ہماری بچیاں مرتد کیوں ہو رہی ہیں
ہماری بچیاں مرتد کیوں ہو رہی ہیں ؟ — ایک دل دہلا دینے والا المیہ
از قلم __ محمد صفدر رضا علائی
( مربت پور پیکبان کٹیہار بہار)
یہ کوئی افسانہ نہیں، نہ ہی محض ایک خطبہ ہے، بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے پلنے والی ایک سچی داستان ہے۔ یہ داستان ہے اُن بچیوں کی جو کبھی مکتب کی صفوں میں بیٹھا کرتی تھیں، جن کے نغموں سے گھروں میں اذانیں گونجا کرتی تھیں، جن کے سروں پر دعاؤں کے سائے ہوا کرتے تھے، اور آج وہ اسلام سے بیزار ہو کر، دین سے دور ہو کر، ایمان سے ہاتھ دھو کر، اغیار کی غلامی میں فخر محسوس کرتی ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ “ہماری بچیاں مرتد ہو رہی ہیں؟”
اس سوال کا جواب محض ایک جملے میں دینا، ظلم ہو گا۔ یہ ایک گہرا، پیچیدہ، اور کئی تہوں میں چھپا ہوا المیہ ہے، جس کی جڑیں ہمارے گھروں، نظامِ تعلیم، ماحول، سوشل میڈیا، اور خود ہمارے دین کے ساتھ غیرسنجیدہ رویے میں پیوست ہیں۔
١۔ ماں باپ کی غفلت — ایمان کی پہلی بنیاد ہی ڈھ گئی
بچپن میں ماں کی گود اگر قرآن کی خوشبو سے محروم ہو، اور باپ کے لبوں پر اگر اذان کی گونج نہ ہو، تو ایمان کہاں سے آئے گا؟
ہم نے بچوں کو فیشن، فٹبال، فلم اور فیس بُک تو سکھایا، مگر کلمہ، قرآن، قربانی اور قناعت نہ سکھا سکے۔
ماں باپ نے انہیں کامیاب ڈاکٹر تو بنایا، مگر ناجائز رشتوں کے درمیان پھنسنے سے بچانے والا شرعی پردہ نہ سکھایا۔
٢۔ تعلیم نہیں، بلکہ لادین تربیت
ہماری بچیاں اسکولوں اور کالجوں میں سائنس، ریاضی، انگریزی، نفسیات تو پڑھ رہی ہیں، لیکن ایمان، تقویٰ، حیاء، غیرت، شرم، دین، قرآن اور سیرتِ فاطمہؓ سے ناآشنا ہیں۔
ہم نے نصاب میں فیشن ڈیزائننگ تو داخل کیا، مگر اسلامی تہذیب و تمدن کو خارج کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دل کے اندر اللہ کی محبت کی جگہ، فلمی ہیرو کی چاہت نے لے لی۔
٣۔ سوشل میڈیا — ایمان کا قاتل
ان بچیوں کے ہاتھ میں قرآن کے بجائے موبائل ہے، جن کی انگلیاں ذکر و دعا کی جگہ ٹک ٹاک پر رقص کرتی ہیں، ان کے دل ایمان کی روشنی سے خالی ہوں گے۔
یہ انٹرنیٹ کے گمراہ کن “انفلوئنسرز” کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں، جو الحاد، زنادقت، بے پردگی، لبرلزم، فیمینزم، اور الحاد کا زہر چمکتے الفاظ میں ان کے دماغ میں انڈیل رہے ہیں۔
٤۔ دینی اداروں کا کمزور رابطہ
مسجد، مدرسہ، جماعت، علماء — ان سب کا رابطہ عام بچیوں تک نہیں۔
ہم نے لڑکوں کے لیے تبلیغی نظم، دینی اجتماعات، مدرسے، نعت خوانی، درسِ قرآن تو قائم کیے، مگر لڑکیوں کو محض میک اپ، جہیز، اور رشتے کی فکروں میں مصروف کر دیا۔
