گھرآنگن کی شاعری

Spread the love

گھرآنگن کی شاعری

انس مسرورؔانصاری

ہندوستان کی مہذ ب زبانوں میں شاعری کے بیشتر حصّے عورت کے ذکرسے عبارت ہیں لیکن جیسا کہ ‘‘گھرآنگن’’ میں کرشن چند ر نے لکھاہے:

‘‘شاعراپنی محبوبہ کو جنگل جنگل،صحراصحرا تلاش کرتاہےمگرکبھی وہاں نہیں تلاش کرتاجہاں وہ پائی جاتی ہے۔یعنی اپنے گھر میں۔ مزاحیہ یا طنزیہ شاعری میں گھرکی عورت کاذکرآتاہے

لیکن اس تذکرے میں عورت ہدفِ ملامت بن کراُبھرتی ہے۔رزمیہ شاعری میں عورت ایک نرس ہےیاروتی پیٹتی بیوہ بے،بےبس اورمجبور،ماحول حشرکاہے،گھرکانہیں۔

فلسفیانہ شاعری میں بالعموم عرش کےمسائل سے بحث کی جاتی ہےاور عورت بالعموم گھرکے فرش پرکام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔کبھی کبھی فلسفی شاعرعورت کاذکرکردیتے ہیں تواکثراوقات اُس کی متلؤن مزاجی کاگلہ بھی کرتے ہیں،کیونکہ عظیم فلسفیانہ شاعری صرف مردوں نے کی ہے۔ اس لیےاُنہیں حق پہنچتا ہےکہ جوچاہیں کہہ دیں ۔عورت تک فلسفی شاعرکےافکارنہی پہنچتے،کیوں کہ وہ اُس کا کھانا تیارکرنےمیں مصروف ہوتی ہے۔’’

کرشن چندر کا یہ تبصرہ حقائق پرمبنی ہے۔ یہ خلاء نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں پایا جاتا ہے بلکہ دنیا کی قدیم وجدیدزبانوں کی شاعری، گھرآنگن کے موضوع سےتقریباََ محروم ہے۔

ہم دنیابھرکی شاعری میں عورت کو ڈرائنگ روم یاکافی ہاؤس میں مشروبات سے شغل کرتےہوئے، پرائےمردوں سےہنس ہنس کرباتیں کرتےہوئے، کئی روپ میں دیکھ سکتےہیں  لیکن ہمیں وہ عورت کہیں  نظرنہیں آتی جو اپنی فطری حیا وشرم کے باعث بعض مرتبہ اپنےشوہر سےبھی آنکھ نہیں ملاپاتی۔ شاعری میں شوخ وچنچل ،قاتل ،بے رحم اورستم گر حسینہ تونظرآجاتی ہے

لیکن اس وفا شعاراورپاک باز بیوی کا دوردورتک پتا نہیں جو گھر میں چلتی پھرتی،اٹھتی بیٹھتی ،گھرمیں کھانا تیارکرتی ،شرٹ کی ٹوٹی ہوئی بٹن ٹانکتی ،حسدورقابت میں جلتی ہوئی،بچوں کو یونیفارم پنھا ک راسکول بھیجتی اوررات گئے تک اپنے شوہر ، اپنے مجازی خداکےانتظارمیں اونگھتی اوردیرسے گھرلوٹنے پر کھانا گرم کرتی ہوئی ہوتی ہے۔

ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مغربی تہذیب میں اس عورت کاوجودکبھی نہیں رہامگر مشرق میں پائی جانے والی شاس حقیقت کوہم کیسےفراموش کرسکتے ہیں۔

دورکیوں جایئے صرف اردوشاعری کامطالعہ کرلیجیے جوعورت کے ذکرسے بھری پڑی ہے لیکن ہمیں گھرکی عورت کہیں بھی نظرنہیں آ تی اوراگرعورت جیسی کسی مخلوق کوشاعروں نے پیش کیاہےتووہ آسمان کی حور ہوکررہ گئی ہے یا ایک قاتل اورخنجربکف حسینہ کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے ۔عورت ہمیں کہیں نہیں ملتی۔

اس کے عشوہ وانداز اورنازونیازکاذکرتوملتاہے لیکن اس کے تقدس ، پاکیزگی ، نازک جذبات واحساسات، اس کی فطری شرافت اوروفاداری کاذکرنہیں ملتا۔کیونکہ ہماری شاعری میں عورت کبھی کنوارپن سے آگے نہیں بڑھ سکی۔یعنی عورت کوکبھی اس کے اصل روپ اورصحیح مقام سےپیش نہیں کیا گیا ۔ہمیشہ اس کی صورت پہلے مسخ کی گئی ،پھراسے سامنے لایاگیا۔

اُردوشاعری میں عورت کبھی ماورائی اورقابلِ پرستش مخلوق رہی ہےاورکبھی لائقِ صدنفریں۔! میں سمجھتاہوں کہ شاعروں نےاپنی بےوفامحبوبہ کوکبھی وفاشعاربیوی بننے کاحق اورموقع نہیں دیا۔یہ شاعر کی بےایمانی اورحقائق سےچشم پوشی ہے۔

اُردوشاعری میں اس خلاکوپُرکرنےکی اوّلین کوشش فراقؔ گورکھپوری کی ہے۔

نداؔ فاضلی کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اوراحمدندیم قاسمی نے بھی عورت کےصحیح خدوخال ابھارنے کی سعی کی لیکن وہ بھی اس قتا لۂ عالم حسینہ کو صرف محبوبہ بنا سکے،اس سے شادی کرنےکی جرأت قاسمی میں بھی نہیں ہوئی۔ انھوں نے البتہ اتناکیا کہ عرش کی حورکو فرش

پراتارکراسےغورسےدیکھااورلب کشا ہوئے ۔

دیکھ ری تو پنگھٹ پر جا کر میر ا ذکر نہ چھیڑا کر

میں کیاجا نوں وہ کیسےہیں کس کوچے میں رہتےہیں

میں نے کب تعریفیں کی ہیں اُ ن کے بانکے نینوں کی

وہ اچھےخوش پوش جواں ہیں،میرےبھیّا کہتے ہیں

قاسمی نے اتناتوکیاکہ شاعری کی الّھڑاور شوخ و چنچل دوشیزہ کوایک بھائی عطاکردیالیکن وہ گھریلو عورت ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کےوجودکو اقبالؔ نےتصویرِکائنات کارنگ کہا ہے۔ ‘‘وجودِزن سے ہےتصویرِ کائنات میں رنگ۔’’

لیکن اقبال کی شاعری میں زن یعنی عورت کاکوئی اہم کردارنہیں۔اکثرشاعروں نے گھرکی عورت کونظرانداز کیا۔اُردوشاعری میں اس کمی کوجاں نثاراخترؔ (۱۹۱۴ء۔۱۹۷۴ء) نےپوراکرنےکی کوشش کی اور شاعری میں پہلی بارایساہواکہ گھریلو عورت کو موضوعِ سخن بنایاگیا۔

جاں نثاراخترؔکی رباعیات کامجموعہ‘‘گھرآنگن’’ کی شاعری عائلی اورگھریلو موضوعات سےعبارت ہے۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہےکہ غالبؔ واقبالؔ اور دیگر شعرائے اردوکی نظرانداز کی ہوئی شوخ وچنچل اور سربرہنہ لڑکی کو اخترؔ نے پہلی بارسہاگن کاروپ دیا اوراس سے شادی کرکےاس کےسرپردوپٹّہ ڈال کراپنے گھرلےگئےاوراس سےجی بھرکےپیارکیا۔عورت جو شاعری میں ہمیشہ ایک محبوبہ اورشراب پلانےولی

(ساقی)رہی ہے،اخترؔنےاسےآوارگی کی دلدل سے نکال کراس کےساتھ ایک خوب صورت ساگھربسایا۔اس کے رنج وراحت کےشریک ہوئے۔اپنےدکھ سکھ میں اسے شامل کیا۔عورت کواس کاصحیح مقام اخترؔ نےدیا۔

۔۔ گھرآنگن ۔۔کی عورت ہماری اپنی محبوب بیوی اورشریکِ حیات ہےجوہمارےدکھ سےدکھی اورہمارے سکھ سے سکھی ہے، اور جورات گئے تک ہمارا انتظار کرتی،پھرکھانا گرم کرکےہمیں پیارسےکھلاتی ہے۔دیر سےگھرآنےکی شکایت کرتی ہے۔ہم سے لڑتی جھگڑتی ہے۔روٹھتی اورمناتی ہے۔ہمارےبچوں کو اسکول پہنچاتی ہے۔ہم سےلڑتی ہےاورہمیں جی جان سےٹوٹ کرپیاربھی کرتی ہے۔

یہ عورت پھولوں کی گلابی اور سُرمئی وادیوں کےبجائےہمارےاپنےگھرمیں رہتی ہے۔

اخترؔکاکمال یہ ہےکہ انھوں نےعورت کواس کے تمام فطری تقاضوں کےساتھ پیش کیاہے۔

خوبیوں اور خامیوں کےساتھ۔!مکمّل ایک عورت جو شوہرکی نیند اُچٹ جانےکےخوف سےاپنےکپڑوں کی سرسراہٹ بھی روک لیتی ہےاوربہت خاموشی کے ساتھ اپنے‘‘اُن’’کو چادر اڑھادیتی ہے ۔

کپڑ و ں کو سمیٹے ہو ئے اُ ٹھی ہے مگر

ڈ ر تی ہے کہیں اُ ن کو نہ ہو جا ئے خبر

تھک کرابھی سوئےہیں کہیں جاگ نہ جائیں

د ھیر ے سے اُ ڑھا رہی ہے اُ ن کو چا د ر

عورت کے اندررشک وحسداوررقابت

کاجذبہ شدیدہو تاہے۔وہ برداشت نہیں

کرسکتی کہ دوسرا کوئی اس کے

شوہرکوآنکھ بھی اٹھا کردیکھے۔ شوہر سے اُس کی بے پناہ محبت کایہ بھی ایک اندازہے۔

ہرچاندنی رات اُ س کے د ل کو د ھڑکائے

بھولےسےبھی کھڑکیوں کےپردے نہ ہٹائے

ڈ رتی ہے کسی وقت کوئی شو خ کرن

چپکے سے نہ اُ ن کے پاس آ کر سو جائے

 

  اس کو بھی ضرور پڑھیں :   چند ریان کے کام یاب سفر پرایک نظم

مردگھرکےباہرکا کام کرتاہے لیکن عورت بھی ازدواجی زندگی کوخوش گواربنانےکے لیےگھرکےاندر کچھ کم محنت نہیں کرتی۔ ہم گھرکےآنگن میں اسے کام کرتےہوئے دیکھ سکتےہیں۔ وہ خنجرچلانے کے بجائے کچن کی صفائی کرتی

اوربرتن مانجھتی ہےاوراپنے شوہرکا بوجھ ہلکا کرتی ہے  ؂

گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین

قطر و ں سے پسینے کے شر ا بو ر جبین

مصروف کسی کام میں دیکھوں جوتجھے

تو ا و ر بھی مجھ کو نظر آ تی ہے حسین

کل کی بےنیازخنجربکف محبوبہ شادی کےبعد ایسی محبت کرنے والی شریکِ حیات بن جاتی ہے جوشوہرکےقدموں کی آہٹ پاکراپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتی ہے،یہاں تک کہ اُن کےقدموں کی آہٹ سےچونک پڑتی ہےاورکچن میں توےپرجلتی ہوئی روٹی چھوڑ کراپنے ہم سفرکااستقبال خوش دلی سےکرتی ہے ؂

آہٹ مرے قدموں کی جوسن پائی ہے

بجلی سی تن بد ن میں لہر ا ئی ہے

دوڑی ہے ہراک بات کی سدھ بسراکے

روٹی، جلتی، تو ے پر چھو ڑ آ ئی ہے

یہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں،بلکہ ہمارےدرمیان دھرتی پرچلتی پھرتی ہوئی حساس عورت ہےجوچائے پراپنےشوہرکاانتظارکرسکتی ہےاوردیرہونےپرطرح طرح کےوہم اورخدشات میں مبتلاہوکربےقرارہوسکتی

