آوازۂ لفظ و بیاں ایک مطالعہ

Spread the love

آوازۂ لفظ و بیاں ایک مطالعہ

(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیش کش)

ڈاکٹر احسان عالم 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سرزمین بہار کے ایک ایسے عالم دین ہیں جو تصنیف و تالیف کے کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ لگے ہیں۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ وہ ادبی موضوعات پر بھی قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کے تصنیفات وتالیفات کی تعداد تقریباً چالیس (۰۴) ہے۔ پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ ۲۲۰۲ء میں منظر عا م پر آئی ہے۔ ۴۰۳ صفحات پر مشتمل کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ چار ابواب اس طرح ہیں: باب اول: مذہبی بام دوم: ادبی باب سوم: تاریخی باب چہارم: تعلیمی چاروں ابواب کافی اہم ہیں۔

یہ ابواب ۳۰۱ مضامین سے مزین ہیں۔ ”آوازۂ لفظ وبیاں“ کے حوالے سے مفتی صاحب لکھتے ہیں:”آوازۂ لفظ و بیاں“ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف حضرات اور متنوع عنوانات پر لکھی گئی کتابوں پر تعارف،تبصرے، مقدمہ، پیش لفظ اور تنقید کے طور لکھے، یہ سارے مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب میں ”کتابوں کی دنیا“ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئے، بعد میں مختلف اخبارات و رسائل میں بھی ان کو جگہ مل گئی۔“(ص:۸)

پروفیسر صفدر امام قادری نے ”مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصر کی حیثیت سے“ عنوان کے تحت بہت ہی جامع تاثرات بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو انہوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قائم رکھا۔ امار ت شرعیہ کے ترجمان ”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔“

کتاب کے آغاز میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے ۵۵/ مذہبی کتابوں پر تاثراتی مضامین شامل کئے ہیں۔ یہ مضامین مختصر لیکن جامع انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔ پہلی کتاب ”خیر السیرفی سیرۃ خیر البشر“ کے عنوان سے ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ والی اللہ عبدالسبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے۔ جس کے ہر شعر سے ان کے قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ”شاہنامہ اسلام“ اورڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ”سیرت الرسول“ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔

”مقام محمود“ مولانا مفتی اختر امام عادل صاحت کی کتاب ہے۔ اس کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”مقا م محمود سیرت نبی ﷺ کی امتیازات و خصوصیات پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جسے موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب ’اسوۂ انسانیت، عالمی نبوت بین الاقوامی پیغمبر، عالمی رحمت، بے مثال صبر و عزیمت، عالمی انقلاب، عالمی پناہ گاہ اور عالمی دعوت کے عنوان سے ہے۔“

اسی طرح کئی مذہبی کتاب مثلاً ”پیارے نبی کی سنتیں، تصوف کا اجمالی جائزہ، سجدہ سہو کے مسائل، اسلام کا قانون طلاق، موت سے قبر تک کے احکام و مسائل، اسلام ہی کیوں؟، درس حدیث، ایمان کے شعبے، رسول اللہ کی بیٹیاں، داماد اور نواسے، نواسیاں، حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات، خطبات جمعہ، خطبات سبحانی، شرح در مختار، شراب: ایک تجزیاتی مطالعہ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ، دین اسلام اور اس کے پیغامات، پیارے نبی کی پیاری باتیں، ازدواجی زندگی، عبادت کا آسان طریقہ اور تصویر کشی فتاویٰ کی روشنی میں“ پر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تاثراتی مضامین قلم بند کئے ہیں۔ ان مضامین میں کتاب کی جھلک قارئین کے سامنے پیش کر دی گئی ہیں۔

”آوازۂ لفظ و بیاں“ کا دوسرا باب ادبی کتابوں پر تاثراتی مضامین سے مزین ہے۔ اس باب کا پہلا مضمون ”سِیرَ الصالحین“سے تعلق رکھتا ہے۔ شمالی بہار میں سلسلہ نقشبندیہ کے بافیض بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ الحاج شمس الہدیٰ دامت برکاتہم نے اس کتاب کو اپنے قلم سے سنورا ہے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”اس کتاب کا وہ حصہ سب سے دلچسپ لگا جہاں سے خود حضرت نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے، یہ حصہ اصلاً حضرت کے اسلوب نگارش، قدرت کلام، الفاظ کے مناسب انتخاب و استعمال کا بہترین نمونہ ہے، بعض جملے اور تعبیرات اس قدر بلیغ ہیں اور معنی کی ترسیل میں اس قدر تیز بھی کہ بے اختار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔“(ص:۲۵۱)

”سرمایہئ ملت کے نگہبان“ محتر م جناب مولانا عزیز الحسن صدیقی کی تخلیق ہے۔ وہ مشہور صاحب قلم ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت بھی مضبوط ہے۔ ان کے قلم سے نکلے مضامین، تجزیے، سوانحی خاکے پورے ملک میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ انہیں ہی موضوع بنائیں، جنہیں مولانا نے قریب سے دیکھا، برتا اور مختلف تحریکات میں ان حضرات کے ساتھ کام کرنے اور خدمت انجام دینے کاموقع ملا۔

 

”یادوں کے جھروکوں سے“ مولانا عبدالعلی فاروقی لکھنوی کی زندگی کے واقعات، حادثات اور تجربات پر مبنی تلخ و شیریں یادوں اور کم و بیش پچاس برسوں پر مشتمل یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مولانا عبدالعلی فاروقی اور ان کی کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلی فاروقی کو اللہ رب العزت نے تقریر و تحریر دونوں میں زبان وبیان پر بے پناہ قدرت بخشی ہے، وہ تقریر کرتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں اور لکھتے ہیں تو قاری پر ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے انہوں نے مدرسہ اور یونیورسٹی دونوں سے کسب فیض کیا ہے۔ فاضل دیوبند بھی ہے اور ایم بھی۔

کتاب ”تخلیق کی دہلیز پر“ فاروق اعظم قاسمی کے تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ فاروق صاحب کی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، انہوں نے ابواب کے عنوان کے بجائے ابجد و ہوز کے الف، با وغیرہ کا عنوان لگایا ہے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ وہ مختلف انداز کے مضامین کو ا س ضمن میں سمیٹ پائے۔

”پیام صباؔ“ کامران غنی صبا“ کا پہلا مجموعہئ کلام ہے۔ وہ فی الحال نتیشور کالج، مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی شعری اور نثری دونوں تخلیقات بہت ہی جامع ہوا کرتی ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کامران غنی صباؔ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”کامران غنی صباؔ نے اس کم عمری میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے ان کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے، مشق، ریاضت اور تجربات کی وسعت سے فکر و نظر اور فن میں پائیداری آتی ہے۔“

مولانا احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا مجموعہ کلام ”غبار شوق“ پر اپنے خیالات کا اظہار مفتی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:”غبار شوق ساجد قاسمی کا پہلا مجموعہئ کلام ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ساجد قاسمی دور طالب علمی سے شاعر کرتے رہے

لیکن انہوں نے اسے کبھی بھی ذریعہئ عزت نہیں بنایا اور نہیں سمجھا۔ انہوں نے پوری زندگی اس کش مکش میں گذار دیا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے چھپوایا بھی جائے یا نہیں، ہم لوگوں کے پیہم اصرار پر انہوں نے یہ ہمت جٹائی کہ یہ متاع گراں مایہ قاری کے حوالے کر سکیں۔“(ص:۷۸۱)

”چہرہ بولتا ہے“ ظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ہے جو ۰۴۲/ صفحات پر محیط ہے۔ ان کی کتاب کے تعلق سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”چہرہ بولتا ہے“ کی شاعری میں چہرہ بولے یا نہ بولے، زندگی بولتی، اچھلتی، کودتی، مچلتی نظر آتی ہے، اور زندگی کا یہ رخ کسے پسند نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ چہرہ بولتا ہے شعر وادب کی دنیا میں مقبول ہوگا۔“

فرد الحسن فرد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی تخلیق ”بے چار ے لوگ“ تحقیق، تنقید اور تاریخ کا مرقع بن چکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے تنقید کے اصولوں کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فرد الحسن فرد صاحب کے ا س مجموعہ میں ۴۱/ مضامین شامل ہیں۔

وہ مضامین انجم عظیم آبادی، فریاد شیر گھاٹوی، نصیر الدین حسین نصیر، وصی بلگرامی، مولانا عبدالرحمن، عبدالکریم، شین منظر پوری، ناوک حمزہ پوری، شبنم کمالی، قمر شیرگھاٹوی، مسلم عظیم آبادی، صادق شیر گھاٹوی، قسیم الحق گیاوی، اسلم سعدی پوری جیسے شعر اء و ادبا پر ہیں۔

”ادبی میزان“ مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت عشرت بیتاب کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”عشرت بیتاب صرف نقاد ہی نہیں، افسانہ نگار اورکہانی کار بھی ہیں، ادبی میزان میں انہوں نے پوری تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، ان کی تنقیدیں عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اس لیے تنقید کرتے وقت فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ انہیں الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور خیالات کی ترسیل کا بھی پورا پورا خیال رہتا ہے۔“

”سہرے کی ادبی معنویت“ ڈاکٹر امام اعظم کی تحقیق و ترتیب ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات رقم کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے لیے ترتیب و تہذیب کا عنوان لگایا ہے، یہ ان کی خاکساری ہے ورنہ یہ کتاب سہرے کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی۔ آپ اسے سہر ہ نگاران کی جامع ڈائرکٹری کہہ سکتے ہیں۔ جامع ا س لیے کہ اس میں ایک دو سہرہ کہنے والے بھی ان کی نگاہ سے بچ نہیں پائے ہیں۔“(ص:۷۳۲)

پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار ہندوستان کے قدآور اور زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت عالمی پیمانے پر بھی ہے۔ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے پروفیسر طرزی کی ایک کتاب ”دیدہ وران بہار“ پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:

”پانچ سو اکانوے صفحات پر مشتمل یہ ’دیدہ وران بہار‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلے اس کے مشمولات چار جلدوں کو محیط تھے، اب یہ چاروں جلدیں اس ایک جلد یں سماگئی ہیں۔ ان چاروں جلدوں کے مشمولات پر بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔

پہلے ایڈیشن میں جن حضرات کا تذکرہ چاروں جلد میں سے کسی میں نہیں آسکا تھا، ان کے تذکرے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علماء، شعرا، ادبا، نقاد، صحافی، قائدین، محققین، نامور اور گمنام سبھی جگہ پاگئے ہیں۔“(ص:۱۴۲)

”دُردِتہ جام“ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفرپور کی تخلیق ہے۔

ان موصوف کی آخری کتاب ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی تخلیقی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اصناف سخن پر گہری نظر کا عکس جمیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی صالح ادب برائے زندگی، بلکہ اسلامی ادب کو فروغ و پروان چڑھانے اور ان لوگوں کی قدردانی میں لگادی جو ا س کاز اور کام کے لیے سرگرم عمل رہے۔

انہوں نے چن چن کر ایسی شخصیات اور تصنیفات کو ہی بحث کا موضوع بنایا ہے جو ان کی اصلاحی اور اسلامی فکر سے قریب تر تھے۔“ باب سوم کے تحت دو مضامین ”درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی“ (ڈاکٹر عبدالودود قاسمی) اور ”تاریخ جامعہ عربیہ اشرف العلو م کنہواں“ ہیں۔

باب چہارم میں تعلیمی مضامین ہیں۔ اس باب کا پہلا تاثراتی مضمون کتاب ”قرآنی حقائق اور سائنسی انکشافات“ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محامد عبدالحی کی تخلیق ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے منفرد انداز میں رقم طراز ہیں:

”۲۵۱/ صفحات کی اس کتاب میں علم فلکیات، علم طب، علم الارضیات، علم الایجاد، علم حیوانات، قرآن اور نفسیات، قرآن اور نظریہ ارتقاء پر اکاسی عنوانات کے تحت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ سائنسی انکشافات قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہیں، بلکہ سائنس داں جہاں تک برسوں کے تحقیقات کے بعد آج پہونچے ہیں، قرآن نے ان حقائق کو چوہ سو انتالیس سال پہلے بیان کردیا تھا۔“(ص:۷۸۲)

اس باب کے دیگر مضامین ”تعلیم و تعلم۔ آداب و طریقے“، ”تحقیق و تحشیہ صفوۃ المصادر“، ”مدارس اسلامیہ اور جدید کاری کے تصورات“، ”شرح نایاب“ اور ”مسلم معاشرہ میں خواتین کا علمی وادبی ذوق“ کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔

اس طرح پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مذہبی، ادبی، تعلیمی، تاریخی کتابوں کے پیش لفظ، تقاریظ، تاثرات، تبصرات اور عملی تنقید پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب اردو شائقین کے ذریعہ پسند کی جائے گی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لئے مفتی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر احسان عالم

پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

موبائل:9431414808

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *