جمعہ کا خطاب چند حل طلب مسائل

Spread the love

از قلم : مشتاق نوری جمعہ کا خطاب چند حل طلب مسائل

جمعہ کا خطاب چند حل طلب مسائل

اسلامیات کے پیچیدہ و لاینحل مضامین ہوں کہ کائنات کے دوسرے حیاتیاتی و جغرافیائی لطیف مسائل، انہیں سادے لفظوں میں احسن اسلوب کے ساتھ بآسانی کسی کی فہم و ذہن میں ڈال دینا ایک خداداد ملکہ ہے جس کی قدر و قیمت بہر حال مسلم ہے۔

مگر کبھی کبھی افہام و تفہیم کے لیے منتخب الفاظ و اسلوب اتنے مبہم یا الجھاؤ قسم کے ہوتے ہیں کہ بات آسان اور عام ہونے کے باوجود سمجھ سے دور دور ہی رہ جاتی ہے۔

یہ خامی متکلم و و مسمع کی ہے کہ وہ دوسروں تک اپنے تحت الشعور کی ترسیل بہتر ڈھنگ سے کرنے میں ناکام رہے۔

کسی بڑے اسکالر کا کہنا ہے کہ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے چھ مہینے لگتے ہیں مگر اسے صحیح طریقے سے برتنے کے لیے یعنی کب کہاں کیسے اور کیا بولنا ہے اس کے لیے عمر کے ۶۰؍ سال بھی کم پڑ جاتے ہیں۔

یہ قاعدہ دنیا کے کسی بھی شعبے کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔

تاہم مذہبی حلقوں میں اس کی اہمیت تب مزید فزوں ہو جاتی ہے جب جامع مسجد کے محدود خطابی وقفے میں ایک خطیب حشو و زوائد سے بھرا لایعنی خطاب کرکے سامعین کی سماعت اور ساعت دونوں کا نقصان کرتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ ہماری مساجد کے خطبا کو اس مقدمے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ایمانداری سے عالمانہ رنگ چڑھاۓ اس فریضہ پر کاربند رہنا کار آخرت بھی ہے اور خیر جہاں بھی۔

برسبیل تذکرہ۔

آج میں نے جمعے کی نماز اپنے گاوں کی مسجد میں ہی پڑھی۔اہل قریہ نے جمعہ کے لیے اسپیشل خطیب رکھا ہے جو اچھی تقریر کا ملکہ رکھتے ہیں۔

مگر میں نے نوٹس کی کہ ان کی خطابت اہل قریہ کی سمجھ سے بہت اوپر رہ جاتی ہے۔بلکہ اکثر باؤنس کر جاتی ہے۔مثلا ابھی رجب میں معراج جسمانی و روحانی کی ان باریکیوں پر خطاب کرنے لگے جنہیں ہمارے بعض مولوی قسم کے لوگ بھی شاید باید ہی جانتے سمجھتے ہیں۔

معراج کیوں ہوئی، کیسے ہوئی،کس راستے سے ہوئی،کہاں سے کہاں تک ہوئی، کتنے دنوں میں ہوئی،ام ہانی کے گھر کیوں ٹھہرے،بیت المقدس کی سیر کیوں کرائی، یہ سب حکمت و راز کی باتیں ان عامۃ الناس کے لیے بالکل ہی نفع بخش نہیں ہیں جنہیں سورہ فاتحہ بھی پڑھنا نہیں آتا ہو۔

جنہیں تکبیر تحریمہ میں ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کا ڈھنگ بھی نہ ہو۔نماز کے معاملے میں جو لوگ آج بھی اس قدر جہالت میں ہوں انہیں معراج کے اسرار و رموز سمجھانا ان پر جبر کرنا ہے۔

ہماری مسجد میں دینیات کا سدھ بدھ رکھنے والے سو میں سے بمشکل دو تین ہی ملیں گے ایسے میں فقہی تفسیری بلاغی نوعیت کے خطاب کی معنویت بھینس کے سامنے بین بجانے جیسی رہ جاتی ہے۔

