غداری کی زنجیر
غداری کی زنجیر ودودساجد (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
یہ کالم بھی سفر میں ہی لکھنا پڑرہا ہے۔۔ گزشتہ 11 مئی کو سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند میں غداری کی دفعہ 124 (اے) کے تعلق سے جس ’تاریخی جرات‘ کا مظاہرہ کیا اس کا سہرا حکومت اپنے سر باندھنا چاہتی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔
سپریم کورٹ نے بیک جنبش قلم دو محاذوں پرفوقیت حاصل کرلی۔اس نے جہاں ایک طرف بغاوت اور غداری کی دفعات لگانے کا شوق رکھنے والے عناصر کو پہاڑ کی اونچائی سے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا وہیں اس نے حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے ان درجنوں بلکہ سینکڑوں افراد کے اندر زندگی جینے کی نئی امید پیدا کردی جو ’غداری‘ کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور جو مسلسل ضمانت نہ ملنے کے سبب پر امن اور آزاد زندگی گزارنے کی آرزو چھوڑ چکے ہیں۔
شاید اپنی نوعیت کایہ منفرد واقعہ ہے جو ہندوستان کے نظام عدل وانصاف کی تاریخ میں ظہور پزیر ہوا ہے۔ایسے واقعات کے امکانات عام حالات میں بھی موہوم رہتے ہیں چہ جائیکہ کوئی واقعہ ایسے دور میں رونما ہوجائے کہ جب اختلاف رائے رکھنے والوں کو سانس لیتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا ہو۔۔
غداری کی دفعہ 124 اے کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے الفاظ سے‘ زبان سے یاقلم سے‘ اشاروں کنایوں میں یا نظر آنے والے عمل کے ذریعہ حکومت کے خلاف عدم اطمینان اور نفرت کی فضاپیدا کرے‘ یا پیدا کرنے کی کوشش کرے اسے تین سال کی قید اور جرمانہ یا عمر قید اور جرمانہ یا فقط جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔یعنی ایسے فرد کو ملک سے غداری کا مرتکب مانا جائے گا جو حکومت کے خلاف کسی عمل کا اقدام کرے یا کسی خیال کا اظہار کرے۔
اس دفعہ کی سب سے مکروہ اور تکلیف دہ شق وہ ہے جس کی رو سے اس کا متاثر اپنی گرفتاری کے بعد دو سال تک عدالت سے رجوع نہیں کرسکتا۔ اپنے وسیع تر عواقب کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی خطرناک دفعہ ہے۔اس دفعہ کے تحت بالواسطہ طور پرحکومت کو ہی ملک مان لیا گیا ہے۔اور جو حکومت کا مخالف ہوگا اسے ملک کا مخالف مانا جائے گا۔
انگریزوں کے تصرف کے دوران‘ تھامس میکالے نے انڈین پینل کوڈ (یعنی تعزیرات ہند) کا مسودہ ترتیب دیا تھا۔1890میں سترہویں اسپیشل ایکٹ کے ذریعہ سیکشن 124 اے کے تحت بغاوت کو جرم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔حیرت ہے کہ انگریز قابضین کے دور سے یہ دفعہ مسلسل چلی آرہی ہے اور ہماری حکومتیں اس کا استعمال بھی کر رہی ہیں۔
نظریاتی اختلاف انگریزوں کے نزدیک اس لیے بغاوت کا درجہ رکھتا تھا کہ انہیں ہندوستان سے بھگانے کی مہم کے تحت جیالے ہندوستانی ان کے خلاف بغاوت کر رہے تھے۔
لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد اس کے معنی ہی بدل گئے۔حکومت سے اختلاف کو ملک سے بغاوت تصور کیا جانے لگا۔بجائے اس کے کہ اس دفعہ کو کالعدم کیا جاتا سیاسی حکومتوں نے اسے اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ہر دور میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں سڑا دیا گیا۔
کانگریس کی حکومتیں بھی اس عمل میں پیچھے نہیں رہیں۔ لیکن موجودہ حکومت نے تو کمال ہی کردیا۔ پہلے سیاسی آقائوں کے اشاروں پرپولیس یہ کام کرتی تھی لیکن اب 2014 کے بعد یہ کام شرپسند غنڈوں کی کھلی غنڈہ گردی کے تحت ہورہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس قانون کا سب سے زیادہ ناجائز استعمال اسی حکومت نے کیا ہے۔
حکومت ہند کے نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق 2015 سے 2020 کے درمیان کل 356 افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے۔تاہم ان چھ برسوں میں سات مختلف معاملات میں ماخوذ 12 افراد ہی کو مجرم قرار دے کر سزا سنائی جاسکی۔بڑے پیمانے پر صحافیوں‘ سماجی خدمت گاروں اور حقوق انسانی کے علم برداروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔
شرپسندوں کے دبائو میں زیادہ تر فرضی مقدمات مسلمانوں کے خلاف قائم کئے گئے۔اس کی ایک انتہائی کریہہ‘ تکلیف دہ اور بھیانک مثال کے طور پر یہاں ایک واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔آرٹیکل 14نامی ویب سائٹ کے صحافی موہت رائو نے تین قسطوں پر مشتمل ایک جامع رپورٹ تیار کی۔جس میں بتایا گیا کہ بغاوت کے قانون کا ’پرائیویٹ ہتھیار‘ کے طور پر مظاہروں کو کچلنے اور سیاسی واقعات اور حزب اختلاف سے نپٹنے کے علاوہ فرضی الزامات کے تحت مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔۔
موہت رائو نے 14 جولائی 2021 کو تحریر دوسری قسط میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 15فروری 2019 کو شمالی کرناٹک کے ایک گائوں میں چند لمحوں میں فرقہ وارانہ فضا میں زہر پھیل گیا۔ 14فروری 2019 کو جموں وکشمیر کے پلوامہ میں ایک دہشت گردانہ حملہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 40 جوان ہلاک ہوگئے تھے۔کرناٹک کے اس گائوں والوں نے الزام لگایا کہ گائوں کی مسجد میں چھ مسلمانوں نے جن کی عمریں 40 سے 65 سال کے درمیان تھیں پلوامہ کے واقعہ پر خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔
ایک کسان نے‘ جو بی جے پی کا مقامی لیڈر بھی ہے‘ پولیس میں شکایت درج کرائی کہ ان چھ لوگوں نے نہ صرف مٹھائی تقسیم کی بلکہ اپنے جسموں کو سبز رنگ میں رنگ کر پاکستان کی حمایت میں نعرے بھی لگائے۔ موہت رائو کے مطابق اس گائوں میں 1500 لوگ رہتے ہیں جن میں صرف 18 ناخواندہ اور غریب مسلم خاندان ہیں۔دو دن کے بعد ان چھ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ان کے خلاف دفعہ 124 اے (غداری) اور دفعہ 153 (فساد بھڑکانے کی نیت سے اشتعال پھیلانا) کے تحت الزامات عاید کئے گئے۔اس کے علاوہ آئی پی سی کی دوسری دفعات بھی عاید کی گئیں جن میں غیر قانونی طور پر جمع ہونے اور فساد پھیلانے کے الزامات لگائے گئے۔
ایک مقامی نیوز چینل پر ’باغیانہ سرگرمیوں‘ کے ثبوت کے طور پر ایک مبہم سی ویڈیو نشر کی گئی جس میں ایک چبوترہ پر مٹھائی کے کچھ ڈبے اور پائوڈر بکھرا ہوا دکھایا گیا۔اس چبوترہ پر ہی ایک چھوٹی سی درگاہ بھی دکھائی گئی جس میں پہلے کبھی نماز ادا کی جاتی تھی۔موہت رائو نے لکھا کہ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے گائوں میں کشیدگی مسلسل قائم ہے۔موہت رائو نے عمداً اس گائوں کا نام ظاہر نہیں کیا ہے کیونکہ اس گائوں کے غریب مسلمان بہت سہمے ہوئے ہیں۔۔
موہت رائو کے مطابق اس گائوں میں لمبانی فرقہ کے ہندئوں کی تعداد زیادہ ہے۔گرفتار مسلمانوں کے علاوہ گائوں کے کچھ دوسرے ہندئوں نے بھی دعوی کیا کہ مذکورہ ویڈیو ’سیوالال جینتی‘ کی تقریبات کی ہے جو 15فروری کولمبانی فرقہ نے منعقد کی تھیں۔لیکن اس حقیقت کے سامنے آنے کے باوجود کشیدگی کم نہیں ہوئی۔اگلے روز گائوں کے ہندئوں نے مسجد اور درگاہ میں گھس کر تباہی مچائی۔گائوں کے ایک 60 سالہ مسلمان نے کہا کہ ہمیں تو پلوامہ کا کوئی علم ہی نہیں تھا۔ہمارے پاس نہ موبائل ہیں اور نہ ٹی وی سیٹ۔ہم پڑھنا بھی نہیں جانتے۔اس گائوں میں ہمارے پاس اخبار بھی نہیں آتے۔جس روز یہ واقعہ ہوا اس روز ہم اپنے کھیتوں پر تھے اور پورے دن ہم مسجد میں گئے ہی نہیں۔
مختلف رپورٹوں اورجائزوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 2009 سے 2020 کے درمیان درج ہونے والے غداری کے معاملات میں 96 فیصد معاملات 2014 کے بعد کے ہیں۔ 149ملزمین پر غداری کے مقدمات اس لئے درج کئے گئے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی تھی۔144 پر اس لئے غداری کے مقدمات قائم کئے گئے کہ انہوں نے یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر تنقید کی تھی۔
ان ملزمین میں اسٹوڈینٹس‘ صحافی اور اپوزیشن سے وابستہ سیاستداں ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف بھی غداری کے مقدمات قائم کئے گئے جنہوں نے سی اے اے اور کشمیر میں دفعہ 370 کوہٹانے کے فیصلہ کے خلاف اظہار خیال کیا تھا۔سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران 25 میں سے 22 معاملات بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں درج کئے گئے۔ان 22 معاملات میں 3700 لوگوں کو ماخوذ کیا گیا۔
منگلورو میں ان تین لوگوں کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ قائم کردیا گیا جو سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران پولیس فائرنگ میں دو افراد کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور جو اپنے موبائل کیمروں میں مظاہرین پر پولیس کی زیادتیوں کو قید کر رہے تھے۔سپریم کورٹ نے آنجہانی صحافی ونود دوا کا معاملہ دیکھا ہی تھا کہ جن کے خلاف کورونا کے دوران ہونے والی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کی پاداش میں بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا گیا تھا۔
ایسی سینکڑوں ر پورٹیں مختلف پورٹلوں‘ ویب سائٹوں اور مختلف اخبارات میں موجود ہیں۔۔۔ جس کے خلاف اس دفعہ کے تحت مقدمہ قائم ہوجاتا ہے اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔وہ دو سال سے پہلے ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع نہیں کرسکتا۔وہ وکیلوں کی مہنگی فیس ادا نہیں کرسکتا۔اعزا و اقربا اس سے دور ہوجاتے ہیں۔سیاسی جماعتیں اس کی کوئی مدد نہیں کرتیں۔مسلم جماعتیں ایک حد تک ہی تعاون کرسکتی ہیں اور اس کے باوجود وہ ہماری صفوں میں موجود ’تنقید مافیائوں‘ کی زد پر رہتی ہیں۔ایسے میں ایک سوال اکثر لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ آخر عدالتیں کیوں کچھ نہیں کرتیں۔۔
اس سلسلہ میں ہر فرد کو اور خاص طور پر مظلوم طبقات سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو بنیادی قانونی معلومات کا اداراک رکھنا چاہئے۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہر معاملے میں ’از خود‘ نوٹس نہیں لے سکتیں۔آئین نے مقننہ‘ عدلیہ اور عاملہ کے دائرہ کار متعین کردئے ہیں۔عدالتیں قانون نہیں بناسکتیں۔یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔عدالتیں روز مرہ کے انتظامی معاملات نہیں چلاسکتیں۔یہ کام حکومت کا ہے۔لیکن عدالتیں پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین اور حکومت کے ذریعہ کئے گئے فیصلوں کو آئین کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ سکتی ہیں۔ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جب عدالتوں نے قوانین کو کالعدم قرار دیا ہے۔لیکن اس کیلئے متاثرین کو ہی عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
زیر نظر معاملہ میں سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست پر اسے قانون پر نظر ثانی کی اجازت تو دی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کے سخت اعتراض اور جاں توڑ کوشش کے باوجوداس قانون پر مزید عمل آوری کی اجازت نہیں دی ہے۔یعنی عدالت کو اس قانون کی سنگینی کا ادراک ہے اور وہ اس کی آڑ میں کی جانے والی ناانصافی اور ظلم کو روا رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔اس حکومت کیلئے سب سے بڑا سوہان روح یہی ہے۔۔
حتمی طور پر کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن سردست اس قانون کے متاثرین کو ضمانت ملنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔اور متاثرین کیلئے یہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔اب فقط ایک مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بنچ 1962 میں ایک رولنگ کے ذریعہ کیدار ناتھ مقدمہ میں دفعہ 124 اے کو جائز قرار دے چکی ہے۔اگر چیف جسٹس کی بنچ اس فیصلہ کو درست کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کیلئے ایک سات رکنی بنچ تشکیل دینی ہوگی۔۔
یہ قضیہ بہت طولانی ہے لیکن اب اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہ ہیبت ناک قانون اپنی اصل صورت میں باقی رہے گا۔اس قانون کے متاثرین کو سردست جو راستہ ملا ہے اس کا استعمال کرکے ضمانتیں حاصل کرنے کا عمل شروع کرنا چاہئے۔مسلم جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ان افراد‘ جماعتوں اور اداروں کی اخلاقی مدد کرنی چاہئے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ظلم کے خلاف قانونی اور سیاسی جنگ لڑرہے ہیں۔