ارتداد کی جانب قدم بڑھاتی مسلم لڑکیاں اور ہماری بے حسی
از قلم : آفتاب احمد منیری ارتداد کی جانب قدم بڑھاتی مسلم لڑکیاں اور ہماری بے حسی
ارتداد کی جانب قدم بڑھاتی مسلم لڑکیاں اور ہماری بے حسی
ہم جس دور پرفتن میں زندگی کے روز و شب بسر کر رہے ہیں ،ا س کی پیشن گوئی کرتے ہوے کبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے سامان بہم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جاے گی پردے کی یہ پہابندی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے
عقائد پر قیامت آے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے
حالیہ دنوں میں ملک کے طول عرض میں پیش آنے والے روح فرسا واقعات اور مسلم لڑکیوں میں تیزی کے سارھ پھیل رہے ارتداد کے اسباب پر غور کرتے ہیوے اچانک ہی مذکورہ اشعار ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگے۔
جس وقت اکبر نے یہاشعار کہے تھے خود انہیں بھی یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ قوم مسلم کی غیرت کا جانازہ اس طرح نکلے گا ۔ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے دین رحمت اسلامکی مقدس تعلیمات کواپنی زندگیوں سے نکال کر اپنی ذلت کا سامان خود ہی فراہم کیا ہے۔
جہاں تک اسلام دشمن عناصر کی ان مکروہ حرکتوں کا سوال ہے تو ہمیں ان سے کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اس لیے کہ آفرینش عالم طاغوتی طاقتیں اسلام کے خلام صف آرا رہی ہیں ۔
ہر دور ہر زمانے میں وہ نت نئے ہتھیار کے ساتھ قلعۂ اسلام پر حملہ آور ہوئی ہیں ۔ بقول شاعر :۔
ستیزۂ کا ر رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
لہذا جس قوم یا جماعت کی بنیاد ہی اسلام دشمنی پر رکھی گئی ہے اسے اپنی بربادی کے لیے قصوار ٹھہرانا ایک جذباتی قدام ہو سکتا ہے لیکم منطقی سطح پر ہمارا یہ رویہ مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا
اگر ہم واقعی مسلم لڑکیوں میں پھیل رہے ارتداد اور تباہی کی طرف بڑھ رہے ان کے قدم سے پریشان ہیں اور اس فتنے کا سد باب چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی مسلم بہنوں کی اخلاقی تربیت کا سامان کرنا ہوگا ان کے دلوإ میں دین کی محبت پیدا کرنی ہوگی۔
اس لیے کہ ہماری نئی نسل کا سب سے بنیادی المیہ یہ کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے وہ احکام شریعت سے محض رسمی طور وابسطہ ہے ان کی اس حالت کے ذمہ دار وہ نام نہاد روشن خیال والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں ڈال کر انہیں دیمی تعلیم سے بیگانہ کردیا۔
یہ بات محتاج محتاج نہیں کہ ہمارے یہاں نوے فیصد سے زیادہ اسکولوں کا نظام تعلیم مشرکانہ ہے جہاں ہماری قوم کے نونہالوں کو شرک کی تعلیم دے کر عقیدۂ توحید سے دور کردیا جاتا ہے۔
اس پرمستزاد ہ یہ کہ مخلوط نظام تعلیم کی برکتوں سے ہماری نوجوان نسل بے حیائی کے سمندر میں غوطے لگا رہی ہے ۔ اب ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے شریک حیات کے انتخاب میں شرعی ضابطوں کا احترام کریں گی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
چناں چہ اپنی ملی غیرت کو بچانے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم نسل نو کو اسلامی تربیت کی فکر کریں اس سلسلے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے اسلام نے ماں کی گود کو بچے کی اولین درس گاہ قرار دیا ہے۔ لہذا آج مسلم ماؤں کایہ فرض ہے کہ اپنی ذاتی مصروفیتوں سے کچھ وقت نکال کر خود دین سیکھیں ، عقیدہ توحید کی عظمتوں کو دل میں اتاریں اور سنت رسول ﷺ کو اپنے ماتھے کا جھومر بنائیں ۔
بعد ازاں اپنے بچوں کو قصےکہانیوں کے ذریعہ دین سے قریب کریں انہیں نبیوں کے قصے سنائیں اور انبیا کی سیرت کو بیان کرتے ہوے توحید کے تقاضوں کو سمجھائیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی پیاری پیاری سنتوں پر خود بھی عمل کریں اور پنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں ۔
اپنی بچیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں حیا کا سبق پڑھائیں اور اس سلسلے میں نازل ہونے والی قرآنی آیات و حدیث رسول ﷺ کا مفہوم پیارے و احسن طریقے سے سمجھائیں کفور الحاد کی آندھی میں بنت مشرق کے ایمان کے تحفظ کی سب سے بہترین صورت یہی ہے کہ انہیں احساس کرادیا جاے
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یہ واقعہ ہے جب تک قوم مسلم نے اللہ کی رسی کو مظبوطی کے ساتھ تھامے رکھا ، دنیا کی تمام شیطانی قوتیں مل کر بھی ان کا بال بیکا نہ کر سکیں ۔ لیکن جب انہوں نے دین کا دامن چھوڑ دیا اور دنیا کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو گیے تو ذلت و مسکنت ان کے اوپر تھوپ دی گئی۔
آج ملک کے مختلف حصوں سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی جو خبریں آرہی ہیں اس کا واحد سبب ان کے والدین کا ان کی دینی و اخلاقی تربیت سے مجرمانہ غفلت ہے اگر قوم کی اب بیٹیوں کی نشو نما دین کے سایۂ رحمت میں ہوئی ہوتی تو انہیں قرآن کا یہ فرمان یاد ہوتا:۔
اے نبی ! اپنی بیویوں بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرمادو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجاے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ( احزاب: ۵۹)۔
اور وہ ہرگز بھی اپنی حدود سے آگے نکل کر غیر مسلموں کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتیں اور شرم و حیا کو پامال کرتے ہوے انہیں اپنا رفیق سفر نہیں بناتیں ۔ اس لیے کہ تب ان کے دلوں میں حدیث رسول ﷺ کی قندیل روشن ہوتی جو انہیں شرک کے شر نجا ت عطا کرتی لیکن ہاے افسوس ! کہ:۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آج کے اس مشینی دور میں اطلاعاتی ٹکنالوجی کا ہوش ربا ترقہ نے جہاں ایک طرف ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں ہیں دوسری جانب شرم و حیا کا جنازہ نکال دیا ہے ملٹی میڈیا موبائل اور اسمارٹ فون کی برکتوں سے اب قوم کی بیٹیاں اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں
آج کے روشن خیال والدین کا حال یہ ہے وہ پڑھائی کے نام اپنی بچیوں کو موبائل لیپ ٹاپ خرید کر دے دیتے ہیں اور اس بات سے بالکل بے نیاز ہو جاتے ہیں کہ وہ بند کمرے کےا ندر کس شیطانی عمل میں مصروف ہیں ۔
ایک ایسے معاشرہ میں جہاں اسلام مخالف قوتیں ہر پل ہمارے ایمان پر ڈاکا ڈالنے میں مصروف ہیں ہمارا اپنی بچیوں کی تربیت سے غافل ہو جانا اپنی بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
یہ بات ہمیشہ یا درکھیں کہ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ایمان کا تحفظ اللہ کی رسی کو مظبوطی کے ساتھ تھامے بغیر نہیں کرسکتے ہیں اس لیے کہ موجودہ دور کی یہ مادی ترقی اپنے ساتھ فحاشی و عریانیت کا عذاب لے آتی ہے ۔ بقول شاعرمشرق:۔
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذٰب نے پھر اپنے درندوں کا ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یوروپ کی مشینوں کا سہارا
ایمان ہی وہ شئی ہے جو بے حیائی اور ارتداد کے اس طوفان میں ہماری ناخدائی کرسکتا ہے۔
لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے ہم نے مسلمان بیٹیوں کو ایمان سے قریب کرنے میں کتنی توانائی صرف کی ہے ؟ ۔
کیا ہم نےکبھی اپنی بیٹیوں کو حجاب کی فرضیت کے بارے میں بتایا ؟
کیا انہیں محرماو رغیر محرم رشتوں کی تفصیل بتائی، کیا کبھی ہم نے اس مسئلے پر ان سے سنجیدہ گفتگو کی کہ حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے اور رسول اللہ ﷺ نے حیا کو عورت کا سب سے قیمتی زیور قرار دیا ہے ۔
مذکورہ تمام سوالات ہمارے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ انسانی زندگی کے لیے آکسیجن ! لیکن شرم و افسوس کی بات یہ ہے کہ قوم مسلم کی دینی غیرت ابھی تک بیدار نہیں ہوئی ہے ۔
ایک طرف جہاں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کی باضابطہ پلاننگ چل رہی ہے ۔ کالج یونیورسٹیز میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں کو اپنے عشق کی جال میں پھنسانے کے لیے پورے ملک میں غیر مسلم لڑکوں کی ٹیم تیار کی جارہی ہے اور قوم کا دانش ور طبقہ خواب غفلت کی نیند سو رہا ہے ۔
خود تصور کیجیے کانوینٹ اور مشنریز کے اسکولوں سے نکل کر کالج اور یونیورسیٹز کا رخ کرنےوالی وہ مسلم لڑکیاں جو اسلام کے بنیای ارکان تک سے ناواقف ہیں ، جن کی ذہنی و اخلاقی نشوو نما عقیدہ توحید سے ناآشنا ایک مشرکانہ ماحول میں ہوئی ہے وہ بھلا کیوں کر ارتداد کے اس فتنے سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
ان کے نزدیک شادی محض اپنی جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کا نام ہے۔
جب انہیں ان کے والدین نے یہ بتایا ہی نہیں کہ نکاح محض اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں بلکہ ایمان کی تکمیل کا نام بھی ہے۔
یہی وہ ادارہ ہے جس سے جنسی بے راہ روی سے پاک ایک صالح معاشرہ کی بنیاد پڑتی ہے۔ ان سے توقع رکھنا کہ وہ اپنی شادی کے لئے کسی مسلم مرد کا انتخاب کریں گی ،خود کو فریب دینا ہے۔ فلم اور کھیل سے وابسطہ سینکڑوں مسلم لڑکیوں نے پہلکے بھی غیر مسلموں سے شادیاں کی ہیں اور انہیں اپنے فیصلے پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔
مخلوط تعلیم اوراسمارٹ فون کی بدولت ارتداد کا یہ فتنہ اب ہمارے گھروں تک پہنچ چکا ہے ان پر اپنی خدابیزار زندگی سے توبہ کریں اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کے سلسلے میں غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
مسلم تنظیموں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ دختران ملت کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل کی جانب پیش قدمی کریں
اس سلسلے میں چند انقلابی اقدامات کیے جاسکتے ہیں مثلاً۔
اپنے گھروں میں اسلامی ماحول پیدا کریں
اپنی بیٹیوں سے دوستانہ تعلق قائم کریں اور ان سے شرعی مسائل پر کھل کر باتیں کریں نیز ان کے سامنے اسلام میں عورتوں کے حقوق کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔
اپنی بیٹیوں کو امہات المؤمنین کے واقعات سنائیں اور ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کریں
مسلم ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسلامی حجاب کا پابند بنائیں
مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو بر وقت شادی کی ترغیب دلائیں
نئی نسل میں اسلامی احکام سے انحراف کا ایک سبب بروقت شادی کا نہ ہونا بھی ہے
مخلوط تعلیم گاہوں میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے مسلم تنظیموں کو جنوبی ریاستوں کی طرز پر خاتون مبلغین کی ٹیم تیار کرنی چاہیے جو گھر گھر جا کر دعور و تبلیغ کے فرائض انجام دے سکے اور اسلام کے خلاف ہو رہے پروپگینڈہ کا بھی منہ توڑ جواب دیں۔
مسلم معاشرہ کےلیے ناسور بن چکے جہیز کی ناجئز رسم کے خلاف علماے کرام کے ذریعے انقلابی مہم چلانی چاہیے تاکہ ان مسلم لڑکیوں کو مرتد ہونے سے بچایا جاسکے جو غربت و مفلسی کا شکار ہونے کے سبب بے دینی کے راستے پر چل پڑی ہیں
اخیر میں دعا ہے کہ رب کریم ہمیں دین سے وابستہ ہونے اور اپنے گھروں میں اسلامی ماحول قائم کرنے کی توفیق عطا فرماے تاکہ ہم مسلم بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرسکیں ۔
از قلم : آفتاب احمد منیری
استاذ : جامعہ سینئر سکنڈر اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی
ان مضامین کو پڑھ کر ضرور شئیر کریں
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی
Pingback: مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کی محبت کے جال میں پھنسنے سے بچیں ⋆ صابرالقادری فیضی جامعی
Pingback: خواتین کو موبائل سے دور رکھیں ⋆ اردو دنیا ⋆ از : محمد عباس الازہری
Pingback: ارتدادکی آندھی اسباب وحل ⋆ اردو دنیا تحریر: معین الدین رضوی مصباحی
Pingback: ہندوستانی آئین اور اس کے محافظین کی کارگزاریاں ⋆ اردو دنیا ⋆ محمد فداء المصطفے
Pingback: ہماری زندگی میں وقت و محنت کا اثر ⋆ اردو دنیا ⋆ محمد عادل کان پوری
Pingback: قیادت کی کام یابی میڈیا اور مسلمانوں کے کردار پر منحصر ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: پٹنہ ایس ایس پی کے بیان پر بی جے پی نے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ⋆ اردو دنیا نیوز
Pingback: حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل ⋆ عبداللہ بن عمر خان
Pingback: بنت حوا ارتداد کے دہانے پراسباب وحل ⋆ محمد جاويد رضا احسنی
Pingback: نئے سال کی آمد پہ گزشتہ سال کا احتساب بھی ضروری ⋆ علیزے نجف
Pingback: سال تو گذر گیا مگر ⋆ اظفر منصور