استغفار قرب الہٰی کا مجرب عمل ہے
از : محمد فداء المصطفٰے استغفار قرب الہٰی کا مجرب عمل ہے ! !
استغفار قرب الہٰی کا مجرب عمل ہے
استغفار اس دنیائے فانی میں بندئے مومن کے لیے ایک ایسا عمل ہے جس سے ہر مومن بندہ دونوں جہاں کی سعادت سے مالامال ہوجاتا ہے اور اس کے حق میں نیکیاں میسر آتی ہے۔
اگر ایک مسلمان شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوتا ہے تو اللہ رب العزت اس بندے کی ساری خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے ،اس کی تمام حاجات کو پورا کرتا ہے
اس کی فریاد کو سنتا ہے اور اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما کر اس کے حق میں ثواب لکھ دیتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری حدیث ہے “التائب من الذنب كمن لا ذنب له” کے گناہوں سے توبہ کرنے والا شخص اس طرح ہے جیسا کہ اس کے ایک بھی گناہ باقی نہ ہو۔
مگر افسوس! آج ہم گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں۔ قدم قدم پر رب کریم کی نافرمانیاں کررہے ہیں۔ ہماری صبح، ہماری شام، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے رحیم و مہربان پر وردگار کی بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کررکھا ہے۔ اس فانی، عارضی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمح نظر بنایا ہوا ہے۔ خوفِ ِخدا، فکر ِآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس معدوم ہوتا جارہا ہے۔
نتیجہ سامنے ہے۔ کثرتِ ذنوب نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ !
کورٹ میرج کرنا شرم ناک عمل ذمہ دار کون
مغربی تہذیب کی چند بے ہودہ رسمیں
حلال گوشت کے نام پراقتصادی جہاد کا نیا شگوفہ
مانتے ہیں لوگ بری عادتوں کا برا
حسد کی تباہ کاریاں اور ہمارا معاشرہ
جہیز کا سد باب نہ ہوا تو یقیناً یہ چنگاری شعلہ بن جائے گی
اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
حالاں کہ کتاب و سنت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیاے کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ کوئی فردِ بشر معصوم نہیں۔ ہر انسان سے خطا، لغزش اور غلطی کاصدور ہوسکتا ہے
لیکن بہترین خطار کار وہ ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کرلیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناپوچھے گا۔
یہی وجہ ہے صاحبانِ ایمان کو بار بار گناہوں کے ’’تریاق‘‘ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی دسیوں آیاتِ مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں، سیکڑوں احادیثِ مبارکہ میں انابت اور رجوع الیٰ اللہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے
بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے : ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘ پھر سچے دل سے استغفار و توبہ اور باری تعالیٰ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں۔
ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی، ہر غم سے دوری (کا سامان) پیدا فرمائیگا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیگا، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔‘‘ دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا: ’’(قیامت کے روز) جو شخص اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے ،اس کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘
۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا تھا: ’’اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا
جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی۔‘‘ (جواب میں) اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! میرے بلند مرتبے کی قسم!جب تک میرے بندے مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے ، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔‘‘ ۔
اور اللہ تبارک و تعالی نے استغفار کرنے والوں کے لئے بہت ساری آیتیں قرآن میں نازل فرمائی ہے اور ان کو استغفار کی طرف رغبت دلائی ہے کہ جو بھی بندہ مومن عقیدت کے ساتھ توبہ کرے اور سچی راہ پر چلنے کے لیے لازمی کے ساتھ کھڑے ہو وہ ہر میدان میں فتح یاب ہوتا ہے میں یہاں کچھ آیت کریمہ کو ذکر کرنا چاہتا ہوں : (غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ) ’’اللہ تعالیٰ گناہ کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول فرمانے والاسخت عذاب والا انعام و قدرت والا ہے
اس کے سوا کوئی معبودنہیں اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔‘‘ (فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَاْلاِبْکَارِ)کہ ’’پس اے نبی! توصبرکر اللہ کا وعدہ بلاشک وشبہ سچا ہی ہے،تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ۔ ‘‘ (وَاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً)کہ ’’اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو!بے شک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا ،مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘ (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّاباً)کہ
’’تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ،بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ یہ تمام آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک مسلمان سچے دل سے رب کریم کے حضور توبہ کرے تو بے شک اللہ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور اسے صالحین کے صفوں میں شامل کر دیتا ہے اور اسے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے جس سے وہ دنیائے فانی میں کامیاب ہوتا ہی ہے آخرت میں بھی کام یاب ہو جاتا ہے ۔
استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔ ظاہراً وباطناً خضوع وخشوع کا حصول ،کیونکہ جب انسان دل سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تب جا کر وہ توبہ کرتا ہے۔
نبی کریمﷺ کی اقتداء اور پیروی،کیوں کہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف
کیوں کہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے اور استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔
میں تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے کیے گئے اعمال شرمندہ ہوں اور اعمال کا محاسبہ کریں کہ ہمارا کونسا عمل کس راہ میں صحیح ہوا ہے اور کس راہ میں غلط ہوا ہے تاکہ آپ کو توبہ کرنے کی توفیق مل جائے اور نیکی کی راہ پر چلنے کی توفیق بھی مل جائے ۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت تمام مسلمان بھائی بہنوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے کیے گئے برے اعمال پہ شرمندہ ہو کر اپنے رب کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کی اللہ توفیق عطا فرمائے اور اس دنیا کی تمام مسلمانوں کو حق بولنے سننے اور کہنے کی اللہ تبارک و تعالی توفیق عطا فرمائے
محمد فداء المصطفٰے
ڈگری اسکالر : دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم کیرلا
fidaulmusthafa938@gmail.com
Good