کام یاب جمہوریت کی پہچان
از قلم : فیاض احمد برکاتی مصباحی فاٸز کشی نگری کام یاب جمہوریت کی پہچان
کام یاب جمہوریت کی پہچان
ہمارا ملک جمہوری ہے یعنی حکومت بنانا بدلنا جمہور یعنی عوام کے ہاتھ میں ہے اس میں کٸی پارٹیاں ہوں گی عوام کےمفاد کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا لے کر عوام کے بیچ جاٸیں گی
عوام جسے اپنے ووٹ سے منتخب کرےگی وہی سرکار چلاۓگی اگراپنے وعدے پرکھری نہیں اتری توآٸندہ پانچ سال بعد عوام اسےہٹاکر دوسرے کوموقع دیں گے
یعنی سیکولرازم یاجمہوریت کارکن عظیم حزب مخالف پارٹیاں ہیں
اگر ملک میں صرف ایک ہی پارٹی ہو دوسری نہ ہو یا کٸی ہوں لیکن ان کے اندر برسراقتدارپارٹی سے سوال وجواب کی ہمت نہ ہو
یا ملک کے مفاد بنیادی ضرورتوں بجلی پانی روڈ صحت تعلیم خوراک روزگار بھوکمری سرحدی حفاظت وغیرہ جیسے مساٸل سےمتعلق حزف مخالف پارٹیوں نے حکمراں جماعت سے اپنی آنکھیں موند لی ہوں تو اب اس ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت یعنی ڈکٹیٹر شپ یعنی تاناشاہی راج قاٸم ماناجاٸے گا
کیوں کہ جمہوریت کی یہی خوبصورتی ہیکہ مخالف پارٹیاں حکمراں جماعت کو لگام لگاتی رہتی ہیں انھیں من مانی نہیں کرنے دیتیں جس سے ملک دن بدن ترقی کرتاجاتا ہے اور بلاتفریق مذہب وملت ملک کے سبھی بأشندوں کوترقی کے یکساں مواقع فراہم ہوتے رہتے ہیں
اگر کوٸی پارٹی اپنا موقف واضح نہیں کرتی تو وہ جموریت میں قابل اعتبار نہیں یا اسکے ظاہروباطن میں فرق ہےیا اسکے قول فعل میں تضاد ہے یا ساری اکثریتی پارٹیاں اپنے ملک کے اقلیتوں کے حقوق کو غصب کرنے میں برابر ہیں یا خاموش تاٸید میں ہیں
تو وہ سب کے سب مجرم نااہل جمہوریت مخالف ملک کو کمزور کرنے والی ملک دشمن پارٹیاں سمجھی جاٸیں گی
ایساہی شبلی نیشنل ڈگری کالج اعظم گڑھ 2004 تا2006 کے گریجویشن کے سیاسی اسباق میں میں نےپڑھا مذکورہ جمہوری قواعد سے
آج ٢٠٢٢میں حکمراں جماعت بھاجپا آر ایس ایس کی آٸیڈیالوجی کو فالو کرتے ہوٸے مکمل طور پر ڈکٹیٹر بن چکی ہے اور دلتوں کے حقوق بالعموم (تعلیم صحت روزگار ریزرویشن)۔
اورمسلموں کے حقوق بالخصوص(تعلیم صحت روزگار ریزرویشن کے ساتھ مذہبی آزادی روٹی کپڑا مکان )غصب کرنے میں اتاولی ہوچکی ہے جس کے واضح ثبوت حالیہ کے بابری مسجد تین طلاق بلسی اے اے بل وغیرہ جیسے مسلم مخالف سیکڑوں پارلیمیانی فیصلے ہیں
جب کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جمہوریٸہ ہند میں ہرمذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب والوں کو تکلیف پہنچاٸے بغیراپنے اپنے مذہب پرچلنے کی کھلی آزادی حاصل ہے
اور ملک کی موجودہ حزف مخالف پارٹیاں (کانگریس سپا بسپا آپ جنتادل اور بھی کٸی ہزار پارٹیاں جو صرف الیکشن کے وقت نظر آتی ہیں )مردہ ہوچکی ہیں یا بھاجپا سے سمجھوتہ کرچکی ہیں کیونکہ کھلم کھلا یا خاموش تاٸید کرکے بھاجپا کی مددگار ثابت ہوٸی ہیں لہذا اس وقت پورے ملک میں بھاجپا کی آمریت قاٸم ہے
اس دوران بھاجپا سے سوال وجواب کا کام یا حزب مخالف پارٹیوں کارول اکیلے ایم آئی ایم پارٹی کے چیف اور حیدرآباد سے سنسد جناب بیریسٹر اسد الدین اویسی صاحب نے نبھایا ہے پورا ملک سبھی ہندوستانی بالخصوص پوری مسلم قوم تہ دل سے ان کا شکریہ اداکرتی ہے اور دعا بھی کرتی ہے کہ اللہ تعالی اس آواز کو اور بلندی عطافرماٸے آمین
آج یوپی میں ٢٠٢٢کےودھان سبھا الیکشن کابگل بج چکا ہے اوروہ سبھی پارٹیاں جنھوں نے کھلم کھلا یا پس پردہ مسلم دشمنی میں ہرقانون میں بھاجپا کا ساتھ دیا وہ مسلموں کاواحد مسیحابن کر مسلموں بھاجپاہراوکانعرہ دے کر
اور تعلیم روزگار ریزرویشن جان ومال کے تحفظ کی یقین دہانی کراٸے بغیر ہمارے مذہب وشناخت کی گارنٹی دٸے بغیر، ہمارے تعلق سے اپنا موقف واضح کیے بغیر ہمارے مستقبل کی ضمانت لیے بغیر
فری میں بھاجپا کا ڈر دکھا کر خود سیکولرازم کو کمزور کرکے ہم کو سیکولرازم کا قلی بنا کربغیر کسی وعدہ وعید کے صرف سیکولرازم بچانے کے نام پر ہم سے ووٹ مانگ رہی ہیں
ہاۓرے اس عقلمند دنیا کی بےوقوفی اس ترقی یافتہ دنیا کی تعجب خیزی
ہاۓ رے اس جمہوری ملک کی یہ نرالی خوبی کہ یہ عیار ومکار سیکولر نما سیاسی اور جمہوری سبھی منافق پارٹیاں ہمارےہی ووٹ سے اقتدار بھی چاہتی ہیں اور ہمیں کو ہر سرکاری فاٸدے سے دور بھی رکھناچاہتی ہیں
یا للعجب اور اس صدی کا سب سے بڑا تعجب
وہ ہندوستانی مسلمان ہیں جن کو ابھی بھی انھیں کے قدموں میں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ ہی نہیں بلکہ تاب ناک بھی نظرآرہا ہے دنیا میں اس سے بڑا تعجب آپ کہیں نہیں پاسکتے
اوراویسی صاحب جنھوں نے ہر جگہ بھاجپا کی مخالفت کرکے سیکولرازم بچانےکا کام کیا دن رات ایک کرکے قوم کو بیدارکیا آج انھیں کی قوم انھیں کو بھاجپاکاایجنٹ اور سیکولرازم کوکمزور کرنے والا کہ رہی ہے
افسوس افسوس افسوس!۔
قوم نے ہمیشہ اپنے سچے قاٸدین کو پہچاننے میں خطا کی وہی آج بھی کررہی ہے
قوم کوان سیکولرمنافقوں کی عیاری مکاری کا علم نہیں ہے اسی لیے یہ قوم نادانی میں اپنے ایک سچے سیاسی رہبر سے انجان ہے
لیکن بہت جلد ہندوستانی قوم مسلم پر منکشف ہوجاٸےگا کہ ہماری ملکی ملی سیاسی مساٸل کاواحد حل بیرسٹراسدالدین اویسی صاحب ہی کی قیادت میں موجود ہے ہمارے بہت سے ہندوستانی مسلم بھاٸیوں کوخدشہ ہیکہ اگرسیکولرزم ختم ہوگیا تو ہم ہندوتوا کا لقمہ بن جاٸیں گے یقیننا ان کا سوچنا صحیح ہے
اس سے دلتوں سے زیادہ ہمیں کو نقصان پہنچےگا یقینناجمہوریت بچانا ہماری ہی ذمہ داری ہے لیکن میرے بھاٸی سیکولورازم یاجمہوریت تبھی بچےگی نا جب ہمارے ووٹ کی کوٸی قیمت ہوگی صرف ان سیکولر منافقوں کا جھنڈا نعرہ جے کار دری بچھانےکانام ہی سیکولرازم ہے کیا ؟
نہیں نہیں بلکہ جمہوریت بچےگی اپنی بات منوا کر سیکولرازم بچےگاملکی قیادت میں حصہ داری لے کر ہم سیکولرازم تبھی بچاپاٸیں گے جب خود ہم اس جمہوری ملک میں اپنی قیادت بھی کھڑی کرسکیں
اس کے لیے اس وقت پورے بھارت میںبیرسٹر اسداالدین اویسی صاحب سے بہتر کوٸی نہیں ہے کیوں کہ بھاجپا نے توپہلے ہی ہمارے ووٹوں کو معطل کردیا ہے
اور یہ سبھی سیکولر منافق پارٹیوں نے بھی مسلمانوں سے متعلق اپناموقف واضح کیے بغیر بلاشرط ووٹ لے کر ہمیں نظرانداز کرنے کا اشارہ دے دیا ہے
اب ان کوبلاشرط ووٹ دے کراپنا ووٹ ضاٸع کرنے میں کون سی دانش مندی ہے؟
لیکن اگرقوم کا یہی یکمشت ووٹ اویسی کو ملتا ہے تو وہ دوچارسیٹ جیت بھی سکتے ہیں جس سے اپنی قیادت کھڑی ہوجاٸےگی پھر آٸندہ رفتہ رفتہ ترقی بھی کرلےگی
رہی بات بھاجپا جیتنے کی تواگر اویسی نہ لڑیں پھربھی جیتے گی جب اکھیلیش ماویاوتی گٹھبندھن بھاجپا نہیں روک سکاتو آج کون روک پاٸے گا
جب کانگریس سپا بسپا آپ چندرشیکھر سب تنہاتنہا سبھی سیٹوں پر لڑرہے ہیں بھاجپا ہرانے کے نام پر آپ کو اویسی سے دور رکھنے کی شازش ہے
ایک پڑھی لکھی دور اندیش حاضرجواب بے مثال کٸی دہاٸیوں بعد آپ کی ایک صاف ستھری شبیہ رکھنے والی مذہبی شناخت والی قیادت ملی ہے اس سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
جمہوریت کی کام یابی اور ایک ایمان دار جمہوریت کی خوبی یہ بھی ہے کہ گول مول پرچار کرنے کے بجاٸے صاف صاف واضح الفاظ میں امیدوار کا نام لے لے کر اس کی ایک ایک خوبی اور ایک ایک خامی گنا گنا کر قوم کوووٹ دینے یا نہ دینے کی اپیل کی جاٸے
تاکہ بھولی بھالی مسلم قوم کے قلوب واذہان میں کوٸی کنفیوزن باقی نہ رہ جاٸے
اور اگر کوٸی اس کے برعکس راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ خود کنفیوزن کا شکار ہے وہ دوسروں کی رہبری کیا کرسکتا ہے ؟
ازقلم: فیاض احمد برکاتی مصباحی فاٸز کشی نگری
خادم درس وإفتا ٕ دارالعلوم حبیبیہ گلشن رضا جگپال تال راٸے بریلی یوپی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: جمہوریت اور ہندو راشٹر کا شاخشانہ ⋆ اردو دنیا از: انصار احمد مصباحی
Pingback: چند لمحوں کے لیے بسمل تڑپتا ہے ⋆ از قلم : سلیمان سعود رشیدی
Pingback: ہندوستانی جمہوریت خطرے میں ہے ⋆ اردو دنیا تحریر:محمد ناظم القادری جامعی
Pingback: ہڈیاں میرے بزرگوں کی تیری خاک میں ہیں ⋆ نعیم الدین فیضی برکاتی
Pingback: جمہوری اقدارکی حفاظت ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: جمہوریت اور بدلتا ہندوستان ⋆ ہاشمی رضا مصباحی
Pingback: بہادر شاہ ظفر کی کہانی ⋆
Pingback: بہادر شاہ ظفر کی شاعری ⋆ ہادر شاہ ظفر