سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم

Spread the love

سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم

سفرنامہ زیارت حرمین 2022 زمین حجاز پر بیتے دو عشرے۔   4  زمین حجاز پر بیتے دو عشرے ۔ قسط سوم  سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم

از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی

چیرمین:- تحریک علمائے ہند، جے پور

اگرچہ غار حرا پر چڑھنے کا پہلے ہی عزم تھا لیکن غار ثور کی حساسیت اور پھر وہاں کی چڑھائی کے بعد بھی تکان نہ ہونے کی وجہ سے جو شوق بڑھا تھا، اس نے حوصلے کو پر لگا دیے۔

ٹیکسی والے نے علی الصباح ہمیں جبل نور کے دامن میں اسی جگہ چھوڑ دیا، جہاں مستوی روڑ ختم ہو رہا اور چڑھائی شروع ہو رہی تھی، حالاں کہ کچھ گاڑیاں ابتدائی چڑھائی پر بھی زور آزمائی کر رہی تھیں۔

چڑھائی کی شروعات میں ایک بورڈ پر یہ نصیحتیں لکھی ہوئی ہیں کہ غار حرا کوئی مبارک مقام نہیں اور نہ یہاں پر ثواب کی نیت سے چڑھنا روا تاہم ایسا لگتا ہے جیسے حکومت نے اب اسلامی آثار و شعائر کو آثار قدیمہ کی حیثیت دینے شروع کر دی ہے، اسی بورڈ سے متصل ایک چھتری نما آرام گاہ بنی ہوئی ہے اور اسی کے معا بعد سیڑھیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سطح سمندر سے 436 میٹر بلندی تک جاتا ہے۔

یہاں کی چڑھائی غار ثور کے مقابلے بہت حد تک سیڑھیوں کی وجہ سے آسان بھی ہے اور اس سے آدھی بھی لیکن یہ سب اب ہے، نزول وحی سے پہلے جب حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کئی کئی روز مسلسل اعتکاف فرمایا کرتے تھے تو ظاہر ہے اس وقت کا جبل نور، آج کے جبل نور سے بہت مختلف رہا ہوگا۔ ہانپتے ہوئے ہم اوپر کی طرف چلتے چلے جا رہے تھے اور اندروں سے خود بخود محسوس خوشی بڑھتی جا رہی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے آہستہ آہستہ غم گھلتا جا رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ تو اسی وقت یہ سمجھ میں آئی کہ بلندی کے ساتھ ہی یہاں کا نظارہ بڑا دل کش ہوتا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی شہر میں کئی شہر بسے ہوں، ایک طرف جھانک کر دیکھیے تو مکہ مکرمہ کا الگ رنگ نظر آتا ہے اور دوسری پہاڑی کی اوٹ سے گویا دوسرا مکہ نور بکھیر رہا ہوتا ہے۔ بلندی کے ساتھ ہی حرم کی نشانی کلاک ٹاور کے گرد و نواح میں بسا ہوا مکہ مکرمہ منفرد ہوتا جاتا ہے‌۔

لیکن اس فرحت و انبساط کا اصل راز اس وقت افشا ہوا جب امام عبد اللہ بن محمد قرشی مرجانی علیہ الرحمہ کا یہ اقتباس نظر نواز ہوا، آپ علیہ الرحمہ غار حرا کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:غارِ حراکی طرف آنے والا جب پہاڑ پر چڑھتا ہے تو یہ اپنی فضیلت کے باعث آنے والے کے غم کو دور کردیتا ہے کیوں کہ جب رب تعالیٰ نے کوہِ طُور پر تجلی فرمائی تو اس وقت وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا، ان ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا جبل حرا ہے۔

اس میں ظہر کے وقت دُعا کرنے والے کی دُعا قبول ہوتی ہے اور آواز دی جاتی ہے کہ جو شخص ہم سے دُعا کرتا ہے، ہم اس کی دُعا قبول کرتے ہیں۔ حرا میں نورِ الٰہی کا مرکز قائم ہے اور اللہ کی قسم! اس کے اوپر ٹھہرنا بہت پسندیدہ ہے۔ (المواہب اللدنیہ، جلد 1)

اسی مواہب سے حضرت رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس حسن انتخاب کا بھی راز کھلا، امام احمد بن محمد قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبادت کرنے کے لیے غارِ حرا كو اس لیے خاص فرمایا کہ اس غار کو دیگر غاروں پر اضافی فضیلت حاصل ہے کیوں کہ اس میں لوگوں سے دوری، دِل جمعی کے ساتھ عبادت اور بیت اللہ شریف کی زیارت ہوتی تھی، گویا غارِ حرا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے تین عبادتیں جمع ہو گئیں: تنہائی، عبادت اور بیت اللہ شریف کی زیارت جبکہ دیگر غاروں میں یہ تینوں باتیں نہیں۔ (ایضا)

غار کی چوٹی سے قریب ایک جگہ حوض نما بنا ہوا ہے جہاں کبوتروں نے ڈیرے جما رکھے ہیں اور دانے ڈالنے والے ثواب کماتے ہیں۔ پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی پر پہنچتے ہوئے بھلے تکان کی وجہ سے سانسیں اوپر نیچے ہو رہی ہوں لیکن یہاں سے ہر چہار جانب نظریں گھمائیے تو تکان انبساط میں بدل جاتی ہے

نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جائے وقوع کی دل پذیری کی وجہ سے بھی اور اس وقت تو روحانی مستی سوار ہو جاتی ہے جب یہ خیال گزرتا ہے کہ ہم اولین مہبط وحی پر کھڑے ہیں۔اصل غار پہاڑ کی چوٹی پر نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے ساٹھ ستر میٹر نیچے جانب حرم جانا پڑتا ہے۔