 

ہر ا یک گھڑ ی شا ق گز ر تی ہو گی

سو طر ح کے و ہم کر کے مر تی ہو گی

گھرجانےکی جلدی تو نہیں مجھ کومگر

و ہ چا ئے پہ ا نتظا ر کر تی ہو گی گھرآنگن کی عورت مختلف انداز میں ہمارے سامنےآتی ہے۔شریکِ حیات کی تمام ترذمّہ داریوں کے ساتھ ! ؂ پانی کبھی دے رہی ہے پھلواری میں کپڑے کبھی رکھ رہی ہے الماری میں تو کتنی گھر یلو سی نظر آ تی ہے لپٹی ہوئی ہاتھ کی دھلی ساری میں

ا شکوں سے بھرے نین کلا ئی سے چھپائے

کہتی ہےمیں کیامانگوں بس اب اس کے سوائے

جا تے ہو تو سینے سے لگا کر ا ک با ر

یوں بھینچ لو مجھ کو کہ مرا د م گھُٹ جائے

فکروں سے اُ تر گئی ہے صورت اُ ن کی

اُ لجھی ہو ئی ر ہتی ہے طبیعت اُ ن کی

آ ئے گی سکھی کہا ں سے ہمت اُ ن میں

میں ہی نہ بندھا ؤں گی جوہمت اُ ن کی جاں نثاراخترؔ کی ر باعیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب وتمدن اورعام گھریلوزندگی کےنشیب وفرازکی جھلکیاں پوری آب وتاب کےساتھ نظرآتی ہیں۔اُن کے اُسلوب میں آبشارکی سی ترنم ریزی ہے۔ڈاکٹر زیبا محمودلکھتی ہیں: ‘‘جاں نثاراخترکےفن پارےاس امرکی

تصدیق کرتےنظرآتےہیں کہ انسان جذبات وخیالات کامجموعہ ہے۔جاں نثاراخترکی شخصیت رومان پرورہے۔اُن کے رومانی خیالات میں جوخلوصِ درداورترنّم ملتاہے وہ اُن کی اپنی یادوں کامرہونِ منت ہے۔جاں نثاراخترجہاں ایک طرف مارکسی فکرونظرسےمرعوب نظرآتےہیں تو دوسری طرف ہندیائی عناصرکی خوشبوسےبھی اُن کاکلام معطّر ہے۔وہ ڈاکٹر کشورسلطانہ کی تحریرکے حوالےسےکہتی ہیں کہ غالب نےاُردوزبان کوسلیس اُسلوبِ بیان عطاکیاہےاور مراسلہ کومکالمہ بنادیاہے۔

جاں نثاراخترنےاپنی نظم کومکالمہ بنادیاہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں جدیدروش اختیارکرکےسادگی اور سلاست کےایسےخوشنمابیل بوٹےتیارکیےہیں جنھیں اُردوشاعری کی زینت کہاجاسکتاہے۔’’ زیبا محمودلکھتی ہیں کہ ‘‘بنیادی طور پروہ محبت کےشاعرہیں اورامن ومحبت اُن کا پسندیدہ موضوع ہے۔

بیان کی سادگی،صداقت وسلاست سےمزین ہے،اُن کا اندازِبیان دل پذیرہے۔رومانی جذبات نگاری میں سماجی شعورسمونےمیں اُن کویدِطولیٰ حاصل ہےاوراس اعتبار سےاُن کی شاعری میں رومان کاایک نمایاں اورمربوط پہلوسامنےآیاہے……..جاں نثاراخترکی رومانیت یک رخی نہیں بلکہ ہشت پہلونگینےکی وقعت رکھتی ہےجس سے معنی ومفہوم کی شعاعیں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کادھیمالہجہ رومانی تلخی میں شرابور ہے۔

جاں نثاراخترکی شاعری کی دنیاپُرکیف کیفیات کا اظہارہےاورجب وہ سیاسی اور انقلابی میدان میں قدم رکھتےہیں تواُن کی شاعری اُن کےفطری مزاج سے ہم آہنگ نظرآتی ہےاوراُن کافطری رجحان لفظیات پرحاوی ہے۔اُنھوں نے رومان اورانقلاب کےاحساس کوانتہائی خوب صورت جمالیاتی پیکرعطاکیا ہے

جواُن کی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں اساسی اہمیت رکھتاہے۔اُن کی شاعری میں ایک صاحبِ دل کاجوش وخروش ہے اوراُن کی شعری صدا میں عزم واستقلال کی گونج ہے۔درحقیقت وہی فن پارہ پائدارہوتاہےجومحض فن کے معیارپرنہیں بلکہ زندگی کی کسوٹی پربھی پورااُترے اورجاں نثاراخترنےاپنےفن پاروں میں رومان اورافادیت دونوں کو ملحوظ رکھاہے۔زندگی کی صداقتوں سے لبریزاُن کےشعری فن پارےگراں قدراہمیت کےحامل ہیں اوراس دورکی حسیت کابھرپور ترجمان بھی،رومانیت کی تواناآوازبھی،جس میں شدت بھی ہےاوردل بستگی بھی ۔’’ (‘‘انتقادیات’’ص،۶۸۔۷۳۔ڈاکٹرزیبا محمود)

جاں نثاراختر کاشعری اُسلوب نہایت نرم مگر تواناہے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتے ہیں توبہت نرم لہجے میں۔ترقی پسندشاعرہونےکےباوجوداُن کی شاعری میں گھن گرج نہیں بلکہ شیتل پانی کی پُرسکون طراوت ہے۔

ایک برفیلی آگ ہےجواُن کے شعری پیکروں میں آتش فشانی کرتی ہے۔بلاشبہ وہ محبت کےنغمہ نگار ہیں۔محبت کی دیوی کےپجاری ہیں۔

سب سےبڑی اوراہم بات یہ ہےکہ دوسرےشاعروں کی طرح اُنھیں کسی خیالی محبوبہ کی بھی ضرورت نہیں۔وہ مقدر کے سکندرتھےکہ صفیہ باجی ( مجازؔ کی بہن) جیسی محبت کرنےوالی ہم سفربیوی ملیں جو ہمیشہ اُن کے حوصلوں کوتقویت دیتی رہیں۔اُن کی رحلت کے بعدجاں نثاراخترکوخدیجہ آپاجیسی چاہنے والی شریکِ حیات ملیں۔اُن کےجیساخوش نصیب شاعرکون ہوگا۔ان حالات میں اگروہ آتش وآہن کی بات کرتےتوواقعی تعجب ہوتا۔

تو د یش کے مہکے ہو ئے آ نچل میں پلی

ہرسوچ ہےخوشبوؤں کےسانچےمیں ڈھلی

ہا تھو ں کو یہ جو ڑ نے کا د ل کش ا نداز

ڈ ا لی پہ کنو ل کی جس طر ح بند کلی

یہ تیر ا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سر و پ

لہجےکی یہ چھاؤں،گرم جذبوں کی یہ د ھوپ

سیتا بھی ، شکنتلا بھی ، ر ا د ھا بھی تو

یگ یگ سے بد لتی آ ئی ہے تو ر و پ

درج بالارباعیات کےمطالعہ کےبعدہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردوشاعری میں پہلی بارعورت کواس کےاصلی اورنسائی روپ میں پیش کرنےکی ایک کامیاب اور فعال کوشش کی گئی ہےاور یہ جاں نثاراخترؔ کاحصّہ ہے۔ سردارؔ جعفری،ساحرؔ لدھیانوی اوراخترؔ الایمان جیسےبلندآہنگ شاعروں کےدرمیان رہ کراپنی شاعری کو گھن گرج سے بچانامشکل تھا،

لیکن یہ مرحلہ بھی اُنھوں نے سرکیا۔ان کی شاعری چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور پانی کی طرح شیتل ہے،پہاڑی ندی کی طرح پُرشور نہیں بلکہ سمندر کی طرح پُرسکون اور گمبھیر۔!

انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)

رابطہ: ۔۹۴۵۳۳۴۷۷۸۴/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *