں ہونے والے واقعات کو بیان کرنے لگتا ہے جسے ہم پیشین گوئی یا مکاشفے سے تعبیر کرتے ہیں۔
خاندان کے بزرگوں کی بے پایاں خدمات اور انتظامی اور انقلابی تحریکات نے ہماری شخصیت کو یقیناً سنوارا ۔ بادشاہ جہانگیر نے ہمارے آبائی وطن انبہٹہ پیر زادگان پر خفیہ محکمہ کو نظر رکھنے کی ہدایات دیں تھیں۔ انگریز حکومت کی بھی اس علاقے پر برابر نظر رہی۔ اسلاف کے کارناموں نے ہمیں جینے کا مقصد عطا کیا۔
یہ کہنے میں مجھے کوئی تامل نہیں کہ ہمارے خاندان نے سیاسی محاذ پر وہاں سے بات شروع کی جہاں وقت کے سیاستدانوں نے اپنی بات چھوڑی تھی۔ مولانا محمد میاں منصور انصاری رحمہ اللہ نے 1939 میں فرمایا تھا میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں جب مسلمان حکومتیں پے در پے شکست سے دوچار ہوں گی عام مسلمان اسے اعمال کی سزا گردانے گا مگر اس کا اصل سبب سائنسی ایجادات سے عدم واقفیت ہوگا۔
اور ایسا ہی دیکھنے میں آیا ۔وہ دارالعلوم دیوبند کو ٹیکنکل یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے ۔
ہے کام یابی اصول و شعور سے مشروط
سینئر صحافی سراج نقوی سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
یو۔این۔این۔ کے اعزازی مدیر اور صحافی ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کا علیزے نجف کا انٹرویو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو
علیزے نجف: آپ کی زندگی کے ابتدائی پچیس سالوں میں کس طرح کے نظریات کا غلبہ رہا اس کے بعد کے سالوں میں ان نظریات میں کس طرح کی اور کیسے تبدیلی واقع ہوئی؟
ارشد غازی: سیاسی سطح پر کیمونزم کا غلبہ تھا ادب میں ترقی پسند تحریک کا۔ جو کمیونزم سے متاثر تھی۔ جو لوگ ان نظریات اور تحریکات سے جڑے وہ ان سے متاثر نہیں تھے بلکہ جڑنا ان کی معاشی مجبوری تھی۔ تمام ترقی پسندوں کو سویت یونین سے ماہانہ وظائف ملتے تھے۔
جس دن سویت یونین بکھرا سب نے اپنے اپنے قبلے درست کیے الا ماشاء اللہ ہم تماشائ تھے ہم کسی خود ساختہ تحریک یا نظریے سے وابستہ نہیں رہے ۔ رابطے سب سے تھے ہر ترقی پسند کے جنازے کو ہم نے کاندھا دیا ۔
کمیونزم کے زوال کے بعد ترقی پسند تحریک بھی قصہ ء پارینہ بن گئی۔ مولانا منصور انصاری نے کمیونزم کی عمر 50 برس طے کی تھی اور وہ ٹھیک پچاس ویں برس تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں دفن ہوگیا۔ اسی کو عمرانیات کا علم کہتے ہیں ۔
علیزے نجف: شعوری سطح پہ نظریات کی تعمیر و تشکیل کے لئے ایک عام انسان کو کن کن چیزوں کا سہارا لینا چاہئے خود آپ کی زندگی میں کن عناصر کا عمل دخل زیادہ رہا؟
ارشد غازی: اس کا جواب بہت زیادہ طویل ہو سکتا ہے ۔ جن نظریات نے دنیا کو متاثر کیا ہم اس پر بات کریں گے۔
ایک انقلابی نظریہ جو تزکیہ ء نفس کے لیے تھا چودہ سو برس قبل اس کی تجدید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی اس اسلامی غیر استحصالی نظام نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھا راستہ دکھایا۔ جس نے کم وقت میں ایک عالم کو متاثر کیا ۔اور محض بیس برس میں بیس لاکھ مربع کلو میٹر پر انصاف پر مبنی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت میں انسانی نفسیات کی جزئیات تک کا خیال رکھا گیا تھا ۔
19 ویں صدی میں ایک مادہ پرست نظریاتی تحریک اور منظر عام پر آئی جس نے دو بڑی حکومتوں کے معاشی چکی میں پستے عوام کو حیرت انگیز طور پر متاثر کیا ۔یہ تحریک تھی اپنے وقتِ کے یہودی کارل مارکس کی۔ اس نے دا کیپیٹل نامی کتاب میں کمیونزم کا مینو فیسٹو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ روس میں اس کے غلبے نے یورپ اور امریکہ کو ضرور چوکنا کیا مگر کمیونزم کی جڑیں جب تک روس اور چائنا میں مضبوط ہو چکی تھیں ۔
نظریاتی تحریک چاہے روحانی ہو یا مادی دانشور کا با کردار ہونا شرط ہے ۔کسی بھی تحریک کا انسانی جبلت اور سماجی نفسیات سے تعلق ہونا ضروری ہے ۔ مذکورہ بیان کردہ دونوں تحریکات کے معلمین انسانی نفسیات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ہماری نگاہ سے معلوم دنیا کی ساری تحریکات گزریں مگر تزکیہ ء نفس سے بہتر تحریک کوئی نہیں پائی ۔
ظاہر کو ٹھیک رکھنے کے لیے باطن کا درست ہونا ضروری ہے۔ ادق کتابوں کے مطالعے نے ہمیں بقراط بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانی میں کوئی ہم عمر ہمارا دوست نہیں بن سکا کیونکہ ہم اپنی عمر سے بیس برس آگے چل رہے تھے ۔
علیزے نجف: تعلیمی نظام اور نصاب پہ آپ کی گہری نگاہ ہے موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اس کی کس تبدیلی سے آپ بہت پر امید ہیں اور کس سے غیر مطمین ؟
ارشد غازی : نصاب پر آپ کا سوال دفتر چاہتا ہے ۔اس سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک این سی ای آر ٹی کا نصاب ہے ۔دوسری طرف لاکھوں مدرسوں کا مروجہ درسِ نظامی ہے۔ حکومت اپنی منشا اور چانکیہ حکمت عملی کے تحت نصاب میں تبدیلیوں پر مصر ہے۔ جیسے ہندو دیو مالائی غیر تحقیق شدہ کہانیوں کی درسی کتابوں میں غیر ضروری بہتات۔
بے معنی کہانیوں کے اضافے ۔ مغل دور حکومت کا کتابوں سے خاتمہ ۔۔ اخلاقی کہانیوں کے اسباق کا اخراج وغیرہ۔ ان کتابوں کو پڑھ کر جو نسل تیار ہوگی وہ اصلاح پسندوں پر بوجھ ہوگی۔ دوسری طرف مدارس اسلامیہ کا درس نظامی ہے اور اردو کے نام پر مولانا اسماعیل میرٹھی کی کتاب ہے جو ابتدائی جماعت میں زیادہ تر بچے پڑھ رہے ہیں۔
ہم درس نظامی کو اپ ڈیٹ کرنے کو تیار ہیں نہ مولانا میرٹھی کی کتاب کو ۔۔۔ حد تو یہ کہ ملک کے نمائندہ مدارس عصری علوم سے ہم آہنگ کسی نئے نصاب یا کتاب کو متعارف کروانے کو تیار نہیں۔
دونوں محاذوں پر انتہای غیر اطمینان بخش صورت حال کا سامنا ہے ۔ کروڑوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہی کم طرفہ تماشا تھا کہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہہ دیا ۔تعلیم سے آہنکار پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی یہ اسکول کالج بند کیے جایں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ چاہے مسلم حکومت ہو یا ہندو ۔۔۔ سب علم رکھنے والوں سے خوف کھاتے ہیں۔
بہرحال میرے ادارے اساس علی گڑھ نے نصاب سازی اور کتاب سازی پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ادارے نے ساٹھ ممالک کے سفارت خانوں سے ان کا مروجہ نصاب اور تمام کتابیں منگوائیں، ان کو کمیٹی نے جانچا پرکھا۔ ہندوستان میں گزشتہ سو برس سے کیا پڑھایا جا رہا ہے اسے دیکھا گیا۔
ماہرین تعلیم سے رائے طلب کی گئی اور پھر بیک جنبش قلم وہ تمام کہانیاں رد کر دی گئیں جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھیں۔اساس کی کتابوں کا کوا کنکری ڈال ڈال کر پانی اونچا ہونے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ ایسٹرو ڈال کر مٹکے سے پانی پیتا ہے۔ اساس کی کتابوں میں سانٹیفک ٹیمپرامینٹ مزاج اور مذاق کا بہت خیال رکھا گیا ۔
دوسری طرف مذہبی اقدار کا۔ آپ کو سن کر حیرانی ہوگی کہ باوجود وسائل ہونے کے میرے دادا افغانستان میں تعلیمی اصلاحات کو نافذ نہ کرسکے ۔ میرے پر دادا مولانا عبداللہ انصاری جو ندوہ العلماء کے بانی اراکین میں شامل تھے دارالعلوم دیوبند میں نصابی تبدیلی نہ لا سکے۔ جب کہ وہ بانی دارالعلوم دیوبند حجتہ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے داماد بھی تھے۔
علیزے نجف: وہ کون سے عناصر ہیں جو طلبہ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیا وجہ ہے کہ لوگ تعلیم یافتہ تو ہو جاتے ہیں لیکن تربیتی اقدار سے ناآشنا رہ جاتے ہیں؟
ارشد غازی: صحت مند اور مثبت ماحول طلبہ کی کردار سازی میں اہم ہوتے ہیں ۔ ماں باپ بچے کو گھر میں کیسا ماحول مہیا کرتے ہیں اور اساتذہ اسکول میں ۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے تربیت کے شعبے میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں ۔ آج بچے کے ہاس اسناد کی بہتات ہے لیکن علم سے وہ تہی دست ہیں۔ ہم نے بچے کے اندر کے انسان کو مار دیا ہے اور اسے کمرشیل بنا دیا ۔ وہ بڑے ہو کر ہر رشتے کو فائدے اور نقصان کی ترازو میں تولتے ہیں۔ ہم نے خود اخلاقی قدروں کو پامال کر دیا ہے تو بچوں سے کیسا گلہ۔
علیزے نجف: آپ نے نصاب سازی کے حوالے سے قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں اس وقت این سی ای آر ٹی کی طرف سے نصاب کی کتابوں میں جس طرح کی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اس کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ارشد غازی: اس کے بارے میں کافی باتیں ہو چکی ہیں مزید بس یہی کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان میں نصاب سازی اور طرزیات پر کام کرنے کے لیے اگر سو ادارے بھی ہوں تو کم ہے۔ آئین کی ایک شق کے مطابق پہلی سے آٹھویں جماعت تک آپ اپنی تیار کردہ کتابیں پڑھا سکتے ہیں ۔
جو این سی ای آر ٹی کی گائڈ لائن کے مطابق مرتب ہوئی ہوں۔ کئی سو ٹائٹل ہیں ہر کتاب کروڑوں میں چھپتی ہے ہمیں حکومت کے بار کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایکٹ 5۔ 2 سی کے تحت ہندوستان کے مسلم اسکولوں کی نصاب سازی اور درسی کتابوں کی تیاری کی شق موجود ہے لیکن تمام تر وسائل کے باوجود وہ خدمت انجام نہیں دیتے۔
علیزے نجف: ہندوستان کے سیاسی نشیب و فراز پہ آپ کی گہری نظر ہے موجودہ وقت کی مجموعی سیاست کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ملک کی سیاسی بساط پہ آپ مسلمانوں کو کہاں دیکھتے ہیں ؟
ارشد غازی : 1947 میں جب دو ملک معرض وجود میں آئے تو ایک اسلام کے نام پر بنا یہ سب نے جانا مگر دوسرا ملک ہندوستان کہلایا تو نہیں مگر یہ بات ہندو دانشور سمجھ رہا تھا اور عوام کو عملا سمجھا رہا تھا کہ یہ ہندوستان نہیں ہندو استھان ہے ۔ مطلب ہندوؤں کے رہنے کی جگہ ۔ ساورکر کی کتاب ہندتوا میں وہ عیسائیوں اور مسلمانوں سے متعلق بہت سی متنازعہ باتیں لکھتا ہے۔
ساورکر کے مطابق ہندوؤں کے علاوہ کسی دوسرے دھرم کے ماننے والوں کو یہاں رہنے کا حق نہیں ۔ کتابوں میں تاریخی واقعات سے چھیڑ چھاڑ اسی لیے ہے کہ وہ تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے پڑھانا چاہتے ہیں۔ جس کی اپنی وجوہات ہیں ۔ جہاں سکندر پورس سے ہارا تھا ۔ رانا پرتاپ سے اکبر ۔ اور مغل غاصب تھے وغیرہ ۔لیکن اس جدید تاریخ کے ساتھ ایک دو نسل کو گزر جانے دیجیے پھر دیکھیے گا۔ نیی نسل کے سامنے کیسی مشکلات پیش آئیں گی۔
علیزے نجف: نصاب سازی کے حوالے سے کن بنیادی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے یہ نصاب طلبہ کی ذہن سازی میں کس حد تک معاون ہوتے ہیں؟
ارشد غازی: کسی بھی عمارت کے لیے مستحکم بنیاد ضروری ہوتی ہے۔ ماہرین کا مرتب کردہ نصاب یہ طے کرتا کہ سال بھر میں بچے کی ذہنی سطح کے مطابق اسے کیا اور کتنا پڑھنا ہے ۔ الفاظ کا انتخاب کیسے کیسے کیا جائے گا۔ کس طرح کی کہانیاں رکھی جاییں جو بچے کی ذہنی سطح کو اونچا کریں ۔
درسی کتابیں اسی گائڈ لائن پر تیار کی جاتی ہیں ۔ کتاب کی تیاری میں گریڈنگ ایک سخت مرحلہ ہوتا ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ مسلمانوں کا درسی کتابوں کا کوئی ایسا ادارہ ہو جو درسی کتب کو ان پیرا میٹر پر تحقیق شدہ مواد کے ساتھ نصاب یا کتاب تیار کرتا ہو۔
علیزے نجف: آپ نے مدارس کی جدید کاری پہ بھی کام کیا ہے اس کے تحت آپ نے مدارس کے نظام میں کس طرح کی تبدیلی کی حمایت کی ہے اور یہ تبدیلی کس قدر ضروری ہے؟
ارشد غازی: اسکول ہو یا مدرسہ ۔ اسے انہی کتابوں کو داخل نصاب کرنا چاہیے جو معاصر علوم کا احاطہ کرتی ہوں ۔درسی کتابوں کے سال بہ سال اپ ڈیٹ کرنے کا ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں ایک کتاب ہے جسے ہم برسوں پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ سائنسی کلیہ روز بدلتے ہیں ۔یہی اور مضامین کے ساتھ ہے۔
اساس نے مدارس اسلامیہ کی جدید کاری کے ضمن میں کئی اہم کام کیے ۔ ہندوستان میں مدارس کی تعداد پانچ لاکھ سے سوا بتائی جاتی ہے جن میں اردو ہندی اور انگریزی کی تعلیم کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں الا ماشاء اللہ ۔۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ تین سطحوں پر ۔۔ ایسے واقعات جو بچے کے کردار سازی میں معاون ہوں اس کا فقدان ہے۔ اساس نے اپنی کتابوں میں ایسی بہت سی باتوں کا التزام کیا ہے ۔
علیزے نجف: حکومت نے مدارس کا سروے کروایا تھا کچھ لوگوں نے اس پہ اعتراض ظاہر کیا اور کچھ نے تعاون آپ کی اس بارے میں کیا رائے رہی؟
ارشد غازی: حکومت کے سروے میں ان کی نیت صاف نہیں ۔ مدرسہ بورڈ بنا جسٹس سہیل استعمال ہوئے۔ جلد کچھ ہونے جا رہا ہے اب وہی مدرسے بچیں گے جن کا ٹائٹل اسکول کا ہوگا اور جن کے حسابات درست ہوں گے ۔باقی پر تالا پڑے گا۔ اسی طرح وہی مساجد بچیں گی جو رفاہی کام میں پیش پیش ہوں گی۔ آنے والے کل میں مساجد کو کمیونٹی سینٹر بنا کر ہی بچایا جاسکے گا۔
علیزے نجف: ہندوستان کے سیاسی نشیب و فراز پہ آپ کی گہری نظر ہے موجودہ وقت کی مجموعی سیاست کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ملک کی سیاسی بساط پہ آپ مسلمانوں کو کہاں دیکھتے ہیں ؟
ارشد غازی: مسلمانوں کے لیے اچھا ہے اگر وہ سمجھ لیں کہ 1947 سے ایک ہندو اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں۔ جہاں ان کے شہری حقوق اب کمتر درجے کے ہیں۔ مسلمانوں کی ہر تجارت پر قدغن آئے گی۔ وہ سہارنپور کا لکڑی کا کام ہو یا گوشت کی تجارت۔
حتی کہ حج عمرہ ۔۔ لاکھوں مدارس اور مساجد سب پر سوالیہ نشان ہے۔ حتی کہ مسلمانوں کے وجود پر بھی ۔۔اسلامی تشخص پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ ہم ضرور مکی زندگی میں جی رہے ہیں مگر دعوت کا کام ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ اگر آپ دعوت حق کے ذریعے ایک ہندو کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک کی تصویر بدل جائے گی۔ آج بھی پچانوے فی صد ہندو بہتر خیالات رکھتا ہے وہ فساد پر یقین نہیں رکھتا۔
ملک میں جو فضا بنائی جا رہی ہے مسلم دانشوروں کو اس کے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت ہے۔ کل جو سردارانِ قریش مکہ کا حال تھا وہی آج موجودہ قیادت کا ہے یہ لوگ اسلام کی حقانیت اور غیر معمولی پھیلاؤ سے خوف زدہ ہیں ان کے دانشور اپنی قوم کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت دلا کر اسلام قبول کرنے سے روک سکتے ہیں ملک عزیز میں تبدیلی آئے گی۔
کیوں کہ کوی بھی حکومت جبر اور ظلم کے ساتھ نہیں کی جاسکتی ۔ مسلمانوں کو صبر سے کام لینا چاہیے۔اور دلتوں، معتدل اور سیکولر ہندوؤں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ تبدیلی اب زیادہ دور نہیں۔ موجودہ حکومت کو خوب اندازہ ہے کہ اگر مسلمان ہند اپنی سی پر اتر آیا تو نتائج کیا ہوں گے۔
علیزے نجف: اس وقت یکساں سول کوڈ پہ بحث چھڑی ہوئی ہے حکومت اس کو لانے پہ بضد کیوں ہے کیا اس سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے ہندو طبقہ محفوظ رہے گا ؟
ارشد غازی: 1953 میں ہندو پرسنل لا میں پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی ہو چکی ہے ۔ عوام کو یوں فرق نہیں پڑا کہ وہ عائلی قوانین سے واقف ہی نہیں ۔ یکساں سول کوڈ سے مسلمانوں کو فرق پڑے گا۔ حکومت کا مروجہ ہندو عائلی ایکٹ اسلام کے بنیادی ماخذ کے متصادم ہے ۔ یکساں سول کوڈ کا نافذ ہونا مسلمانوں میں شدید بے چینی کا سبب بنے گا ۔ یہ مسلمانوں کے تشخص پر ضرب ہے۔ اس سے ارباب حل و عقد کو احتراز کرنا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ پہ وقف کی املاک پہ ضرب پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے اپنے اس خدشے کی وجوہات پر روشنی ڈالیے یہ بتائیے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی تنظیموں کو اس معاملے میں کس طرح کا مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
ارشد غازی: اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو ہم اوقاف کی زمینوں کو نہیں بچا پائیں گے ۔ ہندوستان کی لاکھوں مساجد اوقاف کی زمینوں پر کھڑی ہیں۔ اگر اوقاف ختم ہوا تو لاکھوں مساجد غیر قانونی قرار پائیں گے جنھیں بچانا نا ممکن ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ زمینیں حکومت کے تصرف میں ہیں۔ پھر فوج کے پاس ہیں ۔ اس کے بعد زمینیں اوقاف کے پاس ہیں ۔ پاکستان جاچکے افراد کی اوقاف کی زمینوں پر حکومت اپنا حق محفوظ رکھتی ہے ۔
1857 میں انگریزوں کے ایک قانون کے مطابق اوقاف کی زمین پر حکومت کے تصرف کی شکل میں حکومت اس زمین کا کرایہ ایک روپیہ سالانہ اوقاف کو ادا کرے گی۔ یہ قانون آج بھی نافذ العمل ہے ۔ اس قانون کی رو سے لال قلعہ ۔ جامع مسجد ۔۔ قطب مینار ۔۔ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ ۔۔ ڈی ڈی اے کی عمارت کا اوقاف کو ایک روپیہ سالانہ ملتا ہے۔ سنا ہے کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق یہ رقم کچھ بڑھا دی گئی ہے۔
سیاسی حالات جس قدر سنگین ہیں دانشوروں کو اس کا ادراک نہیں۔ یہ ملک برہمن واد کی زد میں ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ ماضی میں حکومت ک چار غیر منطقی فیصلوں کو شدید احتجاج کے نتیجے بدلوا چکا ہے ۔ اس وقت پھر انھیں اپنے وجود کا احساس کرانا ہوگا۔ مسلمانان ھند کے تشخص کے لیے ۔
علیزے نجف: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ تعلیمی نظام اور معیشت کو سیاسی داؤ پیچ سے دور رکھنا چاہئے تاکہ ملک اور عوام کی خوش حالی پہ ضرب نہ پڑ سکے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ارشد غازی: علامہ اقبال کا قول ہے جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی مہاتما گاندھی نے کہا تھا ملک کے نوجوانوں کے ہر طرح کی سیاست سے دور رکھنا چاہیے ۔ اور ہم نے اس جملے کے اثرات کو تیس برس بعد محسوس کیا۔ آج اپنی قوم کے خلاف ہم ایسی تعلیمی اصلاحات نافذ کرنے کے درپے ہیں جو ہماری نسلوں کو شدید ذہنی نقصان پہنچائے گی۔ سیاست کے میدان میں معشیت کو دوسری قوموں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا قول ہے جب کسی قوم کو معاشی تنگی پر مجبور کیا جاتا ہے تو انقلاب کو راستہ مل جاتا ہے۔ دجالی معاشرہ میں یہی معاشی تنگی اپنی انتہا پر ہوگی۔ یہ اس قوم کی بد نصیبی ہے کہ تعلیمی منصوبہ ساز غیر صحت مند ، عصبیت کے مارے اور کم علم افراد ہیں۔ ان سے کسی خیر کی امید رکھنا عبث ہے۔
علیزے نجف: اس وقت ملکی سیاست میں مذہب ایک ایسا موضوع ہے جس کے نام پہ عوام کے جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے ایسے میں عوام کو کس طرح کا ردعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
ارشد غازی: ہماری مسلم تاریخ میں ہم نے مذہب کو بارہا بطور نعرہ استعمال کیا ہے۔ اگر آج ہندو دانشور ایسا کر رہا ہے تو شکایت کیسی ۔ زیادہ دور نہ جایں جینا بای خوجانی بعد کو محمد علی جناح نے زمینداروں نوابین اور وڈیروں کے لئے پاکستان بنایا اور اسلام کو بطور نعرہ استعمال کیا ۔ آپ دیکھیے نہ ملک کے سیاسی رہنماؤں کو ۔۔نہ دانشوروں کو ۔۔ نہ عوام کو اسلام سے کوی علاقہ نہیں ۔