نشیب میں اتر کر راستہ پھر بلندی کی طرف جاتا ہے اور وہیں غار حرا واقع ہے۔ غار پہاڑ کے اندر نہیں بلکہ اس کے پہلو میں تقریباً خیمے کی شکل میں اور ذرا باہر کو ہٹ کر ہے۔ کم و بیش نصف میٹر موٹے، پونے دو میٹر تک چوڑے اور تین چار میٹر لمبے چٹانی تختے پہاڑ کے ساتھ اس طرح ٹکے ہوئے ہیں کہ متساوی الساقین مثلث جیسے منہ والا غار بن گیا ہے۔ غار باہر سے کافی حد تک اونٹ کی کوہان سے مشابہت رکھتا ہے۔

غار کا رخ ایسا ہے کہ پورے دن سورج اندر نہیں جھانک سکتا۔ مسجد حرام سے کوئی چار کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہونے کے باوجود اپنے محل وقوع کے سبب یہاں سے پہلے خانہ کعبہ کا براہ راست نظارہ ممکن تھا، جو اب عمارتوں کی وجہ سے ممکن نہیں رہا

اور خوش قسمتی یہ کہ اس غار کے علاوہ اس خصوصیت کا حامل کوئی دوسرا غار نہیں۔چوٹی سے غار کی طرف چلتے ہوئے ایک چٹانی تختہ خوب صورت جائے نماز بن گیا ہے، ہم نے بھی دوگانے سے قسمت جگانے کی کوشش کی۔ہم نے حسب روایت زیادہ عمرے مسجد عائشہ سے کیے لیکن ادائیگی سنت کی نیت سے ایک دن سر شام مسجد جعرانہ گئے۔ یہ مسجد مکہ مکرمہ سے جانب طائف تقریباً 26 کلومیٹر پر واقِع ہے لیکن اب مکہ مکرمہ کی نو آبادیاتی حدود وہاں تک پہنچنے لگی ہیں۔

فتحِ مکہ کے بعد طائف فتح کر کے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہیں مال غنیمت تقسیم کیا اور یہیں سے عمرے کا اِحرام زیبِ تن فرمایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامِ جِعِرّانہ سے 300 انبیائے کرام علیہم السلام نے عُمرے کا احرام باندھا ہے

لیکن اب متعدد عمرے کرنے والے عام طور پر مسجد عائشہ سے ہی احرام باندھتے ہیں کیوں کہ حرم محترم سے وہاں کا ٹرانسپورٹیشن آسان بھی ہے اور زیادہ بھی لیکن ہم نے نوٹ کیا کہ اب یہاں سے بھی ٹرانسپورٹیشن مشکل نہیں، سرکاری بسوں کی سہولت بھی موجود ہے، ایسے میں اہل علم کو اس مقام کو بھی ترجیح دینی چاہیے۔

اخبار مکہ اور البلد الامین میں ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام جِعِرّانہ پر اپنا عصائی مبارک گاڑھا، جس سے پانی کا چشمہ ابل پڑا، جو نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ ہم نے مسجد کے ایک خدمت گزار سے دریافت کر کے بھاگم بھاگ میں اس کنویں کی تلاش کی تو جانب محراب گھوم کر چوکور مقام ملا، جس کی ہیئت کنویں کی سی ہے لیکن ابھی وہ اوپر سے بند کیا ہوا ہے۔

غالب گمان ہے کہ یہی وہ کنواں ہوگا۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران الگ الگ مواقع پر گجرات کے مولانا شعیب مصباحی، امبیڈکر نگر، یوپی کے مولانا کونین مصباحی اور بیکانیر کے مولانا اصغر مصباحی اور حافظ فیروز بیکانیری سے ملاقاتیں ہوئیں۔31/ اکتوبر کو بعد نمازِ ظہر ہمیں اس شہر برکت و ہدایت سے روانگی لینی پڑی، اس کا غم کم نہیں ہوتا، یہ ایک پہلو ہے۔

ہاں! اس بات کی اندرونی خوشی غالب رہتی ہے کہ یہاں سے مدینہ منورہ جانا ہے۔مدینہ شریف کا راستہ پہاڑیوں کا راستہ ہے، ایسے کوہستانی تسلسل کا کہ شاید کہیں اور اس کثرت کے ساتھ یہ دنیا نہ ملے۔

ابتداء قدرے رنجیدہ طبیعت اور پھر فرط شوق سے مغلوب ہمارا قافلہ جب مہمان مدینہ بنا، عشا کا وقت ہو چلا تھا۔ہم نے قاری صاحب کی مشاورت سے راستے میں یہ اہتمام کیا کہ دونوں بسوں میں ادلا بدلی کر کے باری باری اپنے رفقا کو آداب مدینہ، اشتیاق مدینہ، فضائل مدینہ اور وہاں گزارے جانے والے وقت کی قدر و قیمت سے آگاہ کریں اور ان کا روحانی احساس و شعور بیدار کریں۔

اس بابت بہار شریعت کا یہ تجربہ شیئر کرتے ہی بنتا ہے کہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے جس کیفیت کے ساتھ مدینہ منورہ کا ذکر جمیل کیا ہے، عاشق زار کو بے چین کر دیتا ہے، فضائل مدینہ کے یہ اقتباسات ہر زائر مدینہ کو لازماً اور ہر مشتاق مدینہ کو برائے اشتیاق پڑھنے چاہیے۔

 (جاری)

2 thoughts on “سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *