مسائل میں گھری امت مسلمہ

Spread the love
 

مسائل میں گھری امت مسلمہ

ثناء الہدیٰ قاسمی ملت اسلامیہ کو اس وقت بے

پناہ مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی

بہت سارے مسائل کا حل خود ہمارے پاس موجود ہے اور ہم ا ن سے نمٹ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے عزم راسخ اوراولوالعزمی کی ضرورت ہے، جومسائل سرفہرست ہیں؛ ان میں دین بیزاری ہماری بے عملی اوربدعملی سب سے بڑا مسئلہ ہے ،نئی نسل جس تیزی سے دوسری تحریکوں اورافکار سے متاثر ہورہی ہے

ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اوراس کی وجہ سے ہمارے بچے بڑی تعداد میں اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ہماری بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادی رچا کر اپنے دین وایمان اور زندگی کا سودا کر رہی ہیں گھروں میں نماز، قرآن کا چرچا باقی نہیں رہا،

جمعہ کی نماز بھی دو رکعت تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔سنتوں کا اہتمام نہیں ، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گارجین حضرات خود بھی اسلام پر عمل کریں اور اپنے بچوں میں بھی ذوق پیدا کریں علما وصلحا کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اس کے مفید اورمثبت اثرات دل ودماغ پرپڑیں، اور شیطانی حربے ناکام ہوجائیں،

ضمن میں اسلامی تہذیب وثقافت سے دوری کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتاہے، کتنے گھروں کی آرائش وزیبائش اورسجاوٹ میں اسلامی انداز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ہماری وضع قطع کس قدر اسلامی تہذیب وثقافت سے میل کھاتی ہے،

وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہماری شادیات تلک جہیز اور گھوڑے جوڑے کے نام پر کس قدر دشوار ہوتی جارہی ہیں اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ پانی سر سے اونچاہو رہا ہے اور کسی کے کہنے سننے اور تحریک کا کوئی اثر سامنے نہیں آرہا ہے۔ اور نالی وہیں کی وہیں گر رہی ہے ۔دوسرا مسئلہ ہماری جہالت کا ہے،

امت جو تعلیم وتعلم کے نام پر اٹھائی گئی اورجس مذہب میں تعلیم کو فرض قراردیا گیا، اس امت کے بچے تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو کتنے افسو س کی بات ہے ،وہ امت جس کے نبی نے انما بعثت معلما کہہ کر اپنا تعارف کرایااس کے نونہال زری کے کارخانوں میں مزدوری، ہوٹلوں میں بیڑے کا اورکچڑے کے ڈھیر سے کچڑے چننے کاکام کریں، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔ ی

قینا دیہاتوں سے لے کر شہروں تک بیداری آئی ہے اورتیزی سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن اب بھی یہ ہماری تعداد کے اعتبار سے کم ہیں، جوادارے معیار ی ہیں ان کی فیس اتنی موٹی ہے کہ عام مسلمانوں کی پہنچ ہی وہاں تک نہیں ہوسکتی،لے دے کر تھوڑا بہت مدارس والے بچائے ہوئے ہیں

تو وہاں کی تعلیم کو معاشی سرگرمی کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا ہے اور ساری محنت مدارس کے بچے کو عصری تعلیم سے جوڑ نے کی چل رہی ہے حالاں کہ مسلمانوں کیپڑھنے والے بچوں میں سے صرف چار فی صد ہی مدارس کا رخ کرپاتے ہیں اگر ملی تنظیمیں ان چار فی صد کے علاوہ چھیانوے فی صد بچوں پر توجہ اور سر مایہ لگا یا جاتا تو انقلاب عظیم آسکتا ہے

لیکن اس طرف توجہ ذرا کم ہے ساری شاباشی اور واہ واہی ان اداروں کے حصے میں ہے جو مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد بچوں پر محنت کر کے عصری علوم کی طرف لے آویں یہ بھی ایک کام ہے لیکن عصری علوم پڑھنے والے طلبہ پر محنت کر کے انہیں آئی ایس آئی پی ایس بنانا اس سے بڑا کام ہی ضرورت ہے کہ جگہ جگہ مکاتب سے لے کراعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے جائیں ا

ورفیس وغیرہ ایسی رکھی جائے کہ اسکول کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے باقی رہے اور گارجین پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔ تیسرا مسئلہ ہماری معاشی واقتصادی کمزوری کا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں اوریہ دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں ک

ے لیے سرکاری سطح پرنوکری کی تلاش کے ساتھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے اپنی معاشی پسماندگی کودورکرسکیں ، دوسری صورت تجارت سے جڑنے کی ہے خواہ وہ چھوٹی گھریلو صنعت ہی کیوں نہ ہو۔ پونجی کے لیے بہت ساری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج بنانا ہوگا،

کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے تیار ہونا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکیموں کی اطلاع عوام تک پہنچانے کاکام کریں، اور لوگوں کی مددکے لیے آگے آئیں۔ چوتھا بڑا مسئلہ جمہوری اداروں میں نمائندگی کا ہے، آزادی کے بعد سے مسلسل پارلیمنٹ ، اسمبلی اورمقامی جمہوری اداروں میں ہماری نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے ، اس کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کارویہ ہے۔

مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اور بعد میں وہ اس مظلوم اقلیت کو بھول جاتے ہیں ، پارٹیوں میں جو ہمارے لیڈران ہیں وہ بھی پارٹی کے وفادار زیادہ اورملت کے وفادار کم ہوتے ہیں ،انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انھیں کوئی کومنل (Communal)نہ کہہ دے اس ڈرسے وہ بہت سارے جائز کام بھی مسلمانوں کاکرنے سے گریز کرتے ہیں،

ہمیں اس صورت حال کو بدلناہوگا، پارٹی نظریات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔مسلم رائے عامہ کواس کے لیے بیدار کرنا ہوگا تاکہ مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکے اس کے لیے ملّی تنظیمیں جولائحہ عمل بنائیں اور جن بنیادوں پروو ٹ دینے کی تجویز رکھیں ان پراعتماد کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہ

مارے اکابر کی نگاہیں دوررس ہیں اور یقینا ان کی جانب سے جو تجویز آئے اس پرسنجیدگی سے غور کیاجائے تاکہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ پانچواں مسئلہ زبان کی حفاظت کا ہے،یقینا زبان کسی مذہب کی خاص نہیں ہوتی ،اردو بھی یقینی طورپر مشترکہ زبان ہے؛ لیکن مسلمانوں کابڑا علمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے،

معاملہ میں سرکاری سطح پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور داخلی سطح پر بھی ہمیں اس بات کویقینی بنانا ہوگاکہ ہمارے بچے اردوپڑھیں ،ہمارے گھروں میں دوسری زبانوں کے اخبارات ورسائل کے ساتھ اردو کے اخبارات ورسائل بھی خرید کر پڑھے جائیں ہمار ی خط وکتابت کی زبان اردو ہو

، میں نے کہیں پہلے بھی لکھا ہے کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھروں میں ہار گئے ہیں ، ہمیں اس طرف خصوصیت سے توجہ دینی ہوگی۔ ایک بڑا مسئلہ بلکہ داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آپسی اختلافات کا ہے، چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل میں مسلمان شدید اختلافات کا شکار ہیں

، نماز نہیں پڑھتا لیکن آمین بالجہر والسر پر لڑے گا، درود شریف کا ورد نہیں کرے گا؛ لیکن کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر پڑھنے پر لاٹھیاں نکل آئیں گی ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا،کلمہ کی بنیاد پر اتحاد پیدا اکرنا ہوگا، اسی طرح ذات پات کی لعنت سے بھی ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا، نہ انفرادیت اورنہ فرقہ بندی، ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گزارنا،

اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ، ہماری طاقت کامحور ومرکز ہے۔ ہمیں ہرحال میں اس ہدف کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہئے اورہرقیمت پر کرناچاہیے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں سے ہونے والے فسادات، محکمہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش،

بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں میں ڈالا جانا، عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں باربار مداخلت ،سرکاری ملازمتوں سے انھیں دور رکھنے کی منظم کوششیں، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل یہ ملت کو درپیش چند مسائل ہیں،جنہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔

One thought on “مسائل میں گھری امت مسلمہ

Leave a reply

  • Default Comments (1)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *