جہیز کا وبال اور شرعی احکام قسط دوم

Spread the love

جہیز کا وبال اور شرعی احکام قسط دوم  قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں 

سب سے بری اور گھناؤنی بات یہ کہ یہ ہندوانہ رسم ہے جو شرعی لحاظ سے ناجائز و حرام، نیز جہیز کی دو قسمیں ہیں ۔

(1): والدین اپنی بیٹی کو کچھ سازو سامان یا نقد روپیہ پیسہ وغیرہ خود اپنی رضا سے (بلا مطالبہ) دے تو وہ شرعاً جائز ہے بلکہ بہتر ہے لیکِن اسے سنت نبوی نہ کہا جائے جیسا کہ آج کل کچھ لوگ اپنی ناموری کے لیے اپنی بیٹی کو بہت زیادہ جہیز دیتے ہیں یہ جان کر کہ یہ سنت نبوی ہے (العیاذ باللہ)۔

یہ سراسر جہالت ہے فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ایک جگہ مرقوم ہے: اسے سنت نبوی قرار دینا جہالت ہے اس لیے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جو کچھ دیا تھا وہ مہر کی رقم سے خریدا گیا جسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نکاح سے پہلے ہی ادا کر دیا تھا ملخصاً(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء باب الجھاز ج 1 ص 567)۔

(2): لڑکے والے لڑکی والوں سے حسب خواہش نقد روپیہ اور سازوسامان کی فرمائش کرتے ہیں اور لڑکی والوں کو خواہی نخواہی مجبوراً اسے پورا کرنا پڑتا ہے ایسے جہیز اسلام میں سخت ناجائز وگناہ ہے بلکہ حرام ہے خواہ اس کی مقدار متعین کی گئی ہو یا نہیں، شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد، اس لیے کہ یہ رشوت کے مترادف ہے۔

حضرتِ فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد قادری امجدی رحمۃ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں: لڑکا یا اس کے گھر والوں کا شادی کرنے کے لیے نقد روپیہ یا سامان جہیز مانگنا یا موٹر سائیکل وغیرہ کا مطالبہ کرنا حرام و ناجائز ہے اس لیے کہ وہ رشوت ہے (ملخصاً) نیز فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت سے بچیں اور اپنی عاقبت خراب نہ کریں(فتاوی فیض الرسول: ج 2،ص683 ص684 ملخصاً)۔

جہیز عورت کی ملکیت ہے ؛ نوجوانان ملت آج کل جہیز کے سامان کو اپنا سمجھ کر بیوی کی اجازت کے بغیر صرف کررہے ہیں وہ جان لیں کہ وہ نرے جہالت میں بھٹک رہے ہیں اسی لیے کہ جہیز عورت کی ملکیت ہے بہار شریعت میں ہے: عورت کو ماں باپ کے یہاں سے جو جہیز ملتا ہے اس کی مالک عورت ہی ہے (جلد اوّل_ب : حصّہ5، ،930، مسئلہ36، ملخصاً) ۔

 

اور سیدنا اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں : جہیز عورت کی ملکیت ہوتا ہے اورجب شوہر اس کو طلاق دے دے وہ تمام جہیز لے لے گی، اور اگر عورت مرجائے تو جہیز اس کے وارثوں کو دیا جائے گا شوہر اس میں سے اپنے لئے کچھ بھی مختص نہیں کرسکتا (فتاویٰ رضویہ، ج 12، ص 201، ملخصاً)۔

مہر‘ شوہر پر واجب ہے؛ آج کل بعض ناسمجھ اور نافہم لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مہر چاہے جتنا ہو ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں آخر وہ میری شریک حیات جو ٹھہری۔۔۔۔“ان کا یہ خام خیال باطل محض ہے اسی لیے کہ مہر عورت کا ایسا حق ہے جس کو ادا کرنا شوہر پر واجب ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً » اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو“(سورة النساء: ۴)۔

دوسری آیت میں ارشاد ہے: وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِل ” اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاﺅ۔“(سورۃ البقرہ: ۱۸۸) اور حدیثِ پاک میں ہے: ”من اخذ شبرا من الارض ظلمافانہ یطوقہ یوم القیامة من سبع ارضین“ یعنی جس نے بالشت بھر زمین ظلماً لی (غصب کی) بروزِقیامت اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا- (مشکوة المصابیح، صفحہ 254، مطبوعہ کراچی)

یعنی اگر کوئی مرد مہر ادا نہیں کرتا اور بیوی اس کو معاف بھی نہیں کرتی تو قیامت کے دن وہ (مرد) مال کو غصب کرنے کے جرم میں گرفتار ہوگا ذرا غور فرمائیں!!۔

یہ انصاف کا کون سا پیمانہ ہے کہ جہیز جو نہ آپ کا حق ہے اور نہ ہی آپ کی ملکیت ، اس کا مطالبہ کرنا اور اس کو من چاہے انداز میں خرچ کرنا آپ کے لیے درست اور مہر جو کہ عورت کا جبری حق بھی ہے اور اس کی ملکیت بھی۔ لیکن اس کا اپنے اس جبری حق کا سوال بھی آپ کے نزدیک کسی گناہ عظیم سے کم نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق بخشے (آمین) بہن یا بیٹی کی وراثت نص قطعی ؛ جہیز دے کر کوئی یہ سمجھے کہ اُن کی بیٹی یا بہن وراثت سے محروم ہو گئی جہالت ہے بلکہ میراث میں اُنہیں شرعی حصہ سے محروم رکھنا اور بھائیوں کا سارے مال پر قبضہ کرلینا شدید حرام، کبیرہ گناہ اور قرآن کا مخالف ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے (سورۃالنساء،11)۔

اور حدیث شریف میں ہے: ”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،ص194،مطبوعہ کراچی)

نیز اس حوالے سے سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ الباری تحریر فرماتے ہیں :لڑکیوں کو حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے (فتاوی رضویہ،ج26،ص314،ملخصاً) ۔

خودکشی حرام ہے ؛ جو لڑکی جہیز کی وجہ سے اپنے ماں باپ کی عزت بچانے کیلئے خود کشی کرنے پر مجبور ہے یا اُن کو مجبور کیا جا رہا ہے ہر صورت میں یہ فعل مطلقاً حرام ،گناہ کبیرہ اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ عز وجل تم پر مہربان ہےاور جو ظلم و زیادَتی سے ایسا کرےگا، تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخِل کریں گے اور یہ اللہ عز وجل کو آسان ہے (سورۃ النساء ،آیت29،30)۔

اور بہار شریعت میں ایک جگہ مرقوم ہے: اگر اس کو مجبور کیا گیا کہ تو اپنا عضو کاٹ ڈال ورنہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا تو اس کو ایسا کرنے کی اجازت ہے اور اگر اس پر مجبور کیا گیا کہ تو خود کشی کر لے ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گا اس کو خود کشی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (جلد سوم: حصہ 15، ص193)۔

لڑکیوں کی نسل کشی روکا جائے ؛ جو لوگ جہیز کی ڈر سے شکم مادر میں دخترانِ ملت کی قتل کر رہے ہیں وہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن اور ملعون اعظم ہے قرآن حکیم میں صاف ارشاد ہے: ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نزرقہم و ایاکم ان قتلہم کان خطاء کبیرا۔ ترجمۃ:اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بے شک ان کا قتل بڑی خطا ہے (بنی اسرائیل 31)۔

ایک مقام پر اور ارشاد فرمایا: ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نزرقکم وایاہم ۔ ترجمہ: اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے (الانعام 151)

اور اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: یعنی تم اور تمہاری اولاد ہمارے بندے ہیں ان کا رزق ہمارے ذمہ کرم پر ہے تم کیوں انہیں قتل کرتے ہو۔؟ (نور العرفان)۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی تعلیمات پر چلنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص اس رسم جہیز سے ہمیں نفرت عطا فرمائے نیز جو لوگ ببانگِ دہل جہیز کا (ناجائز) مطالبہ کرتے ہیں اُنہیں ہدایت نصیب فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین واشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم۔

از قلم : محمد توصیف رضا قادری علیمی

(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانیک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند 

متعلم : دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *