زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں

Spread the love

✍️ مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں : ہمارے بڑے ہم نوجوانوں سے کیا چاہتے ہیں

دہلی کے اس سفر کے تین مقاصد متعین کیے جاسکتے ہیں: 1 امت ایک کرب و اذیت سے دوچار ہے جس سے گلو خلاصی کا کوئی ساماں بظاہر نظر نہیں آتا، اس سلسلے میں اپنے بڑوں سے ملنا کہ ان کے پاس اس زبوں حالی کا کیا حل ہے، علمی، زمینی اور تحریکی سطح پر ہم نوجوانوں کو کون سا مشغلہ اپنانا چاہئے اور کس فیلڈ کو ترجیح دینا چاہیے

2 دورۂ مدارسِ ہند (خاموش ریسرچ انقلاب) کا ان اکابر سے اشتراک اور اس سلسلے میں ان کی آرا و معروضات سے استفادہ

3 تعلقات بنانا: زمانۂ طالب علمی میں ایک کمی یہ رہ گئی تھی کہ صلاحیت تھوڑی بہت بنابھی لی مگر اپنے بڑوں سے تعلقات استوار کرنے پر کبھی دھیان نہیں دیا، چوں کہ والد صاحب کے حکم پر کولہاپور روانہ ہونے میں پانچ چھ دن کا وقفہ تھا تو ہم نے اس کمی کو دور کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مہم کے لیے آصف بھائی اور عبدالمالک بلندشہری سے اچھا ساتھی اور کون ہوسکتا تھا، کیوں کہ آصف بھائی شیخٌ شابٌ اور بوڑھے جوان ہیں جن کی حیثیت چالیس کو چھوتی عمر، اپنے گوناگوں تجربات اور کثرتِ تعلقات کے لحاظ سے جوانوں میں بوڑھوں کی سی ہے، اور اپنے قلم کی ناقدانہ جولانی اور نئی نویلی شادی کے لحاظ سے بوڑھوں میں جوانوں کی سی ہے، ان کے ہم درسوں نے بتایا کہ چہرے کی نورانیت اور مسکراہٹ میں بیس سال کے عرصے میں صرف انیس بیس کا فرق آیا ہے، اور عبد المالک ایسی ہر دل عزیز اور ملنسار شخصیت کا مالک ہے کہ دہلی کی کوئی ایسی شخصیت نہیں جن سے عبد المالک کی واقفیت نہیں۔

اپنے جدید فضلا و طلبا سے بھی باصرار یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ جس میدان میں آپ نے کام کرنا ہے اس میدان کے بڑوں اور دھرندروں سے اپنے تعلقات ضرور بناکے رکھیں، ملاقاتیں کریں، آتے جاتے رہیں، ملتے جلتے رہیں، چاپلوسی ہماری فطرت میں نہیں یہ کہ کر صرف اپنی صلاحیت پر تکیہ نہ کریں ورنہ ہمیشہ منہ کی کھاتے رہیں گے، صراط الذین أنعمت علیھم والے فلسفے کو ہمیشہ دھیان میں رکھیں کہ سیدھے راستے پر چلنے کے لیے بھی لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ملاقاتِ اکابر کے اس سفر میں پہلے دن مولانا صفدر ندوی صاحب، ذاکر حسین کالج کے پروفیسر ڈاکٹر قاسم عادل صاحب، نوجوانوں میں ممتاز قلم کار نایاب حسن سیتامڑھی صاحب سے، دوسرے دن بہار واسی آرگنائزیشن کے ذمہ داران سے، تیسرے دن ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب، مشہور شاعر و مداحِ رسول جناب تابش مہدی صاحب، جناب اجمل فاروق صاحب، قدیم فاضلِ دیوبند جناب مسعود جاوید صاحب سے، اور چوتھے دن ہندو ازم کے ماہر مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب، نام ور دانش ور پروفیسر محسن عثمانی ندوی صاحب، انقلاب کے ایڈیٹر جناب ودود ساجد صاحب اور صاحب طرز ادیب جناب حقانی القاسمی صاحب جیسی قد آور شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

جن احباب اور سینئرز سے مستفید ہوئے ان میں مولانا جاوید قاسمی، مولانا حذیفہ چکنی سیتامڑھی اور درسی ساتھی مولانا آفتاب اساتذہ شمس العلوم شاہدرہ، مولانا امیر معاویہ دربھنگوی امام مسجد پہاڑی بھوجلہ، مفتی کلیم الدین قاسمی امام مسجد نزد کریم ہوٹل و اتالیق شعبان بخاری، گجرات فائلس کے مترجم ضیاء اللہ ندوی اور یحی ندوی صاحبان تھے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے ذمہ دار اور فعال و سرگرم کارکن مولانا صفدر ندوی صاحب سے علیک سلیک و تعارف کے بعد دورۂ مدارس کو لے کر سوالات و تحفظات اور پھر ان کے جوابات کا ایک عمدہ ڈسکشن چلا، کچھ مفید مشورے دئیے اور دعائیں بھی دی، مولانا کے مطابق نوجوان فضلا کو فقہِ مقارن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت مولانا خالد سیف اللہ صاحب واحد شخصیت ہیں جو فقہ مقارن پر بول اور لکھ رہے ہیں۔

عصر بعد ڈاکٹر قاسم عادل صاحب سے ملاقات ہوئی اور ابنائے ندوہ بہار کی سرگرمیوں پر گفتگو ہوئی

مغرب بعد نایاب حسن صاحب سے ملاقات ہوئی، دیوبند میں تھا تبھی نایاب بھائی نے کہا تھا کہ دلی آؤگے تو ملنا، یہ میرے لیے کسی سعادت سے کم نہیں تھا کیوں کہ نایاب بھائی کے متعلقین اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ لوگوں سے اختلاط کی بابت کتنا زہد و تقویٰ اختیار کئے رہتے ہیں، کہنے لگے اور مفکر صاحب خوب دورے اور میٹنگز کررہے ہو ماشاءاللہ، تھوڑی دیر کمرے میں بیٹھنے کے بعد وہ ہوٹل لے گیے چائے پلانے

بن خوری اور مے نوشی کے دوران دورۂ مدارسِ ہند، خاموش ریسرچ انقلاب اور اس کے لیے فنڈنگ کی کوششوں پر چرچا ہوئی، بہت سے مفید مشوروں سے مستفیض ہوا، فنڈ جمع کرنے کے لیے دو تین لوگوں کی جانب رہ نمائی فرمائی، نایاب بھائی کا دو ٹوک نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ تنظیم ونظیم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، دو تین سال متحرک اور اس کے بعد پھر ناپید ہوجاتی ہیں یہ تنظیمیں، یا پھر صدر سکریٹری کے انتخاب کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے، اس سے بہتر ہے آدمی اپنی بساط بھر انفرادی کوششیں کرتا رہے اور ایسے ہی لوگ زیادہ بڑے کارنامے انجام دے جاتے ہیں، اس نقطۂ نظر سے میں بھی بڑی حد تک متفق ہوں، روانہ ہونے کے دو تین منٹ کے بعد دوبارہ کال آئی کہ ارے میں بھول گیا وہ کتاب “ایک شخص دل ربا سا” لیتے جاؤ اب میں حیران و پریشان کہ نایاب بھائی نے کتابوں کی تقسیم کے وقت تو اتنا سخت رویہ اپنایا تھا کہ جس نے صرف طلب کیا اور ایڈریس بھیجا مگر رقم ٹرانسفر نہیں کی اس کو بھی کتاب ارسال نہیں کی مگر مجھے کتاب مفت میں دینے کے لیے کیسے بلالیا۔

یہ سوال داغنے سے پہلے ہی نایاب بھائی کہنے لگے ابھی تک صرف دو تین لوگوں کو ہی ہدیہ کیا ہوں یہ کتاب، چوں کہ تم بڑکے مفکر بننے والے ہو اور میں نے مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے اور وہ صرف مفکروں اور پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے والوں کو ہی کتاب ہدیہ دیتے تھے انہیں کا اتباع کرتے ہوئے تم کو دے رہا ہوں، میں تشکر و کورنش بجالایا، اور درخواست کی کہ اپنے ہاتھوں سے نام لکھ کر دستخط بھی کردیں، عرضی کو قبولیت ملی اور ہم فخر و شکر کے احساس کے ساتھ رخصت ہوئے۔

تیسرے دن ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کے ساتھ طویل نشست کے دوران، دورۂ مدارس، تاریخ یزید، نصاب اور میدان عمل جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے، ڈاکٹر صاحب نے کیرلا کے ایک جامعہ الاسلامیہ کا نصاب دکھایا جو بہت ہی جامع تھا۔

 

اسی طرح خود کا تیار کردہ نصاب بھی نظرنواز کیا اور مختصراً اس کی افادیت پر بھی روشنی ڈالی، جاتے وقت انہوں نے خوشی ظاہر کی کہ آپ تبدیلی کے خواہاں ہے اور تبدیلی لانے کے لیے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں اس پر میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر محی الدین صاحب نے نواجوانوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر دو میدانوں رد الحاد اور ہندو ازم پر کام کرنے کی تلقین فرمائی۔ ظہر کے بعد تابش مہدی صاحب سے ملاقات کے دوران اردو ادب، تقسیم دارالعلوم دیوبند کی روح فرسا داستان اور جماعت اسلامی کے ماضی و حال پر گفتگو ہوئی، جاتے وقت تابش صاحب نے اپنا شعری مجموعہ غزل خوانی نہیں جاتی، نعتیہ مجموعہ سلسبیل، کیسے کیسے لوگ اور روشنی کی جستجو از ڈاکٹر ثمینہ تابش بطور ہدیہ عنایت فرمائیں تھوڑی دیر کے بعد ان کے فرزند انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے ذمہ دار جناب اجمل فاروق صاحب سے بھی تشریف لائے ان سے بھی خوب گفت و شنید رہی

خصوصاً تصوف کے موضوع کو لے کر جس میں مجھے اور عبد المالک کو گہری دل چسپی ہے، ہمارا ماننا یہ ہے کہ نوجوانوں کو تقویتِ امت کے محض ظاہری اسباب پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ باطنی اسباب کے حصول کی خاطر کسی صاحب نسبت بزرگ سے ضرور بیعت ہوجانا چاہئے کیوں کہ موجودہ چیلنجز کا سامنا محض ظاہری اسباب کے تحت ممکن نہیں باطنی قوتوں پر گرفت بھی ضروری ہے، البتہ وہ مارکیٹنگ والے کاروباری پیر نہ ہوں بلکہ پیر ایسا ہو جو شخصی طور پر آپ کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکے، جنہوں نے خود اس مقام تک پہنچنے کے لیے شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ریاضت و مجاہدات کی پرپیچ وادیوں کی صحرا نوردی بھی کی ہو، اس سلسلے میں کچھ مشہور تو کچھ غیر مشہور صوفیاء کے نام بھی زیر بحث آئے، دعا فرمائیں کہ اللہ ہماری ظاہری و باطنی اصلاح فرماکر ہمارے قلوب کو نورِ معرفت سے بھردے۔

اتوار کی شام کو فقہ اکیڈمی میں مولانا خالد سیف اللہ صاحب کے محاضرہ “اسلاموفوبیا اور علما کی ذمہ داریاں” کے عنوان پر ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں شرکت کے بعد ہم مسعود جاوید صاحب سے ملنے گئے، موصوف دارالعلوم کے قدیم فضلا میں سے ہیں، فیسبک پر جن لکھنے والوں کو ہم سنجیدہ اور فکری قلم کاروں میں شمار کرتے ہیں، مسعود صاحب ان میں سے ایک ہیں، ان کی تحریریں حال پر رونے سے زیادہ حل بتانے پر مرکوز ہوتی ہیں، واقعات کا دانش ورانہ تجزیہ کرتے ہیں، یہ ملاقات ذرا مختصر رہی کیوں کہ ہم تھک چکے تھے

البتہ اس دوران انہوں نے ہمیں توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ بہت بڑے بڑے کام کرنے یا تحریکیں چلانے کی ضرورت نہیں، بس اپنی استطاعت کے بقدر چھوٹے چھوٹے کاموں سے شروعات کریں مثلاً “یک معلمی غیر منظم اسکول” یعنی غریب بچوں کو جو کسی بناپر اسکول جانے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے لیے ہم خود کاپی قلم کتاب کا انتظام کریں، اور گھر کے سامنے دالان میں، ہال میں یا درخت کے نیچے مفت میں پڑھانا شروع کردیں تاکہ وہ اوپن اسکول سے امتحان دے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

آخری دن پیر کو ہم صبح گیارہ بجے کے قریب مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب کے پاس مسلم مجلس مشاورت کے دفتر پہونچے، مولانا ہندو ازم پر علما میں سب سے زیادہ درک رکھنے والی شخصیت ہیں، تو اسی موضوع پر ہم ان سے بات کرنے گئے تھے، دورۂ مدارس کا خاکہ پیش کرنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ مدارس میں ہندوازم کو پڑھائے جانے کے تعلق سے نصاب سازی کے سلسلے میں رہنمائی فرمائیں تاکہ چھوٹی سطح پر ہی سہی چند مدارس کے اندر ہندو ازم کو بطور کورس یا پھر بطور محاضرہ پڑھایا جاسکے، مولانا نے اپنی گوناگوں مصروفیات کا عذر پیش کرکے فرمایا کہ آپ خود سے کورس تیار کرکے واٹس ایپ پہ اگر بھیج دیں تو تھوڑی بہت رہنمائی کرسکتا ہوں۔

مولانا کا کہنا یہ تھا کہ اس وقت تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے ہندوستانیوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے جو دائیں بازو کے مؤرخین مثلا یادو ناتھ سرکار وغیرہ نے لکھی ہے، تاریخ کے موضوع پر انہیں کی کتابیں داخل نصاب ہیں، صرف بائیں بازو کے معدودے چند مؤرخین مثلا رومیلا تھاپر وغیرہ نے تاریخ کے ساتھ تھوڑا بہت انصاف سے کام لیا ہے ورنہ سارے مؤرخین نے مسلمانوں اور بادشاہوں کے تاریخی کردار کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے، ہمارے اردو و فارسی مؤرخین نے بھی اس سلسلے میں بہت تساہل پسندی سے کام لیا اور الفاظ کا صحیح استعمال نہ کرکے ہندو مؤرخین کو ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔

اسی دوران مولانا کے پاس ایک نیوز چینل کی جانب سے ڈبیٹ میں شرکت کے لیے فون بھی آیا مگر انہوں نے صاف منع کردیا یہ کہ کر کہ ملی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو ڈبیٹ میں حصہ نہ لینے کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کیوں کہ وہاں صرف یک طرفہ تماشا جاری رہتا ہے، ہمیں یا تو نیگیٹو دکھایا جاتا ہے یا پھر بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

بہرحال مولانا کے مطابق ضرورت ہے کہ ہندو ازم کو باضابطہ اپنے مطالعے کا حصہ بنایا جائے اور ہندی اور انگریزی میں تاریخ پہ دوبارہ باریک بینی سے ادارے کی سطح پر ریسرچ کا کام ہو تاکہ شیولنگ، گیان واپی، اور اورنگ زیب جیسے متنازعہ موضوعات پہ ٹھوس طریقے سے اپنی بات رکھی جاسکے، اور انہوں نے دو تین مثالیں بھی دی کہ کس طرح ہم نے تاریخی ریسرچ کی بنیاد پر ڈبیٹس میں نفرتی عناصر کو خاموش کیا، یہ پوچھے جانے پر کہ آپ اپنے بعد کسے اس موضوع پر اپنا جانشین چھوڑ کر جارہے ہیں، جواب آیا کہ اس کے لیے اچھا خاصا وقت فارغ کرنے اور ڈھیر سارے وسائل کی ضرورت ہے، اور اب نہ کوئی اتنا وقت دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کوئی اس چیز کے لیے پیسے خرچ کرنا چاہتا ہے، بس ہم سے انفرادی سطح پر جتنا ہوپارہا ہے کررہے ہیں۔

یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ طلبا و فضلا تو دور اپنے اپنے میدانوں کے متخصصین و ماہرین کے لیے بھی ہم وسائل فراہم کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ریسرچ کا کام ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ یہ نشست بہت معلوماتی رہی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا، دعا ہے کہ ہمیں مولانا سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق ملے۔

ظہر کے بعد پروفیسر محسن عثمانی ندوی کے دولت کدہ پر جانا ہوا، پروفیسر صاحب کے افکار و تحاریر کی بنیاد پر ان کے دیدار اور بالمشافہ استفادے کی ایک دیرینہ خواہش تھی جو الحمدللہ آج پوری ہوئی، پروفیسر صاحب نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ میں اپنی عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کو ہورہی ان پریشانیوں کا واحد حل یہ کہ ہندوؤں میں چل پھر کر زمینی سطح پر نبیوں کے مشن یعنی دعوت دین کا کام کیا جائے، خدمت خلق اور اپنے اخلاق کے ذریعے انہیں اپنے سے قریب کیا جائے

مسجدوں میں بلاکر ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے، دوسری اہم چیز یہ ہے کہ نبیوں کو اللہ نے ہمیشہ جس قوم کی طرف بھیجا اسی قوم کی زبان میں ان سے دعوت دلوائی و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ، لیکن اب ہم عالم و فاضل ہوجانے کے باوجود ہندوؤں کو ان کی زبان میں دعوت دینے پر قادر نہیں ہوپاتے۔

لہذا اب ہندی کو ہمیں دعوت کی زبان کے طور اپنانا ہوگا۔ میں نے درخواست کیا کہ علمی سطح پر اگر کوئی کام کرنا چاہوں تو موجودہ حالات کے لحاظ سے آپ کیا مشورہ دیں گے تو پروفیسر صاحب نے کہا کہ صباح الدین عبد الرحمن صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے “اسلام اور رواداری” جس میں پوری تاریخ کو کھنگال کر مسلمانوں کے ہندوؤں کے ساتھ حسن کردار کے واقعات و مثالیں جمع کی ہیں، میں تو اسے پڑھ پڑھ کر جھوم جاتا ہوں آپ چوں کہ مرکز المعارف کے فارغ ہیں تو اسے انگریزی و ہندی میں ترجمہ کردیں تو ہندو اور مسلمانوں کے بیچ کی خلیج پاٹنے میں یہ کام بہت ہی مفید و مؤثر ثابت ہوگا ان شاءاللہ۔

اس کے بعد شام پانج بجے ہم نوئیڈا میں واقع انقلاب کے دفتر میں چیف ایڈیٹر ودود ساجد صاحب سے ملنے گئے، موصوف مظاہر العلوم کے قدیم فارغین میں سے ہیں، انہوں نے کھجور اور ٹھنڈے پانی سے ہمارا استقبال کیا، اپنے زمانۂ طالب علمی اور اساتذہ کے بارے میں پرانی یادوں کا ہمارے ساتھ اشتراک کیا، دختر نیک اختر کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ میوزیولوجی کا فن مسلمانوں کو پڑھنا چاہئے، کیوں کہ یہ وہ فیلڈ ہے جس کا تعلق تاریخ اور قدیم ورثے سے ہے، وہاں ڈائیرکٹ عالمی حکومتوں اور بین الاقوامی ریسرچ کرنے والوں سے پالا پڑتا ہے اس لیے اکثریتی طبقہ نہیں چاہتا کہ وہاں مسلم نمائندے ہوں، وہ اس پورے کورس میں واحد مسلم تھی، اس لیے یہ کورس ہمیں اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔

بات جب اکابر پر آصف بھائی کی تنقید کی طرف چل پڑی تو ودود سر نے کہا کہ کچھ باتیں دھیان میں رکھیں ایک تو یہ کہ اپنے بڑوں پر اعتماد بنائے رکھیں ان کو بے جا برا بھلا نہ کہیں کیوں کہ اس ٹوٹی پھوٹی نیا کے کھیون ہار وہی ہیں جنہوں نے اسے سنبھالا دے رکھا ہے اگر یہ نہ ہوں تو شاید اس سے بھی ابتر حالت ہو جائے ہماری، دوسرے اس اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ سوشل میڈیا پر لکھتے وقت ہمیشہ محتاط الفاظ استعمال کیا کریں کیوں کہ اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلمانوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے، اس لیے اس وقت تھوڑا احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

ہماری آخری ملاقات حقانی القاسمی صاحب سے ہوئی، سچ کہوں تو حقانی صاحب قلم کے جتنے بڑے شہ سوار ہیں مزاج کے اعتبار سے اتنے ہی متواضع، نیک خو، اور ملنسار ہیں، جس خوش اخلاقی کا سبق ہم ودود سر کے پاس سے لے کر آئے، حقانی صاحب کا سراپا اس کا پیکرِ مجسم پایا، پہلی ملاقات میں ہی اتنی بے تکلفی ایک فطرتا شریف اور خوش طبع انسان ہی روا رکھ سکتا ہے، ظریف الطبع اتنے کہ ایک گھنٹے کی نشست میں ہنستے ہنستے میرے تو پیٹ میں میٹھا میٹھا درد ہونے لگا۔

ہمیں بڑی اپنائیت سی محسوس ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ زمانۂ طالب علمی میں انہیں ملحد وغیرہ جیسے القاب سے نوازا جاچکا ہے کیوں کہ انہوں نے اس وقت کے رائج افکار و رجحانات کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔

خیر جب ہم نے ان سے پوچھا کہ ہم نوجوانوں کو قوم کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کس میدان کو ترجیح دینا چاہیے، حقانی صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ قوم کو آپ کی اور میری کوئی ضرورت نہیں ہے کچھ سالوں پہلے تک میرے دماغ میں بھی یہ سودا سمایا تھا کہ قوم کو میری ضرورت ہے لیکن یہ بس خام خیالی ہے آپ کو جس میدان سے دل چسپی ہو اس میں لگیں اور ماہر بننے کی کوشش کریں۔

اسی طرح اماموں کی تربیت کی بہت ضرورت ہے کہ کب کیا کیسے بولنا ہے، ایک امام صاحب پولیس اسٹیشن کے سامنے مائک میں و قاتلوا المشرکین کافۃ اور قاتلوا الذین یلونکم من الکفار جیسی آیتوں پر بیان کررہے تھے اب ایک غیر مسلم تو کفار سے یہی سمجھے گا کہ ہمارے بارے میں بات کی جارہی ہے، اسی طرح ایک امام صاحب جمعہ کے بیان میں نحوی ترکیب کررہے تھے، اب عوام کو کیا ضرورت ہے نحوی ترکیب کی۔

اخیر میں انہوں نے ہمیں ترغیب دی کہ لکھنے کی عادت ڈالیں اور سرکاری جرائد و ماہنامے مثلاً اردو دنیا وغیرہ میں شائع کروائیں، اس سے تھوڑی بہت کمائی بھی ہوجایا کرے گی، اسی طرح ہر سال سرکار کی طرف سے ایک بجٹ مختص کیا جاتا ہے کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے، آپ حضرات بھی اس میں حصہ لیں، سرکاری اسکیموں سے آپ نہیں فائدہ اٹھائیں گے تو وہ لوگ اٹھالیں گے جن کو اشاعت کے لئے کسی امداد کی ضرورت نہیں۔ بات سمیٹی جائے تو اس سفر میں اپنے اور اپنے نوجوانوں کے لیے جو پیغام ملے وہ درج ذیل ہیں: اپنے بڑوں سے تعلقات بنائے رکھنا، فقہِ مقارن پر کام، تنظیمیں بنانے کے بجائے انفرادی کاموں کو ترجیح، مسلسل مثبت تبدیلی کا جذبہ اپنے دلوں میں موجزن رکھنا، جدید تقاضوں کے مطابق بہتر سے بہتر نصاب کی تشکیل، ردِ الحاد، ہندو ازم پر ریسرچ، جوانی میں ہی خود کو کسی صاحب ریاضت و نسبت پیر سے منسلک کرنا، اپنی وسعت کے بقدر چھوٹے چھوٹے خیر و خدمت خلق کے کاموں میں دل چسپی لینا

ہندی اور انگریزی میں تاریخِ ہند پر از سر نو غیر جانب دارانہ ریسرچ، غیر مسلموں کو مسجدوں میں بلاکر، حسن اخلاق اور خدمت خلق کے ذریعے دعوت دین کا کام کرنا اور ان کو اپنے قریب کرنا، لسان قوم یعنی ہندی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا، علمی سے زیادہ زمینی سطح پر لوگوں میں چل پھر کر کام کرنے کو ترجیح دینا، صباح الدین عبد الرحمٰن صاحب کی کتاب اسلام اور رواداری کا ہندی اور انگریزی میں ترجمہ و ترویج، میوزیولوجی Museology، اپنے اکابر پر بے جا تنقید سے باز آنا، حسنِ اخلاق کا پیکر بننا، سوشل میڈیا پر محتاط الفاظ کا استعمال، اماموں کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بیان کرنا، لکھنے پڑھنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا، اور سرکاری مراعات سے واقفیت اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا۔

دو بونس مشورے میری طرف سے بھی کہ اپنے بڑوں سے تعلقات بڑھائیں کہ یہ لوگ مستقبل میں آپ کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال کے لیے بہت کام آئیں گے، ایک ریسرچ کے مطابق پروفیشنلزم کا چرچا اتنا عام ہونے کے باوجود آج بھی جاب کے لیے ملازموں کا ستر فیصد انتخاب پرسنل ریکمینڈیشن اور ذاتی تعارف و تجویز کی بنا پر کیا جاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ فیسبک بہت ہی عمدہ پلیٹ فارم ہے، اسے ہنسی مذاق اور انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کرنے سے زیادہ لکھنے پڑھنے میں صرف کیا جائے تو بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ کئی بڑے ایسے ملے جن کے بارے میں وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے جانتے ہوں گے البتہ ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ فیسبک اور واٹس گروپس میں آپ کی انوکھی اور فکری تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں، واقعی دل خوش ہوگیا یہ سن کر۔

یہ مشوروں اور ترجیحات کے وہ انمول موتی ہیں جو ان بڑوں نے اپنے چالیس پچاس سالہ تجربات کے بعد ہمارے سامنے رکھے ہیں ، جن شخصیات اور ان کی آرا کو جمع کرنے کے لیے شاید ایک بڑے کانفرنس اور لاکھوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ۔

لیکن رب العالمین نے ہمیں تھوڑی سی محنت کے بدلے ہی یہ درِّ بے بہا عنایت فرمائے اس لیے ان کی قدر کی جانی چاہیے اور اپنی اپنی دل چسپی کے لحاظ سے ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔

مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی

7070552322