ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تحریر: محسن رضا ضیائی، پونہ
آج کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی اتحاد کا راگ الاپ رہاہے۔
جسے دیکھو وہ اپنے علما، مشائخ اور قائدین ہی کو نصیحت کرتا نظر آرہاہے یا پھر ان سے توقعات کو وابستہ کررہاہے۔ ان کے اتحاد کے نعروں کی باز گشت سننے کے لیے بے قرار و مضطرب ہے۔
ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا محض ان ہی کی ذمہ داری ہے۔ گویا اس سلسلے میں ہر کوئی علما، مشائخ اور دیگر خانقاہی، سماجی اور سیاسی قائدین کے عمل وحرکت اور اشارۂ ابرو کا منتظر ہے، تاکہ وہ اِس سلسلے میں کوئی پہل اور پیش قدمی کریں۔
یہاں ہم اس حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے : یقیناً اتحادِ امت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ملک کے موجودہ حالات و واقعات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے
کہ اس کی اہمیت و ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ مسلمان آپس میں متحد و منظم ہوجائیں اور باہم شیر و شکر ہوکر درپش مسائل کا سامنا کریں، کیوں کہ اتحاد ہی کی صورت میں مسلمان مضبوط و مستحکم ہوسکتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرسکتے ہیں۔
مسلم مخالف طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ان کا آپس میں دست و گریباں ہونا اور لڑنا جھگڑنا ہے۔
وہ مسلمانوں کی ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر انہیں ہر آئے دن اور بھی مزید کمزور اور ہراساں کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔
اب ایسے ہوش ربا اور ہولناک حالات میں تو ضروری ہوجاتاہے کہ مسلمان آپس میں متحد و منظم ہوکر مخالفوں اور دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنائیں اور انہیں اپنے اتحاد و اتفاق کی طاقت اور ایمان کی شدت و حرارت سے منہ توڑ جواب دیں۔
لیکن اس کے لیے قیادت کا شکوہ کرنا بےجا ہے۔ اگر ہمیں دین و سنیت کے تحفظ و بقا اور ملک و ملت کی سالمیت کے لیے کام کرنا ہی ہے تو اس کے لیے قیادت کا شکوہ کیسا؟
بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شخص اپنے آپ کو قوم و ملت کا مخلص اور بے لوث قائد و رہ نما سمجھ کر مسائل کے تصفیہ و حل کے لیے آگے آئے۔ اگر ہم قیادت کا رونا روتے رہیں تو جس طرح ہلدوانی اتراکھنڈ، گیان واپی مسجد، متھورا جامع مسجد ،مفتی سلمان ازہری اور ملک کے طول و عرض کے جو افسوس ناک حالات ہیں، عن قریب ملک بھر میں پھیلتے چلے جائیں گے اور پھر انہیں روک پانا ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔
شر پسند عناصر جانتے ہیں کہ سیاسی، سماجی اور ملکی سطح پر ہمارا کوئی مستحکم محاذ نہیں ہے، وہ جو چاہے وہ کریں، ان کی راہ میں کوئی سدِ سکندری ثابت نہیں ہوگا۔
ہمیں قیادت کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ ہر کوئی اپنا قائدانہ اور مخلصانہ کردار ادا کرے اور مخالفین و معاندین کو یہ باور کرائیں کہ ہم وہ قوم ہیں، جن کی صفوں میں ہر کوئی قائدانہ صلاحیت اور دفاعی قابلیت رکھتا ہے۔
انہیں زیر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یاد رکھیں کہ اب ملک کے حالات اِس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ہماری خاموشی بھی جرمِ عظیم بن چکی ہے، اپنوں کو کوسنا بھی غیر دانش مندی ہے، آپس میں رسہ کشی اور منافقانہ رویہ اختیار کرنا بھی دین و ملت کے حق میں باعثِ ہلاکت ہوچکا ہے۔
ایسے تشویش ناک حالات میں ہر شخص اعلاے کلمۃ الحق کی عظمت و سربلندی اور ملک و ملت کی فلاح و بہبودی کے لیے اُٹھ کھڑے ہو اور انتہائی فراست و دانش مندی، متانت و سنجیدگی اور حکمت و بالغ نظری کے ساتھ حالات کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھے یہ سوچ کر کہ
افراد کے ہاتھوں ميں ہے اقوام کی تقدير
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
علّامہ اقبالؔ