مغربی معاشرے میں دیانت داری کی ایک جھلک
پس پردہ مغربی معاشرے میں دیانت داری کی ایک جھلک
ایک انسان کو دوسرے انسان کی اچھی عادتیں اختیار کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے
ڈاکٹر غلام زرقانی ، چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
آگے بڑھنے سے پہلے میں واضح کردوںکہ کہیں ہزارخرابیوں کے درمیان کسی خوبی کی موجود گی اوردوسری طرف ہزار خوبیوں کے درمیان ایک برائی کا وجود حیرت واستعجاب کی کوئی بات نہیں ، بلکہ یہ عمومی جھلک ہمارے شب وروز کاحصہ ہے ، جس کی مثال ڈھونڈنے کے لیے کہیں دور جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
حدیث کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں میری خواہش ہوتی ہے کہ اگر کہیں کوئی حکمت ودانائی اور قابل ستائش کوئی خوبی دکھائی دے ، تومیں اسے اپنے ناظرین کے سامنے پیش کردوں ۔ کیا عجب کہ زیادہ نہ سہی ، چند احباب بھی اسے اپنی معمولات حیات میں شامل کرلیں ، تومیں سمجھوں گا کہ میری کوشش بارآور ہوگئی ۔
میں اس وقت ہالینڈ سے امریکہ کے سفر پر محو پرواز ہوں ۔ کل اپنے ایک کرم فرما حاجی علی صاحب کے ساتھ ہالینڈ کے شہر یوترخ کے دیہی علاقوں سے گزر رہاتھا ۔ راستے میں جگہ جگہ بڑے بڑے زراعتی فارم دکھائی دیے، جس کے کنارے سڑک سے متصل سلیقے سے گھر بنے ہوئے تھے ۔
موصوف نے بتایا کہ یہ لوگ یہیں رہتے ہیں اورپھل ،سبزیاں اور پھولوں کی کاشت کرتے ہیں ۔
یہ کسان بڑے تجارتی مراکز سے معاہدے کرلیتے ہیں ، جن کی لاریاں مقرر اوقات میںآجاتی ہیں اورذمہ داران مناسب قیمت ادا کرکے چیزیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ تاہم چند ایسے بھی چھوٹے کسان ہوتے ہیں ، جو کسی سے معاہدہ نہیں کرپاتے اور وہ اپنے طور پر ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں ۔
اس کام کے لیے انھوں نے اپنے گھر کے سامنے سڑک سے متصل ایک الماری رکھی ہوتی ہے اور نیچے قیمت ڈالنے کے لیے ڈبہ ۔آنے جانے والے لوگ اپنی گاڑیاں روک دیتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں لے کر بورڈ میں تحریر کردہ قیمت ڈبے میں خود ہی ڈال دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ خود کار دکانیں ہیں ،
جن پر دکان دار نہیں ہوتے ، بلکہ لوگ دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، مطلوبہ سامان لے کر مقرر ہ قیمت ڈبے میں جمع کردیتے ہیں ۔
شاید آپ یہ کہیں کہ سامنے گھر میں بیٹھے ہوئے وہ اپنی عارضی دکان پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ یہ سرتاسر دیانت داری کی اعلی ترین مثال ہے ، جومغربی معاشرے کی تہذیب کا جزولاینفک ہے۔لوگ کسی طرح کے بیرونی دباؤ کے بغیر ہی اس پر عمل کرتے رہتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح میں نے کناڈا کے غیر آباد جنگلوںسے گزرتے ہوئے دیکھا کہ شہد کشید کرنے والے سڑکوں کے کنارے شیشے کے چھوٹے چھوٹے مرتبان میں شہدرکھ دیتے ہیں اور قیمت ڈالنے کے لیے ایک ڈبہ ۔
یہاں تودور دور تک کوئی آبادی ہوتی ہی نہیں ہے، لیکن لوگ کمال دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واجبی قیمت ڈبے میں ڈالتے رہتے ہیں ۔
لگے ہاتھوں ایک اور جہت بھی سامنے رہے ۔ غالبا دوتین سالوں پہلے کی بات ہے کہ ہالینڈ کے مرکزی شہر ایمسٹرڈیم میں ایک صاحب نے میری دعوت کی۔ وقت مقررہ پر وہ اپنی کارلےکر میرے عارضی مستقر پر آگئے ۔
جلدی جلدی میں نے تیاری کی اور ان کے ساتھ آگے والی نشست پر بیٹھ گیا۔ کار محلے کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہائی وے پر آگئی۔ موصوف کے آباء واجداد ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں ،
جنھیں برطانوی حکومت نے بزور طاقت سورینام منتقل کیا۔بتایا جاتاہے کہ اُس زمانے میں چپو والی بڑی کشتیوں پر ٹھونس ٹھونس کر یہ لوگ سوار کیے گئے اور نہایت ہی مشکل حالات سے گزرتے ہوئے کسی طرح سورینام پہنچے۔ اس طرح سورینام میں اچھی خاصی تعداد میں ہندوستانی نسل کے لوگ آباد ہیں ۔ جب سورینام پر ہالینڈ نے قبضہ کرلیا، تودونوں ممالک کے
درمیان آمد ورفت میں اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں بہت بڑی تعداد میں سورینام سے تعلق رکھنے والے مسلمان آباد ہیں ۔ بہر کیف، موصوف کے ساتھ دینی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ہم ایک محلے میں داخل ہوئے اور چند گلیوں سے
گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اتنے میں موصوف نے اپنی گاڑی کنارے روک دی ۔ دیکھا توسڑک کے کنارے ایک باسکٹ میں بیگن ، ٹماٹر، مرچ اور کدو وغیرہ رکھے تھے ۔
جناب نے دوچار چیزیں اٹھالیں اور دوبارہ کار میں آکر بیٹھ گئے ۔ میں نے پوچھ لیا کہ آپ نے بغیر کسی سے پوچھے یہ چیزیں اٹھالیں۔ موصوف نے بتایا کہ یہاں بڑی عمر کے لوگ وقت گزاری کے لیے اپنے گھر کے عقبی حصے میں سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں ۔
جب انھیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ان کی اپنی ضرورت سے زیادہ ہوگیا ہے ، تووہ اپنے گھروں کے سامنے رکھ دیتے ہیں ، تاکہ جو چاہے اپنی خواہش کے مطابق انھیں لے جائے۔ اس طرح یہاں کی تہذیب وتمدن کے آئینے میں ہمیں اجازت عام حاصل ہے ، جس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
اندازہ لگائیے ، کیا ہندوپاک میں یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ لوگ گھروں میں کاشت کی ہوئی اضافی سبزیاں اپنے گھروں کے سامنے رکھیں۔اور اگربفرض محال کہیں کوئی جیالہ ہمت کر بھی لے تویہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آس پڑوس کے لوگ
صرف ضرورت کے مطابق دوچارچیزیں ہی اٹھائیں گے ،بلکہ توقع یہی ہے کہ وہ نہ صرف سارے کا سارا اٹھاکر لے جائیں گے ، بلکہ ساتھ ساتھ باسکٹ پر بھی ہاتھ صاف کرلیں گے۔خیال رہے کہ یہ فرضی اندیشہ نہیں ہے ، بلکہ تجرباتی حقیقت ہے ۔ معاف کیجیے گا کہ ہمارے یہاں عام طورپر حرص وطمع کچھ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ لوگ دوسروںکی امداد واعانت کے حوالے سے کم سوچتے ہیں ، بلکہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہے ، وہ سب کا سب ہمارے قبضے میں آجائے ،خواہ دوسرے مستحق بالکل محروم رہ جائیں ۔
صاحبو! سوچتاہوں تودماغ پھٹنے لگتاہے کہ دیانتداری کے پس منظر میں کہاں ہم اور کہاں یہ لوگ؟ ہمارے یہاں تاجر بھی اپنے خریداروں کو ٹھگنے کی کوشش کرتے ہیں اور خریدار بھی موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کسی طرح نظر بچاکر کوئی انہونی کرلی جائے ۔اسی لیے شاید یہ بات کسی حدتک درست بھی ہے کہ باستثنائے چند، عام طورپر کچھ لوگ
دھوکہ دیتے ہیں اور دوسرے اس لیے دھوکہ نہیں دیتے کہ اب تک انھیں مناسب مواقع نہیں ملے ہیں ۔ اور حیرت بالائے حیرت تویہ ہے کہ ایسی فریب دہی پر بجائے شرمندہ ہونے کے ، اسے ہمارے معاشرے میں نظر استحسان سے دیکھا جاتاہے ا
ور جناب کو چالاک، ہوشیار اور دانش مند ہونے کے معزز القابات سے یاد کیا جاتاہے ۔ ہوسکے تولمحہ بھر کے لیے غور کیجیے کہ اگر کسی برائی پر ہم مجرم کی سرزنش کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کریں گے ، توکیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے میں بااخلاق نسل پروان چڑھے ؟
ghulamzarquani@yahoo.com