جب بچی کو دین سیکھنے کا ماحول نہ دیا جائے، تو وہ کہیں اور تو رُخ کرے گی۔
٥۔ گھروں میں اسلام کا صرف نام باقی ہے
آج کے گھر “اسلامی” تو ہیں، مگر اسلام سے خالی ہیں۔
گھر میں نماز نہیں، قرآن نہیں، ذکر نہیں، اسلامی گفتگو نہیں، سیرتِ صحابیات کا ذکر نہیں۔
مگر ہنسی مذاق، میوزک، ڈرامے، سیریل، گانا، فلم، فیشن، رقص، اور بے حیائی کا سامان خوب موجود ہے۔
پھر کیوں نہ بچیاں شیطان کے دربار میں “ایمان کا کفن” پہنے ہوئے نظر آئیں؟
٦۔ محبت کی بھیک مانگتی لڑکیاں
جب بچی کو باپ کا وقت، ماں کا پیار، بھائی کی حفاظت، اور خاندان کی توجہ نہ ملے، تو وہ محبت کہیں اور تلاش کرے گی۔
اور وہاں ایک کافر نوجوان، اسے محبت، عزت، آزادی، اور خواب دکھا کر ایمان، عزت، اور آخرت سب چھین لیتا ہے۔
٧۔ مغرب زدہ نظریات — زہر میں بجھے الفاظ
“میری زندگی میری مرضی”، “عورت آزاد ہے”، “پردہ ظلم ہے”، “اسلام مردوں کا مذہب ہے” — یہ وہ سلوگنز ہیں جو شیطان نے میڈیا، اسکول، ڈراموں، اور سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے ہماری بچیوں کے ذہن میں بٹھا دیے ہیں۔
یہ الفاظ انقلابی نہیں، بلکہ تباہ کن ہیں۔
ایمان کے خیمے میں آزادی کی آندھی آئی اور سب کچھ اُڑا لے گئی۔
کیا ہم نے کبھی سوچا؟
جس بچی کے دل میں قرآن کا نور ہو، کیا وہ کبھی نصرانی بن سکتی ہے؟
جو فاطمہؓ، زینبؓ، خدیجہؓ کو آئیڈیل مانتی ہو، کیا وہ کبھی کافر نوجوان کے لیے ایمان بیچ سکتی ہے؟
جو نماز، روزہ، حیاء، پردہ، قرآن، محبتِ رسول میں پلی ہو، کیا وہ کبھی کسی انجان مذہب کو اپناسکتی ہے؟
نہیں! ہرگز نہیں!
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے ایمان کی حفاظت کا بندوبست نہیں کیا۔
حل کیا ہے؟
- گھروں میں ایمان کی فضا قائم ہو — ماں باپ خود دین دار بنیں، بچیوں کے ساتھ دینی کتابیں، سیرتِ صحابیات، اور پردے کی عظمت پر بات کریں۔
- سوشل میڈیا پر اسلامی تربیتی مواد عام ہو — علمائے کرام کو جدید میڈیا میں مضبوط قدم رکھنا ہوگا۔
- خواتین کے لیے اسلامی ادارے، اجتماعات اور درس کا انتظام ہو۔
- بچیوں کو فاطمہؓ، زینبؓ، رابعہ بصریؒ، اور خنساءؓ جیسے رول ماڈل دیے جائیں، نہ کہ فلمی ستارے۔
- محبت، عزت، اور اعتماد گھر کے اندر دیا جائے، تاکہ وہ باہر تلاش نہ کرے۔
- ہر ماں، ہر بہن، ہر بیٹی — ایمان کی چوکیدار بنے۔
آخری بات
ہماری بچیاں پھول ہیں، امانت ہیں، قوم کی بنیاد ہیں۔
اگر وہ مرتد ہو گئیں، تو یہ صرف ان کا نہیں، ہم سب کا خسارہ ہے۔
اٹھو! اپنی بچیوں کو بچاؤ، ورنہ کل وہ ہمیں آخرت میں سوال کریں گی:
“ابا! ماں! آپ نے ہمیں قرآن کیوں نہ سکھایا؟”
از قلم!_ محمد صفدر رضا علائ
( مربت پور پیکبان کٹیہار بہار)