یہی حال ہندوستان کا ہے ملک کا ہندو دانشور سمجھ چکا ہے ساری ہندو قوم کو ایک لڑی میں پروانے کا کام مذہبی جذباتی اور جنونی نعروں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہماری ہی طرح کامیاب ہو گیے۔
مسلم قوم اس صورت حال میں کیا موقف اختیار کرے یہ دانشور فیصلہ کرے گا۔ فی الحال مفاہمت موافقت اور مراجعت کی تعلیم دی جائے گی۔ لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگا تو بے رحم فطرت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ جس کا مشاہدہ ایک دنیا کرے گی۔
علیزے نجف: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال کر بحیثیت مسلمان متحد ہو جائیں اور اتحاد کی راہ ہموار کریں ؟
ارشد غازی: یہ ملک پاکستان نہیں ہے ۔ یہاں اسلامی ثقافتی و تہذیبی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں ایسی مسلکی منافرت اور باہمی تصادم نہیں پایا جاتا جیسا پاکستان میں دیکھا جاتا ہے۔ دوسری بات ہندو سنسکرتی اور سبھیتا کے اثرات ہمارے مزاجوں میں راسخ ہیں ۔ ہندو بحیثیتِ مجموعی برے نہیں ۔ وقت پڑنے پر مسلمانوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ سیسا پلائی دیوار ہیں ۔
علیزے نجف: آپ حکومت وقت سے ٹکراؤ کے بجائے مفاہمت اور مکالمہ کی بات کرتے ہیں خود آپ نے اس ضمن میں کیا کیا کوششیں سرانجام دی ہیں؟
ارشد غازی: جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا سب سے بڑا جہاد ہے ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے اور میرے ہم خیال احباب کو ملک کی اعلی قیادت کے سامنے حق بات کہنے کا موقعہ ملا اور ہم نے فرض کفایہ ادا کیا۔
میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ موجودہ حکومت سے مذاکرات کرکے مفاہمت و مراجعت کے ذریعے کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو اس کلیہ کو سمجھنا ہوگا کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے ۔بقول شخصے سیاست میں کسی پارٹی سے نہ مستقل دوستی نہ مستقل دشمنی کی جاسکتی ہے۔ مسلمان حکومت سے کچھ مانگنے کے بجائے اس کو کچھ دینے والے بن جائیں تو حالات میں سدھار آنے لگے گا۔ حکومت کو نفسیاتی مرض لاحق ہے، ان کا یہ احساس برتری دراصل احساس کمتری ہے۔
ہندوستان پر مسلمانوں کے شاندار اور تابناک دور حکومت کو یہ اپنے دل پر بوجھ بنا کر جی رہے ہیں۔ چھ ہزار برس کے بعد اب انھیں سمجھ میں آیا ہے کہ بڑی قوم کہلانے کے لیے ایک کتاب ۔۔ ایک مرکز ۔۔ ایک روحانی شخصیت کا ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے فرمایا۔ آنے والے کل میں ساری دنیا کا مذہب سناتن دھرم ہوگا۔ لیکن سناتن دھرم ہے کیا اس کی تشریح وہ نہیں کرسکے نہ ان کے گرو ساورکر سمجھا سکے کہ سناتن دھرم ہے کیا۔
عوام جس سناتن دھرم کا پرچار سڑکوں پر کر رہے ہیں وہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ملک و ملت کے لئے ذلت اور عالمی سطح پر شرمندگی کا باعثِ ہے۔ انھیں یہ بتانا ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اب حیثیت کیا ہے۔ موجودہ نفرت کی فضا ملک کے مستقبل کے لیے اچھی نہیں ہے۔
علیزے نجف: آپ کے نزدیک ملک میں کانگریس کا مستقبل کیا ہے ؟
ارشد غازی: ملک کی بے پناہ ترقی میں کانگریس کا حصہ بہت زیادہ ہے ۔ مضبوط معشیت کی بنیاد کانگریس کی دین ہے
کانگریس کی قیادت درست ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ہم نے آج تک کیا کیا ہے اور مستقبل میں کیا کریں گے اس پہ بات نہیں کرتے کانگریس کے لوگ۔۔ ساری رام کتھا میں مودی چھایا رہتا ہے اور مودی کی پالیسی ۔۔۔
اور حکومت یہی چاہتی ہے ۔ کانگریس اگر مثبت رخ اپنائے تو تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ کانگریس کے پاس صف اول کے سیاستدان ہیں لیکن حکومت کے غلط منصوبوں پر نکیل کسنی چاہیے مگر وہاں مکمل خاموشی پائی جاتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ کانگریس کے پاس کوی ڈھنگ کا میڈیا ہاؤس نہیں۔ نہ کوی پرچار اخبار ۔۔ موجودہ حکومت کی کوی بڑی غلطی کانگریس کی جیت کا سبب بن سکتی ہے۔ جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
علیزے نجف: ہندوستان وشو گرو بننے کا دعوے دار ہے اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ۔
ارشد غازی: یہ جملہ پہلی بار ڈاکٹر موہن بھاگوت کی زبان سے سنا گیا۔ عالمی قیادت کا شوق اور حقیقتِ حال دو مختلف چیزیں ہیں ۔
محض قیادت سیادت اور سیاست کے زور پر کم زور حزب اختلاف کو زیر کرلینے سے ایسے منصب نہیں ملا کرتے۔ عالمی قیادت کا منصب پانے کی کچھ شرائط ہیں ۔ حکومت عدل پر قائم ہو ۔ ہر شعبے میں انصاف کا بول بالا ہو عوام الناس خوش ہوں۔ عصبیت سے پاک معاشرہ ہو مذہبی رواداری کا خیال رکھا جاتا ہو۔ معاشی استحکام اور سیاسی فیصلوں سے عوام براہ راست مستفیض ہوتے ہوں۔ ملک کرپشن سے پاک ہو ۔حزب اختلاف کو سرکاری فیصلوں پر تنقید کی اجازت ہو۔ ملک کی گھریلو صنعت فعال ہو۔
جیسا کہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں تھا کہ جی ڈی پی 29 پلس تھا جبکہ اسی مودی کے عہد میں ہمارا جی ڈی پی 29 ماینس میں چلا گیا تھا ۔ملک کا مزدور طبقہ اور کسان خوش ہو۔ درآمدات و برآمدات میں توازن ہو ۔ پڑوسی ملکوں سے رشتے استوار ہوں۔ پڑوسی ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے ہمارے پاس ٹھوس لائحہ عمل ہو۔
پڑوسی ملکوں کی سالمیت کو ہماری افواجِ سے خطرات لاحق نہ ہوں۔ قدرتی آفات کے وقت پڑوسی ملکوں کی بھر پور مدد کرنا۔اگر ملک جوہری ہتھیار کا حامل ہے تو جوہری حملے کے جواب کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ملک عالمی بینک کا مقروض نہ ہو۔ سونے کے ذخائر نوٹوں کی مالیت سے زیادہ ہوں ۔ ملک میں انفرااسٹرکچر ۔۔ بنیادی ڈھانچہ عالمی معیار کا ہو۔ ملک مانگے تانگے کے ہتھیاروں پر نہ اکڑتا ہو۔
کوئی ملک اگر یہ شقیں پوری کرتا ہے تو وہ ملک عالمی قیادت کا بار اٹھانے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ سردار وہ نہیں ہوتا کہ وہ کہے ۔ میں سردار ہوں بلکہ سردار وہ ہوتا ہے کہ لوگ کہیں آپ ہمارے سردار ہیں۔
علیزے نجف: موجودہ مرکزی حکومت کو اقتدار تک پہنچانے میں کس طرح کی آئیڈیالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے ان کے حکومتی طریقہء کار کے دیکھتے ہوئے آپ ان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ارشد غازی: موجودہ حکومت مسلم دشمنی کی بنیاد پر پارلمنٹ میں دو سیٹ سے دو سو سیٹ تک پہنچی اور پھر تین سو سیٹوں کے پار گئی ۔ 2024 میں بھرپور امکان ہے ان کے واپس آنے کا۔ مگر کسی آئڈیا لوجی یا مثبت ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہٹ دھرمی ۔۔ مسلم دشمنی اور حد سے تجاوز کرنے والی ہتھکنڈے والی سیاست کے ذریعے۔
علیزے نجف ذ: کسی بھی قوم کی ترقی میں وہ کون سے عوامل ہیں جو اہم کردار ادا کرتے ہیں کیا وہ عوامل ہندوستانی عوام کی زندگی مرکزی مقام رکھنے میں کام یاب ہیں؟
ارشد غازی: یاد رکھیے جو حکمراں سوچتا ہے وہی عوام کا مزاج بنتا ہے۔ عوام کا بڑا طبقہ ناخواندہ ہوتا ہے ۔ مگر اپنے ارد گرد سے باخبر رہتا ہے۔ انسانی سرشت میں نیکی کو خاص مقام حاصل ہے۔ مجھے متعدد ملکوں کے سفر کرنے کا اتفاق ہوا مجھے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت گنگا جمنی روایات پر بجا طور پر فخر ہے۔ ہندوؤں کی وسیع القلبی اور انکساری ضرب المثل ہے ۔
ہندو رواداری کی تاریخ میں بہت سی مثالیں ثبت ہیں۔ ہندوستانی عوام کا مستقبل درخشاں ہے۔ ان کا خلوص ایمانداری اور محنت ہندوستان کو بلندیوں کی طرف لے جا رہا ہے ۔کیا یہ بات خوش آئند نہیں کہ عوام کے مزاجوں میں چھل کپٹ اور دھوکا نہیں ہے۔ ملک کا چھوٹا تاجر ۔۔ مزدور طبقہ اور کسان ملک کے اصل ستون ہیں۔ معاشی ترقی ان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔ اگر ملک کو ڈاکٹر من موہن سنگھ جیسی قیادت میسر آجائے تو ہم چائنا سے آگے نکل سکتے ہیں۔
علیزے نجف: اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کی اب تک کی زندگی کا مقصد حیات کیا رہا تو آپ کیا کہنا چاہیں گے اور اس کے حصول میں آپ کس حد تک کامی اب ہوئے؟
ارشد غازی: اس سوال کا جواب اوپر کی سطور میں آگیا ہے۔ مقصد حیات کوئی ایسی چیز نہیں کہ انگلی پکڑ کر بتایا جائے کہ آپ کو اب یہ کرنا ہے۔ مسلمانوں کا مقصد حیات اسلام طے کر چکا ہے۔ ہمیں اسلام کی بالا دستی اور حقانیت کو روئے زمین پر ہر کسی تک پہنچانے کے مکلف ہیں۔ اور مسلمانوں کی مدد کے لیے ۔۔
اس ضمن میں ہم نے حتی المقدور کوشش کی ۔ مختلف زاویوں سے ۔ جب مجھے سعودی عرب میں ائر لاین میں جاب ملی تو ایک دن خیال آیا یہ کیا کام اپنے لیے منتخب کیا ۔ بڑے بھائی سے ذکر ہوا تو بولے اسے عبادت بنالو ۔ہم نے پوچھا وہ کیسے تو بولے ۔غریب مسلم ممالک کی ایر لاین پرموٹ کرو افغانستان اور ترکی کی معیشت کو تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی پی آئی اے پر نظر کرم کرو کیونکہ مستحکم پاکستان ہندوستان کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف: آپ تعلیمی و ثقافتی ادارے اکیڈمی آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (اساس) علی گڑھ کے چیئر مین و الفلاح گروپ کے بڑے ذمہ داروں میں سے ایک رہے ہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ ان دونوں اداروں کے بارے میں ہمیں بتائیں اور اس کا طریقہء کار کیا ہے اور اس کے نتائج کیسے رہے ہیں؟
ارشد غازی: اساس کے بارے میں ذکر کرچکا ہوں۔ الفلاح ایک فعال انویسٹمنٹ گروپ ہے جو غیر سودی بینکاری کے ذریعے تجارت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس ضمن میں الفلاح کے چیرمین جواد صدیقی ۔۔پروفیسر نثار احمد فاروقی اور راقم الحروف متعدد بار ڈاکٹر من موہن سنگھ سے بھی ملے ۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ جی نے الفلاح کے ایک غیر سودی بینکنگ پروگرام میں شرکت کی تھی اور فرمایا تھا۔ دنیا کو کساد بازاری اور معاشی تنگی سے بچانا ہے تو غیر سودی بینکاری ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ غیر سودی بینکاری کے لیے حکومت پر دباؤ بنانے کے لیے اگر چودہ فی صد ہندوستانی مسلمان صرف ایک دن کے لیے بینکوں سے اپنا سارا پیسہ نکال لیں تو سینکڑوں بینک ڈوب جایں گے بلکہ اس وقتِ کی حکومت گر جائے گی انھوں نے بتایا تھا کہ صرف کرناٹک کے بینکوں میں مسلمانوں کے سود کی رقم 35 ہزار کروڑ جمع ہے جسے مسلمانوں نے لینے سے انکار کر دیا ہے۔
علیزے نجف: آپ شاعر بھی ہیں آپ کے اندر شعری رجحان کیسے پیدا ہوا، آپ کے کتنے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اس کے علاوہ نثری صنف میں آپ نے کن موضوعات پہ بکثرت لکھا ہے؟
ارشد غازی: امیر خسرو کی طرح پانچ لاکھ اشعار کہے ۔ تین مجموعے مرتب ہوئے لا تعداد اشعار ضائع ہو گیے۔ کئی شخصیات پر میری کتابیں شایع ہوئیں ۔ میری زندگی کے بارہ برس ایسے بھی گزرے ہیں جب مسلسل لکھتے لکھتے فجر کی اذان ہونے لگی اور مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نسیم احمد مجھے ناراض ہوتے ہوئے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی عادت تھی وہ فجر کی نماز سے قبل راؤنڈ پر نکلا کرتے تھے ۔ میں کیا میرا کام کیا ۔لیکن میرا قلب مطمین ہے کہ جو وقت ملا اسے ضائع نہیں کیا گیا ۔
احمد فراز کہتے ہیں شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا اپنے حصے کی کوی شمع جلاتے جاتے میں جب اس دنیا سے رخصت ہوں گا تو دیدار خداوندی کی آرزو لیے رخصت ہوں گا ۔۔۔ بس
Pingback: بھاجپا کی خوبیوں سے سبق لے کانگریس علیزے نجف