سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم
سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم
زمین حجاز پر بیتے دو عشرے۔ 2
از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین:- تحریک علمائے ہند، جے پور
ہمارے ٹور میں راجستھان کے باڑمیر، بھوپال گڑھ، میڑتا، مونڈوا، ناگور اور ہم شیرانی آباد والوں کے الگ الگ گروپ تھے اور اتنے ہی انسانی رنگ اور ان سب رنگوں میں اتنی ہی دور سے نمایاں رنگت۔ مجھے قاری لعل محمد صاحب کے گروپ میں تشریف لائے لوک گیت کے معروف سنگر فقیرا خان کی سادگی بہت بھائی۔ فقیرا خان جہاں دیدہ انسان ہیں۔
کوئی دو درجن ممالک میں اپنے فن کی چھاپ چھوڑ چکے ہیں۔ تین سال کے دورانیے میں امریکہ میں کئی سو پروگرام کر چکے ہیں اور زمین ہند پر بھی ہر پارٹی کے سیاسی رہ نماؤں کے ساتھ ان کے گہرے بلکہ گھریلو قسم کے تعلقات ہیں لیکن نہایت سادہ مزاج، کو آپریٹ کرنے والے اور فرش نشیں انسان ہیں۔
ایک دن مسجد نبوی شریف میں ٹکرائے تو کہنے لگے: دعا کر دیجیے، مجھے اس سال پدم شری مل جائے۔ باہر آکر کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے پدم شری کے لوازمات کی تفصیل جانی تو حیرت ہوئی کہ انھوں نے اپنے ہدف کے لیے فنی، تاثیری اور انتظامی طور پر وہ سب کچھ کر رکھا ہے، جو کیا جانا چاہیے۔
حرم شریف میں طواف و سعی کے بعد جسم کو راحت دیتے ہوئے جو وقت مل جاتا، اس میں دعاؤں پر توجہ ہوتی۔ اپنے لیے، اپنوں کے لیے اور جہاں تہاں کے نوع بنوع ذرائع سے دعاؤں کی گزارش کرنے والے ہر نیک دل کے لیے۔
الحمد للہ میں بشرط یاد غائبانہ طور پر گزارش کنندگان کے لیے اس نیت سے دعا کرتا ہوں کہ دعا کرنا میرے لیے مخلص عبادت اور جس کے حق میں دعا ہو رہی ہے، اس کے لیے دینی نصیحت ہے۔
بات کہنے کی نہیں لیکن اس بار احاطہ حرم میں دل بھر آیا اور دعاؤں کے ساتھ ان کچھ ستم ظریفوں کے لیے بد دعائیں بھی نکل گئیں، جن کی بد طینتی ایک مدت سے دل شکنی کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتی۔ گئے دنوں کی بات ہے جب ایک بلیک میلر فرضی سے اخبار نے ملت کے کچھ سفید پوشوں کے خلاف ہرزہ سرائیاں کیں اور جب پھنسا تو سر تا سر دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اس رذالت کا الزام میرے سر منڈھ دیا جب کہ اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی کل فیصلہ فرمائے گا کہ نہ میرا یہ مزاج اور نہ اس اوچھی حرکت سے میرا کوئی علاقہ بلکہ اس حادثے سے مدتوں پہلے ایک رسمی ملاقات کے سوا اس ظالم صحافی سے آج تک میری کوئی ہائے ہیلو بھی نہیں۔ طرفہ ظلم یہ کہ جو میرے شفاف کردار کے گواہ تھے، انھیں بھی اس تہمت پر یقین کرتے اور بے پر کی اڑاتے دیر نہ لگی۔
چوں کہ اڑتی اڑتی باتوں کے علاوہ براہ راست مجھ تک کوئی بات نہیں پہنچی، اس لیے میں نے بھی بڑھ کر کوئی غیر ضروری صفائی نہیں دی لیکن اگر رب العالمین کے حضور شکستہ خاطر اپنا درد رو دے تو اس پر میرا بھی اختیار نہیں، اب وہی منتقم ہے اور وہی فیصلہ کرنے والا۔ انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ۔
ٹور کے ذریعے ہمیں مکہ مکرمہ میں جبل ثور، میدان عرفات، جبل رحمت، مذبح اسماعیل، منی، مزدلفہ، نہر زبیدہ اور جمرات دکھائے گئے جبکہ انفرادی سطح پر ہم نے جبل ثور اور غار حرا کی چڑھائیاں کیں۔ نہر زبیدہ ہارون رشید کی نیک طینت بیوی کا وہ تاریخی اور یادگار تحفہ ہے جس نے زائرین حرم اور باشندگان بطحا کی 12 صدیوں تک پیاس بجھائی۔
ویکی پیڈیا کے مطابق: زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو در پیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انھوں نے مکہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال و زر سے نوازتی رہتی تھیں اور حج و عمرہ کے لیے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ”جبل طاد“ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔
مزید ایک نہر جس کا پانی ”جبل قرا“ سے ”وادی نعمان“ کی طرف جاتا تھا، اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا. یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر بئر زبیدہ کے نام سے موسوم ایک تالاب تھا، جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا
اس سے بھی سات مختلف کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اندازے کے مطابق اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ (17,00,000) دینار خرچ ہوئے تھے۔ (ویکی پیڈیا، نہر زبیدہ)
12 سو سالوں تک مشاعر مقدسہ اور حرم شریف میں روزانہ 600 سے 800 کیوبک میٹرپانی پہنچانے والی اس 35 کلومیٹر لمبی نہر کو بنانے میں دس سال کا وقت لگا۔ وادی نعمان سے پہلے میدان عرفات، مزدلفہ اور پھر مکہ مکرمہ تک نہر کو ایک ڈھلوان کی صورت میں لایا گیا۔ اس کی انجینرنگ اتنی زبردست ہے کہ نہر نشیب و فراز سے گزرتی، وادیوں اور پہاڑوں کے گھماؤ دار راستوں سے گھومتی ہوئی چلتی ہے لیکن اس کے پانی کا لیول ایک سطح پر برقرار رہتا ہے۔
مصری ماہرین کی رپورٹ کے مطابق وادی نعمان سے پانی پہلے عرفات لے جایا گیا۔ اس کے لیے ڈھلوان کی شکل میں پختہ انڈر گراﺅنڈ واٹر چینل بنایا گیا تاکہ پانی خود بخود بہتا ہوا جائے۔ پانی کا لیول یکساں رکھنے کے لیے کہیں یہ چینل نہر زمین سے اوپر ہے اور کہیں زمین کے نیچے۔ چینل کو پتھر اور چونے کی مدد سے پختہ کیا گیا تاکہ زمین سے حاصل ہونے والا پانی دوبارہ جذب نہ ہو جائے یعنی پوری نہر زبیدہ کو خواہ وہ زمین کے اوپر ہو، یا اندر پتھروں کو چونے سے جوڑ کر پلاسٹر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب سروے کے بعد انجینئرز نے زبیدہ خاتون سے یہ نہر نکال پانے کی گوناگوں مشکلات کا ذکر کیا تو اس پر عزم ملکہ نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا: ہر قیمت پر نہر کی تعمیر کی جائے خواہ ہرکدال کی ضرب پر ایک دینار ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
ملکہ زبیدہ کے حجاج و معتمرین سے غیر معمولی لگاؤ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس خوش نصیب خاتون نے بغداد سے مکہ مکرمہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے ایک گراں قیمت گزر گاہ بھی بنائی تھی، جسے درب زبیدہ کہا جا تا ہے۔ (اردو نیوز) قاری لعل محمد صاحب کی ترغیب تھی کہ ہمیں غار ثور اور غار حرا پر ضرور جانا چاہیے کیوں کہ وہاں جانے سے ہمیں اسلام کے لیے دی گئی قربانیوں کا واقعی احساس ہوتا ہے۔ قاری صاحب کی یہ معقول بات دل کو لگی اور سچی بات یہ ہے کہ اگر قاری صاحب قبلہ کی ترغیب و تشویق نہ ہوتی تو شاید میں ذاتی طور پر سطح سمندر سے 748 میٹر بلندی پر واقع اس پہاڑی پر چڑھنے کی ہمت نہ کر پاتا۔ ہانپتے کانپتے، رکتے رکاتے، کبھی پھسلتے، کبھی سنبھلتے اور لرزتے پاؤں کے ساتھ کوئی دو گھنٹے کی مسلسل مشقت کے بعد اس کی چوٹی پر چڑھ جانے کے بعد احساس ہوتا ہے: یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔
آج تو بہت حد تک جیسے تیسے زینے بھی بنے ہوئے ہیں اور زائرین کی مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے راستہ بھی قدرے پامال ہے لیکن ہجرت کے موقع پر جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار کے ساتھ اس جگہ قدم رنجہ فرمایا تھا، اس وقت تو اس قدر چڑھائی کے لیے پامالیاں تو دور ہر کسی کے خیال میں بھی یہ باتیں نہیں گزرنی چاہیے کہ اس بلندی پر بھی کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
قاری صاحب نے اس طرح پوری چڑھائی کو اپنے فیس بک پیج پر لائیو کر رکھا تھا، جب انھوں نے تعاقب کرتے ہوئے ہماری کچھوا چال کو پا لیا تو موبائل کا کیمرہ ہماری طرف گھماتے ہوئے تاثرات پیش کرنے کی فرمائش کرنے لگے، اس وقت یہ سوچ کر دل بھر آیا کہ آج ہم بھری جوانی میں دن کے اجالے میں جہاں چڑھتے ہوئے مرے جاتے ہیں، حضرت یار غار کی صاحب زادی حضرت سیدہ اسماء بنت ابو بکر، شاہ زادے حضرت عبد اللہ بن ابو بکر اور غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کس جواں ہمتی کے ساتھ رات کی تاریکیوں میں خبریں لانے، کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔
کسی کو یوں ہی لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ۔ (سورہ توبہ: 40) کا مژدہ نہیں سنایا گیا اور سستے داموں میں ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ۔ (ایضا) کی عظیم ترین فضیلت اور شہادت صحابیت نہیں دے دی گئی۔ یہاں کی کوہ پیمائی سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی ہی نہیں، بعد وفات بھی رفاقت نبھانے والی شخصیت کے لیے یار غار کا لفظ قطعاً چھوٹا نہیں کیوں کہ غار جیسے نازک ترین مقام کی یاری کسی ایسی ہی شخصیت کا مقدر ہو سکتی ہے، جس کی واقعی عظمت کی کلام اللہ ہی شہادت دے سکتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی کے اس جذبہ عشق و مستی پر کس مسلمان کے ایمان میں حرارت عشق نہ پیدا ہو کہ جب مسلسل چڑھائی کی وجہ سے حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک پاؤں بوجھل ہوگئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تمام تر تکان کے باوجود جان ایمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور یوں ہی غار تک لے گئے۔
غار ثور چند تہہ و بالا ٹولیوں کی وہ کھوہ ہے جس میں جھک کر داخل ہوا جا سکتا ہے۔ یہاں دو غار ہیں جن کے بارے میں پناہ گاہ رسالت ہونے کے دعوے ہیں، لیکن کتابوں میں منقول مکالمہ صدیق و حبیب سے پہلے غار کو تقویت ملتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی کم حیرت ناک نہیں کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی کس بلا کے دشمن تھے، جنھوں نے اس اونچائی تک پیچھا کر لیا اور ان کی یہ دشمنی کتنی تجربہ کار تھی کہ قدموں کے نشانات سے ٹھیک مقام تک رسائی بھی حاصل کر لی لیکن کیا شان قدرت کی بھی کیا کام یاب خفیہ تدبیر ہے کہ مکڑی کبوتر کے ہلکے پھلکے بہانوں کی وجہ سے وہ اپنے پاؤں کی طرف بھی نہ دیکھ سکے اور نتیجتاً دشمنان رسالت کی دشمنی نے منہ کی کھائی اور حضرت محبوبِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت و ہجرت فاتح رہے۔
غار ثور کی دوسرے روز ظاہر ہوئی اس آزمودہ کرامت پر بات ختم ہو جاتی ہے کہ دوسرے دن ہمارے پاؤں میں نہ سوزش تھی، نہ محض یاد داشت کے علاوہ ہلکا پھلکا بھی جسمانی احساس کہ کل ہم نے کوئی بڑا تیر مارا تھا۔
(جاری)
Pingback: زمین حجاز پر بیتے دو عشرے ⋆ اردو دنیا از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی