علامہ عبد الشکور مصباحی جہانِ تدریس کا سہل ممتنع
” علامہ عبد الشکور مصباحی جہانِ تدریس کا سہل ممتنع “
سہل ممتنع : اس کا مطلب ہے اظہارِ بیان کا سادہ پیرایہ، جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جائے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش نہ ہو۔ اگر جہان تدریس میں کسی شخصیت کے لیے سہل ممتنع کا استعارہ کیا جائے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ یہ استعارہ مربی ومشفق، چشمۂ فیض، استاذ الاساتذہ ،محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے لیے انتہائی موزوں اور مناسب ہوگا۔
محدث جلیل کی زندگی تقوی, طہارت، سادگی، بلند اخلاقی, اعلی ظرفی، علمی تبحر، حکمت و فراست کا بلند نمونہ تھی ۔ لیکن انتہائی سادہ، آسان اور مختصر الفاظ میں مشکل ترین سمجھے جانے والے ادق اور پیچیدہ فنون و مباحث نہ صرف طلبہ کو سمجھا دینا، بلکہ ہمیشہ کے لیے ان کے لوح قلب پر نقش فرما دینا آپ کا ایک ایسا نمایاں وصف تھا جس میں آپ کا شریک وسہیم دور دور تک نظر نہیں آتا۔
آج رحلت کی جاں گزیں خبر آئی تو ذہن میں بہت ساری بے ربط یادیں بھی چھوڑ گئی ۔ جب انھیں ترتیب دیتا ہوں تو دیکھتا ہوں ابھی صبح صبح ناشتہ کرنے کے لیے عزیزی ہاسٹل سے باہر نکلا ہوں توہمیشہ کی طرح موسم کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر پابندی وقت کے ساتھ ایک پروقار شخصیت اپنے علمی جاہ وجلال کے ساتھ اسمبلی (یعنی صلاۃ وسلام ) میں موجود مسکراتی نظر آ رہی ہے۔
تھوڑا آگے بڑھتا ہوں تو اسٹاف روم میں اسی ماہتاب علم کو جلوہ افروز دیکھتا ہو ں ، جس کے ارد گرد اپنے اشکالات حل کروانے والے ہالہ بنائے کھڑے ہیں، نئے اساتذہ کو علمی اشکال کاجواب بھی مل رہا ہے، اور تفہیم کا طریقہ بھی بتایا جا رہا ہے، تربیت بھی ہو رہی ہے۔ مشکلات کا حل پانے والے جلدی جلدی اپنی درس گاہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں ۔
اچانک رعب و و قار مگر شفقت سے لبریز یہ جملہ کان میں پڑتا ہے” میں جب رات میں مطالعہ کرتا ہوں تو مطالعہ کرنے کے بعد اس پر بھی غور کرتا ہوں کہ کل طلبہ کو آسان انداز میں یہ سبق سمجھانا کیسے ہے؟ “۔
تھوڑا اور آگے بڑھا تو اپنے کانپتے ہاتھوں میں درس نظامی کی معرکۃ الآرا کتاب “ملاحسن” دیکھتا ہوں، جس کے پڑھنے کا شوق بھی ہے اور نہ سمجھ آنے کا ڈر بھی، لیکن زہے نصیب یہاں بھی وہی شخصیت مسند تدریس پر جلوہ ا فروز ہے، عبارت خوانی کرنے والے طالب علم کی حوصلہ افزائی کے بعد تمام طلبہ کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے آسان، شستہ ، سادہ اور دلنشیں الفاط میں تمھیدی گفتگو ہو رہی ہے ۔
جہان علم کے نئے دریچے بھی کھلتے جا رہےہیں اور رات مطالعہ میں انتہائی مضبوط اور لاینحل سمجھ میں آنے اعتراضات ،شکوک وشبہات بھی ریت کا محل ثابت ہوتے جا رہے ہیں ۔ ابھی تقریر مکمل بھی نہیں ہوئی کہ کہیں سے اعتراض ہواہے، سارے چہروں میں مسکراہٹ پھیل گئی ہے کہ جواب بعد میں ملے گا، پہلےشفققت و محبت اور حوصلہ افزائی سے لبریز جملہ “شاباش بہت اچھا اعتراض کیا، شاباش” سنائی دے گا۔ جو طالب علم کو فخر و ناز تشکر وامتنان کے سانچے میں ڈال کر ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر بنا لے گا۔
یہ لیجئے “مِنطقہ” کی بحث آئی ہے اور فورا ہاتھ میں موجود” دستی تولیہ” کو” گیند” بنا کر اس کی حسی، بصری مثال بھی پیش کر دی گئی۔ یریڈ ختم ہوا باہر نکلا تو اپنے آگے چلتے ہوئے دو دوستوں کا خوشی میں ڈوبا مکالمہ سن رہا ہوں، بھائی اب کتاب اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ دوسرا حیرت سے پوچھتا ہے کیوں؟؟؟ پہلا جواب دیتا ہے کیونکہ سبق تو درس گاہ میں ہی یادہو گیا ہے۔ اب پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔
یاد ماضی نے کچھ اور اوراق الٹ دیے ہیں، ہاتھ میں بخاری شریف لیے کھڑا ہوں، پہلی منزل پر مادر علمی کا تقریبا 120 فٹ اونچا، عظیم الشان ، پر شکوہ گنبد ”دورۃ الحدیث“ کے طلبہ کے لیے خاص ہے۔ جس میں پڑھنے کی خواہش پہلے ہی دن سے ہر طالب علم کے سینے میں نہاں ہے۔
بڑھتی عمر کے مطالبے بھی بڑھ گئے ہیں مگر عزم وحوصلہ ،جذبہ وہمت کا یہ سیل رواں ، ضعیفی کے باوجو د گھٹنوں میں ہاتھ رکھ کر دو دو مرتبہ سیڑھیاں چڑھتا نظر آتا ہے ، بیماریاں ،مصیبتیں تو کبھی اس مرد آہن کی راہ میں رکاوٹ بن ہی نہ سکی تھیں، چاہے وہ وقت پر جامعہ پہنچنا ہو یا درجہ پڑھانا ہو ۔
درس گاہ مکمل بھری ہوئی ہے، امنگ وشوق کے ساتھ طلبہ درس بخاری میں حاضر ہیں، مسند تدریس پیچھے رکھنے کے بجائے ڈیکس کے اوپر رکھی گئی اور رعب و وقار کے ساتھ” قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” سے درس کا آغاز ہوتا ہے، اور ایک مسحور کن فضا قائم ہوجاتی ہے، اب نصاب کا خیال کرکے تشریح بھی ہو رہی ہے،فقہی مذاہب کا بیان بھی ہورہا ہے، اسماے رجال پر بھی گفتگو جاری ہے، اعتراضات کے جوابات بھی مل رہے ہیں، اخلاقی تربیت بھی کی جا رہی ہے۔
ابھی ایک باب مکمل ہو ا دوسرا باب شروع کرنا چاہتے ہیں، اچانک پر وقار آواز گونج اٹھتی ہے، جس میں منصب تدریس کے ساتھ انصاف ، بزرگوں کی اتباع اور اصول و پاسداری ، عاجزی انکساری سب ہی جھلکتی ہے۔ ” بس آج یہیں تک مطالعہ کیا ہے”۔
اللہ! کیا انھیں بھی مطالعہ کی ضرورت پڑتی ہے؟ سوال ذہن میں آتے ہی جواب بھی مل جاتا “بخاری تو بہت دور کی بات ہے بغیر مطالعہ کے توقاعدہ بغدادی بھی نہیں پڑھاؤں گا۔ ” یہی ہمارے بزرگوں کا طریقہ بھی ہے اور وصیت بھی۔
اب درس گاہ کا وقت ختم ہو گیا ہے کھانے کے لوازمات لینے باہر نکلا ہوں تو دیکھتا ہوں باب حافظ ملت کے باہر سخت دھوپ، یا ہزاروں نوجوانوں کو لقمہ تر بنانے والی سردی میں وہی شخصیت کھڑی “شیئرنگ آٹو” کاا نتظار کر رہی ہے۔
کئی آٹو آئے اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بغیر رکے آگے بڑھ گئے کبھی دس منٹ گزر گئے کبھی کم یا زیادہ لیکن وہ مرد مجاہد بےنیاز اپنی قلندرانہ شان کے ساتھ کھڑا ہے، اب ایک آٹو آکر رکا اور سواریوں سے بھری اس اٹو میں بے نیازانہ شان کے ساتھ قصبہ مبارک پور کی طرف چل پڑا، جہاں نماز بھی پڑھنی ہے اور امامت بھی کرنی ہے۔
سیکڑوں یادیں ہوں گی، جو جامعہ اشرفیہ میں پڑھنے والے طلبہ کی ان سے وابستہ تھیں، یہ تو وہ ہیں جو ہم سب کے ساتھ مشترک تھیں، آج وہ ہم میں نہیں لیکن جب بھی یا آئیں گے احسان و تشکر، اخلاص وللہیت کے اس کوہ بیکراں کے لیے ہماری گردنیں جھک جائیں گی۔
سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا
محمد شفیق الرحمن
مجلس تعلیمی امور
دعوت اسلامی انڈیا