خیر سے خطیب صاحب نے قران کو موصوع بنایا تھا۔ان کی پوری تقریر حروف مقطعات اور حضورﷺ کی فصاحت و بلاغت کے ارد گرد چکر کاٹتی رہی۔

اہل علم جانتے ہیں کہ قرآن کے مقطعات و متشابہات کا معاملہ کتنا سیریس ہے۔حضور کی فصاحت کلامی کو سمجھنے سمجھانے کے لیے عربی دانی کا معیار کتنا اعلی ہونا چاہیے یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

حروف مقطعات کی بحث عوام کے لیے ہے نہیں۔یہ صرف علما کے لیے خاص ہے۔انہیں عوام کے سامنے چھیڑنا عوامی ذہن کو الجھانا ہے۔اب بتائیں کہ جو لوگ اردو کی ایک سطر بھی پڑھ نہیں سکتے، جو تعوذ و تسمیہ کا عمومی مطلب تک نہیں جانتے انہیں “الم اور کھیعص” کے مطلب و مصداق سمجھانا کیسا ہے؟

ایک بات یہ بھی ہے کہ ہماری نوے فیصد مساجد کے امام بس امام ہیں۔مولوی ٹائپ لوگ امامت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔جمعے میں ان کی وہی گھسی پٹی تقریریں سن کر پڑھی لکھی اکثریت کو کوفت ہوتی ہے۔ بعض دفعہ تو کھیج بڑھ جاتی ہے۔

میں نے پٹنہ جیسے تعلیم یافتہ شہر میں دیکھا کہ وہاں کی بڑی بڑی مساجد میں اردو خواں مولوی حضرات امام و خطیب بنے بیٹھے ہیں دو چار کے استثنا کے ساتھ۔یہ لوگ علم و دانش سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ ان کی کل جمع پونجی دعوت اسلامی کی فیضان سنت سے آٹھ دس روایتیں، اور سچی حکایات سے لی گئیں دس بارہ حکایتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

مطالعہ کی کمزوری کے ساتھ زبان کا لاغرپن اس قدر کہ یہ دوسرا کچھ بول بھی نہیں سکتے۔اسلوب بیان تو جانے ہی دیں۔

یہ دونوں قسم کے خطیب سے جامعین و مصلین کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔خطاب و کلام کا مطلب ہے کہ خطیب و متکلم سامعین و قارئین کی ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے بات کرے۔جیسا کہ حدیث میں ہے “کلموا الناس علی قدر عقولھم”۔

جو اپنے تنفس کا قضیہ سمجھنے سے قاصر ہے انہیں آئزک نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری ( Theory of Gravity)سمجھانا، یا جسے خود کے وجود و عدم کی حیثیت معلوم نہیں اس کے سامنے چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا(The theory of evolution) پر لکچر دینا،جو بسبب عدم علم طوفان و زلزلے پر غور کرنے کا اہل ہی نہیں

انہیں Big Bang تھیوری سمجھانا کتنا عبث ہے سوچنے کی بات ہے۔ دیہات کی بنسبت شہروں میں پڑھے لکھے مصلین کی تعداد بہت بہتر رہتی ہے۔

اس لیے وہاں ضروریات دین سمجھانے کے بعد خطیب کو زیبا ہے کہ وہ اسلامیات کے مختلف گوشوں پر گفتگو کرے۔

اسلام و قران کی سائنسی توجیہ کرے۔ہر خطاب پچھلے خطاب سے بہتر ہو۔مگر دیہات کی ان ناخواندہ بستیوں میں جہاں آج بھی لوگ مشرکانہ رسوم اور اسلامی تعلیمات میں فرق نہیں کر پاۓ ہیں جہاں لوگوں سے وضو کے چار فرائض درست طور پر ادا نہیں ہو پاتے، انہیں بڑی بڑی باتیں سنانا ان کے عقلی معیار کو نظر انداز کرنا ہے جو قطعا سود مند نہیں ہے۔

مقتضاۓ حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے زمینی حقائق کو سمجھے بغیر کلام کرنا بھی خطابت کے اصول کے منافی ہے۔

 

علما سے اکثر سنا گیا ہے کہ جہاں جیسی محفل ہو ویسی ہی تقریر ضروری ہے یعنی خطیب کو چاہیے کہ مجلس سے متعلق موضوع کا ہی انتخاب کرے۔میرے خیال میں اس اصول سے کلیۃ اتفاق بھی ممکن نہیں۔اس بات کو دو تجرباتی زاویے سے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

کچھ دنوں پہلے میرے پڑوس میں(جہاں راقم نے لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں کچھ مہینے امامت کی تھی) ایک رشتے دار کے گھر جانا ہوا، جمعرات کا دن تھا۔مسجد کے نئے امام صاحب نے ہر جمعرات صحن مسجد میں اجتماعی فاتحہ خوانی کی ریت ڈال رکھی تھی۔مجھے بھی بلا لیا گیا۔

فاتحہ و میلاد کے موضوع پر امام صاحب دھواں دھار خطاب کر رہے تھے۔فاتحہ پر بولتے ہوۓ امام جلال الدین سیوطی کی کسی روایت بیان کرنے لگے۔نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا کہ جس نے ایک دن میلاد شریف اور فاتحہ کا اہتمام کر لیا اس کے لیے جنت کے دروازے منتظر ہوتے ہیں۔

یہ روایت درست ہو بھی جاۓ تب بھی جہاں اسے بیان کیا جا رہا تھا وہ محل نہیں تھا۔کیوں کہ جہاں سو ڈیڑھ سو کی آبادی کے باوجود پنج وقتہ نمازی کے لیے مسجدیں منتظر رہ جاتی ہیں وہاں فاتحہ و میلاد کی روایات سنا کر ان

بھولے لوگوں کو مزید دین سے دور گمراہی کی طرف دھکیلنے جیسا ہے۔میلاد و فاتحہ کی قدر و قیمت اپنی جگہ، پر بے نمازی محلے میں اسی کا راگ چھیڑ دینا خلاف حکمت کلام ہے۔

تقریبا آٹھ نو سال قبل مشرقی چمپارن میں ہندو آبادی کے درمیان بسی ایک مسلم بستی میں خطیب نے سیرت پر خطاب شروع کیا۔

ایک گھنٹے کے خطاب میں صرف یہی دہراتے رہے کہ صحابی نے حضور کا بول شریف پی لیا تو حضور نے فرمایا کہ اب تمہیں کبھی بیماری نہیں ہوگی۔میں یہ دیکھ کر پریشان تھا کہ اس محفل میں درجنوں ہندو بھی بیٹھے تھے وہ کیا تأثر لیتے ہوں گے۔

سیرت کی حکمتوں کو سمجھنا سب کے بس کی بات کہاں۔اصحاب جرح و تعدیل کے نزدیک یہ روایت اگر صحیح ہے بھی تو اسے کہاں کیسے کس پیراۓ میں بیان کرنا ہے اس کی حکمت و مصلحت سے وہ خطیب بالکل بے بہرہ تھا۔بار بار لفظ “پیشاب” دہراتا رہا۔ان لوگوں کو لفاظی پر تو ید طولی حاصل رہتا ہے سو اسی روایت میں ایک گھنٹہ ہضم کر گیا۔

جامع مسجد میں ہونے والا خطاب کئی جہت سے اہم ہوتا ہے۔اس وقت سارے لوگ متوجہ ہو کر سن رہے ہوتے ہیں۔مساجد کے خطاب پر لوگ عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

لوگوں پر مساجد کے خطاب کی تاثیر تو بہر حال ہوتی ہے۔اس لیے مساجد کے ائمہ و خطبا ان چیزوں کا خیال رکھیں تو سونے پہ سہاگہ۔ورنہ کیا، وقت پہلے بھی ہجومی جلسوں میں ضائع کئے جاتے تھے، مسجدوں میں بھی ضائع ہی رہیں گے۔

از قلم : مشتاق نوری

5 thoughts on “جمعہ کا خطاب چند حل طلب مسائل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *