جنگِ آزادی کی تحریکات اور علما کا کردار
جنگِ آزادی کی تحریکات اور علما کا کردار
فرحان بارہ بنکوی
جنگِ آزادی کی تحریکات کا دور دورہ چل رہا تھا اور ہر محب وطن، غیر ملکی سوداگروں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ظلم و جور سے پریشان شخص علمِ بغاوت بلند کیے ہوئے اور برائے حصولِ آزادی جامِ شہادت نوش کرنے کے لیے ہمہ تن تیار تھا۔
حصولِ آزادی کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی تھیں۔ تحریکِ ریشمی رومال، تحریک خلافت، ترکِ مولات کے فتاویٰ وغیرہ کے ذریعے تمام ہندوستانی بالخصوص علما آزادئ ہند کے لیے بر سرِ پیکار تھے۔ نیز پورے ملک کے سیاست دان اور مجاہدینِ آزادی حصولِ آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے؛ مگر ابتدا میں وہ جزوی آزادی اور حصولِ حقوق کے لیے کوشاں تھے۔
اسی درمیان ۱۹۲۷ء میں ہندوستانی عوام اور مجاہدین کے آزادئ ہند کے مطالبات کے نتیجے میں برطانیہ کی طرف سے ہندوستان کے لیے ایک آئینی کمیشن مقرر کیا گیا۔
مذکورہ بالا کمیشن کے چیئرمین ’’سر جان سائمن‘‘ تھے؛ اس لیے عموماً اسے ’’سائمن کمیشن‘‘ کہتے ہیں۔ ’’سائمن کمیشن‘‘ کو حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے آئین و دستور میں اصطلاحات کے لیے مقرر کیا تھا؛ تاکہ تحریک آزادی کے جوش کو وقتی طور پر مسترد کردیا جائے۔
اس کمیشن کے اعلان کے بعد علما نے غیر ملکی وفود اور کمیشن کا بائیکاٹ کا خاکہ تیار کیا اور برطانیہ کی جانب سے دی جانے والی جزوی مراعات و حقوق سے بے اطمینانی کا اظہار کیا
چناں چہ سب سے پہلے کامل آزادئ کا نعرہ جمعیۃ علماے ہند کے ساتویں اجلاسِ عام (منعقدہ ۱۱؍ تا ۱۳؍ مارچ ۱۹۲۷ء) میں بلند ہوا اور کامل آزادی ہند کی تجویز منظور کی گئی۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی فرما رہے تھے۔ اس سے پہلے جزوی آزادی اور جزوی اختیارات کی لڑائی لڑی جا رہی تھی، جیسا کہ نہرو رپورٹ سے واضح ہے۔
اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے آٹھویں اجلاس (منعقدہ ۲؍ تا ۴؍ دسمبر ۱۹۲۷ء، بمقام: پشاور) میں، جس کی صدارت حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ فرما رہے تھے۔ اس اجلاس میں آزادئ ہند کی تجویز میں یہ الفاظ لکھے گئے: ’’آزادی عطا نہیں کی جاتی؛ بلکہ اپنی جد و جہد سے حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ اور پھر سائمن کمیشن کے مکمل مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے آٹھویں اجلاس میں اس کمیشن کی مخالفت کی گئی۔ اس کے بعد کانگریس نے بھی اپنے اجلاس مدراس (منعقدہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۲۷ء میں سائمن کمیشن کے مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
ان کے بعد ہندوستان کی تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں، خصوصاً مرکزی خلافت کمیٹی، مسلم لیگ اور ہندوستان کے لبرل رہنماؤں نے اس کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
بہرحال سائمن کمیشن مقاطعہ اور بائیکاٹ کے باوجود معاونت کی امید پر ۳؍ فروری ۱۹۲۸ء کو برطانیہ سے ہندوستان آیا؛ لیکن ہر طرف سے عدم تعاون، شدید مزاحمت کا سامنا، سائمن گو بیک (Cimon Go Back (سائمن واپس جاؤ) کے نعروں اور جمعیۃ علمائے ہند اور دوسری تنظیموں کی شدید مخالفت کی وجہ سے ۳۱؍ مارچ ۱۹۲۸ء کو ناکام و نامراد برطانیہ واپس چلا گیا۔
نہرو رپورٹ اور علما کا کردار:
وزیر اعظمِ برطانیہ نے لندن پارلیمنٹ میں اعلان؛ بلکہ چیلنج کیا کہ اگر ہندوستان آزادی کا مطالبہ کرتا ہے تو ایک دستور مرتب کرکے پیش کرے۔ ہم اس دستور کو منظور کرکے، ان کی مرضی کے موافق حکومت بنا لینے کا موقع فراہم کریں گے۔ اس چیلنج کے جواب میں ’’موتی لعل نہرو‘‘ کی سرکردگی میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اسی دستوری مسودے کو ’’نہرو رپورٹ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس کمیٹی کی سرکردگی میں ہندوستان کے دستور کے لیے ایک مسودہ تیار کیا گیا تھا؛ لیکن اس مسودے میں بعض دفعات مذہبی امور میں دخل انداز تھیں، نیز خاص بات یہ تھی کہ کامل آزادی سے احتراز کرتے ہوئے، حکومت برطانیہ کے زیر نگیں رہ کر، آئین مراعات حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا؛ اس بنا پر جمعیۃ علماء ہند نے اس کی مخالفت کی اور کانگریس کا تعاون بالکل نہیں کیا۔
اس کے بعد کانگریس نے اپنے اجلاسِ لاہور (منعقدہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۱ء) میں جزوی آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے کامل آزادی کی تجویز منظور کر لی۔
۱۹۲۹ء میں کانگریس نے اپنی ستیہ گرہ کا دوبارہ آغاز کیا اور آزادی کے مطالبہ کو لے کر خلاف قانون ’’نمک سازی‘‘ کی تحریک شروع کی۔ حکومت نے اس وقت نمک سازی پر پابندی عائد کر دی تھی، اس حکم کی خلاف ورزی کو ستیہ گرہ کی بنیاد بنایا گیا؛ چنانچہ علماے دیوبند میں سے: ’’مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی‘‘ ڈابھیل (گجرات) سے چل کر ڈانڈی پہنچے اور ’’نمک ستیہ گرہ‘‘ میں حصہ لیا اور گرفتار ہوئے۔
اس ستیہ گرہ میں مولانا محمد میاں دیوبندیؒ اور مولانا فخر الدین احمد مراد آبادیؒ وغیرہ بھی تھے۔ اس کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کے درجنوں اراکین، دوران تحریک گرفتار ہوئے اور عتاب کی کشتی میں سوار کیے گئے۔ اس میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی بھی تھے۔
۵؍ مئی ۱۹۳۰ء کو جمعیۃ علماے ہند کا اجلاس امروہہ (ضلع مراد آباد) میں ہوا۔ جس میں ترکِ موالات اور عدمِ تعاون کی تجویز (سول نافرمانی) کی تجدید کی گئی اور کانگریس کی تحریک ’’سول نافرمانی‘‘ سے تعاون کرنے کی تجویز پاس ہوئی۔ نیز جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے کانگریس کی ہم نوائی اور اس کی تحریکوں میں شرکت کا اعلان کیا گیا۔
اس اجلاس کے تیسرے ہفتے بعد عظیم رہنما مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، اس سے پہلے سول نافرمانی کے سلسلے میں ۱۹۲۹ء میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید فخر الدین احمد مراد آبادیؒ، مولانا سید محمد میاں دیوبندی اور مولانا بشیر احمد بھٹہ وغیرہ کو گرفتار کرکے میرٹھ جیل میں رکھا گیا۔
’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ اور ’’کانگریس‘‘ تحریک آزادی کے سلسلے میں حکومت کی نگاہ میں تمام جرموں میں ملوث تھی؛ اس لیے جمعیۃ علماء ہند کے رہنماؤں میں اکثر اس سول نافرمانی میں سلاخوں کے پیچھے بند کیے گئے۔
۱۹۳۱ء ۱۹۳۲ء کی تحریک سول نافرمانی میں جمعیۃ علماء ہند نے بھرپور ساتھ دیا اور مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے ڈکٹیٹر کی حیثیت سے ایک لاکھ افراد کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے، دہلی کے آزاد پارک میں گرفتاری پیش کی اور ۱۸؍ دن جیل میں رہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۹۰؍ ہزار افراد اس تحریک کے دوران گرفتار کیے گئے، جن میں ساڑھے ۴۴؍ ہزار مسلمان تھے۔
گاندھی ارون پیکٹ کے تحت سول نافرمانی اور ستیہ گرہ کی تحریک عارضی طور پر ختم کر دی گئی اور تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے؛ لیکن مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کو نہیں چھوڑا گیا۔وعدہ خلافی کی بنا پر ۱۹۳۲ء میں کانگریس اور جمعیۃ علماء ہند دونوں نے ستیہ گرہ اور سول نافرمانی کا دوبارہ آغاز کر دیا۔
بھارت چھوڑو تحریک: ۸؍ اگست ۱۹۴۲ء کو مہاتما گاندھی نے آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس، (منعقدہ: گولیار ٹینک میدان، ممبئی۔ جس کی صدارت مولانا ابو الکلام آزاد فرما رہے تھے) میں اپنے قریبی اور اس وقت کے ممبئی کےمئیر ’’یوسف مہر علی‘‘ کی تجویز پر ’’بھارت چھوڑو‘‘ اور ’’کرو یا مرو‘‘ کا نعرہ دیا۔ نیز کانگریس کی اس ’’بھارت چھوڑو‘‘ تحریک کی تائید جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے بھی کر دی۔ بعد میں اسی نعرے میں جنگِ آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔
حصول آزادی:
جولائی ۱۹۴۵ء میں برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کو غلبہ حاصل ہوا اور زمام حکومت اس کے ہاتھ آئی۔ لیبر پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد کلیمنٹ ایٹلی انگلستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے؛ چونکہ لیبر پارٹی ہندوستانیوں سے ہمدردی رکھتی تھی اور اس کے آزادی کے مطالبات میں ہم نوائی کرتی تھی؛ اس لیے ہندوستانی رہنماؤں نے اس کے ہاتھ میں زمام حکومت آنے سے خوشی کا اظہار کیا اور امید کی ایک کرن دکھائی دی۔
برطانیہ کے وزیر اعظم نے برطانوی ایوان (پارلیمینٹ) میں ہندوستان کو جلد سے جلد آزادی کا پروانہ سوپنے کا اعلان کیا۔ وائس رائے نے بھی برطانوی حکمران کی جانب سے، جلد ہی آئین ساز اسمبلی کے قیام کا اعلان اور صوبوں میں ذمے دار حکومتوں کے قیام کا اعلان کیا۔
لیبر پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی، اس نے ایک پارلیمانی وفد، مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے ہندوستان بھیجا۔ اس وفد کی رپورٹ کی روشنی میں وزیر اعظم برطانیہ کلیمنٹ ایٹلی نے دارالعوام میں ۱۵؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو ہندوستان، ایک کبینٹ مشن بھیجنے کا اعلان کیا؛ تاکہ وہ آزادی کے متعلق تجویز پیش کرے۔
۲۴؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو برطانوی ممبران کبینٹ پر مشتمل تین نفری وفد کیبنٹ مشن نئی دہلی پہنچا۔ یہ کیبنٹ مشن ہندوستان کے تمام فرقوں اور جماعتوں سے ملاقات و مذاکرات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا اصل سبب ایک ’’متحد ہندوستان بنام پاکستان‘‘ تھا۔ مسلم لیگ کے علاوہ تمام جماعتیں متحد ہندوستان کی حامی تھیں، اس کیبنٹ نے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد متعدد تجاویز پیش کیں۔
۲۹؍ جون ۱۹۴۶ء کو کیبنٹ مشن ہندوستان سے واپس چلا گیا۔
جولائی ۱۹۴۶ء میں دستور ساز اسمبلی کے انتخابات عمل میں آئے۔ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۶ء کو جواہر لال نہرو کی قیادت میں عارضی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی۔
۲۰؍ فروری ۱۹۴۷ء کو برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ برطانیہ جون ۱۹۴۸ء تک کلی اختیارات ہندوستان کو سونپ دے گا۔
مارچ ۱۹۴۷ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے کی حیثیت سے آئیں اور انہوں نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک کی تقسیم ہی فرقہ وارانہ مسئلے کا واحد حل ہے۔
انہوں نے اس نقطۂ نظر کو اربابِ حل و عقد کے سامنے پیش کیا اور برطانیہ سے واپس ہندوستان آکر ۳؍ جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ملک کے منصوبے اور پلان کا اعلان کر دیا، جسے ماؤنٹبیٹن پلان کہتے ہیں۔
اس پلان کی کانگریس کے مسلم ممبران نے زبردست مخالفت کی؛ مگر کانگریس نے اس پلان کو منظور کرلیا۔ نیز اس پلان کی تائید محمد علی جناح، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار بلدیو سنگھ نے کی۔
۱۴؍ جون ۱۹۴۷ء کو کانسٹی ٹیوشن ہاؤس نئی دہلی میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں تقریباً ۶۰۰؍ ارکان تھے اور ولبھ پنت (وزیر اعلی اتر پردیش) نے کمیٹی کے سامنے ’’تقسیم ہند‘‘ کی تجویز پیش کی اور اس تجویز پر کانگریس نے مہر تصدیق ثبت کر دی ’’تقسیم ہند‘‘ کی تجویز کی مخالفت صرف مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے کی۔
جولائی ۱۹۴۷ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’’قانون آزادی ہند‘‘ پاس کر دیا اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب میں ملک ہندوستان آزاد ہوگیا اور ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان ابھر کر سامنے آیا۔
۱۴؍ و ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب میں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ہندوستان کی آزادئ کامل کا اعلان کیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں آزاد ہندوستان کی مجلس وزرا کا قیام عمل میں آیا۔
۱۴؍ و ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب میں دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کیا گیا اور گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے جواہر لعل نہرو کو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کا حلف دلایا، نیز ان کی مجلس وزرا کے دوسرے اراکین کو بھی حلف دلایا گیا اور ٹھیک ۱۲؍ بجے شب میں ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ سے ہندوستان کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔
۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو صبح جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے لال قلعہ سے خطاب کیا۔
سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