ہم اور ہمارا سیمانچل ایک جائزہ
ہم اور ہمارا سیمانچل ایک جائزہ
نشاط رومی مصباحی (کٹیہار، بہار)
سیمانچل کی مذہبی، ملی، سماجی، سیاسی، ثقافتی اور تعلیمی پسماندگی پر خوب لکھا جارہا ہے، بولا جا رہا ہے۔ مگر افسوس بازیابی کی خاطر ہم اب تک سوشل میڈیا سے اٹھ کر زمینی سطح پر نہیں آ پارہے ہیں۔ ادھر چند سالوں سے ہمارے نونسل علما، یہاں کی پسماندگی پر مسلسل لکھ رہے ہیں۔
اور علاقے کی صلاح و فلاح کے تئیں اپنے کارآمد و سودمند افکار کو زیب تحریر لارہے ہیں۔ بلا شبہ یہ اپنے آپ میں ایک انقلاب ہی ہے۔ کم از کم یہ شعور تو بیدار ہوا کہ کیا ہونا چاہیے؟ اور کیا نہیں؟، کم از کم نفع و نقصان کی معرفت تو ہوئی ہے۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس جوش و خروش کے ساتھ ہمارے علما برادری میں بیداری آئی اس کے مطابق ایک فیصد بھی زمینی سطح پر کام نہیں ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو اب روز بروز تنقید نگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کارگزاروں کا دور دور تک اتا پتا نہیں۔ ”لکھنا، بولنا“ اپنی جگہ اور بہت حد تک اہم ہے۔
مگر ”کام“ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔
تقریباً دو تین سالوں سے ادھر میرا رہنا سہنا گھر میں زیادہ ہونے لگا۔ اور اگر سچ کہوں تو اپنی عمر اور تعلیم کے کچھ مراحل طے کرنے بعد سوچنے، سمجھنے کی بھی صلاحیت کچھ سالوں سے ہی بیدار ہوا ہے۔ ورنہ پہلے تو حال کچھ یوں تھا کہ؛
میں رہا تو باغ ہستی میں مگر
بے نوا، بے آشیاں، بے پر رہا
جب فکر و شعور کی آنکھیں کھلیں تو یہاں کے حالات اور ماحول کو دیکھ کر کوفت سی محسوس ہونے لگی۔ ایک طرف ہم یہ دہائی دیتے نہیں تھکتے کہ سیمانچل میں بے تحاشا غربت ہے، دوسری طرف لاکھوں میں بڑے بڑے اجلاس و اعراس منعقد کرکے اپنی اسلامیت اور سنیت کا ثبوت دینے میں مصروف ہیں۔
اور تعلیمی اداروں کے نام پر ٹین اور پھوس سے بنے کمروں پر مشتمل ادارے، اور چند پکی تعمیر والے ادارے جہاں نا حسن تعلیم ہے نا بوۓ تربیت۔ دن بھر کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے والے، بے چارے سادہ لوح عوام نہ انہیں دین سے مطلب ہے نا دین کے احکام سے واسطہ۔ ایک طرف سیاسی لیڈران اور نیتا صاحبان انہیں جس طرح چاہتے ہیں اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔
نوجوان نسل کہیں نہ کہیں ارتدادی اور عریانی رجحان لے کر زندگی گزر بسر کر رہی ہے۔ یہاں کے لوگ بس خوشی، غم کے موقع پر میلاد پاک منعقد کرکے دھواں دھار تقریر، اور گویوں کو سننا ہی اسلام سمجھتے ہیں۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سرزمین ادھکٹ مولویوں کی سرزمین ہے۔ بلکہ آپ بھی میری بات کی تصدیق کریں گے کہ ملک کے جتنے بڑے بڑے مدارس ہیں وہاں سے ہر سال اچھی پوزیشن سے فارغ ہونے والے علماء، فضلا کی ایک بڑی جماعت اسی خشک سرزمین سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اب آپ مجھ سے کہیں گے کہ یہ چراغ تلے اندھیرا کیوں؟
میرے ناقص تجزیہ کے بعد اس کی بعض تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
پہلی بات تو یہ کہ فکر معاش اپنے آپ میں ہی ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور اسی فکری کشمکش کی وجہ سے ہمارے باصلاحیت علما اپنے مطابق جگہ تلاش کرتے ہیں۔ جہاں ان کی صلاحیت کی واقعی قدر ہو۔ اور معاشی مسئلے سے بھی وہ قدرے مطمئن ہوں۔
لہذا اس حوالے سے انہیں اپنے وطن مالوف میں جگہ نہیں مل پاتی ہے۔ پھر وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کہیں اور جاکر کرتے ہیں۔ لہذا اس خالی میدان میں جبہ و عمامہ پہن کر نیم ملاؤں کی ٹولی اترتی ہے اور خطرہ ایمان بن جاتی ہے۔ پورے سال اہل زر پیروں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ خود ہمارے بے چارے عوام بھی انہیں کو علم و ادب کے تاجور اور اسلام و سنیت کے محافظ تصور کرتے ہیں۔
اور دوسری بات: کہا جاتا ہے کہ جسے بدبو سونگھنے کی لت لگ گئی ہو اسے خوشبو راس نہیں آتی۔ یہی حال ہمارے یہاں کے عوام کا بھی ہے۔ ان کے سامنے وہی چیخنا، چلانا ہونا چاہیے تو معاملہ بالکل ٹھیک ہے۔
اگر کوئی مقرر اکیڈمک اسٹائل میں تقریر کردے تو اسے یہ لوگ مولانا بھی کہنا بے جا سمجھتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو نہیں معلوم کہ ”تحریک، تنظیم“ کس پرندے کا نام ہے؟ اور ”فکر و عمل“ کس چڑۓ کو کہا جاتا ہے؟
کہنے کو بہت کچھ ہیں۔ تاہم اس تجزیے کے بعد جس نتیجے پر ہم پہنچے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بدحالی کی سب سے بڑی وجہ مقتدر علماء کی عوام سے دوری ہے۔ زمینی سطح پر آکر ان کے فرسودہ اور بوسیدہ مزاج کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
ہمارے گاؤں (ریاں پور، ضلع کٹیہار بہار) میں حضرت مجمع البحرین علامہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی مصباحی کٹیہاری دام ظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ رشیدیہ جون پور شریف نے زمینی سطح پر کام کرنے کے حوالے سے 2015 میں ایک دینی تنظیم “مصطفائی کلب (Club) کی بنا ڈالی۔ الحمدللہ! حضرت میرے ہی گاؤں کے ہیں۔ بایں سبب ان کی صحبت بافیض میں رہنے کا شرف اس ناچیز کو ملتا رہتا ہے۔
مصطفائی کلب بظاہر ایک لائبریری کی شکل میں قائم ہوا۔ البتہ گاؤں بھر میں اس کے ذریعے نہایت ہی محدود وسائل و اسباب کے ساتھ فلاحی، رفاہی کام انجام پذیر ہوتا رہا۔ کلب کا یہ کام گاؤں میں بہت مقبول بھی ہوا۔ کلب ابھی اپنے نشاۃ ثانیہ کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ریاں پور عیدگاہ کے احاطے میں اس کے آفس اور لائبریری کی عمارت بھی قائم ہے۔
اب ادھر سے مروجہ خرافات کے سد باب کے لیے گاؤں بھر میں کلب کے زیر اہتمام مہم چلائی جارہی ہے۔ اور ہندی لٹریچر شائع کرکے گھر گھر تک پہنچایا جارہا ہے۔ لوگوں سے قریب ہونے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہفتہ وارانہ اجتماع بھی شروع کروایا گیا ہے۔ جس میں مسائل اور احکام کو پریکٹیکل سمجھایا جاتا ہے۔
الحمدللہ! اس کا بہترین تاثر پورے گاؤں میں جارہا ہے۔ لیکن یہ جان کر آپ کو بہت حیرانی ہوگی کہ اس کے متحرک اور فعال کارکنان میں سے مدرسہ بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اکثر، حضرت مجمع البحرین کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے والے گاؤں ہی کے نوجوان لڑکے ہیں۔ اور اس کام کو لے کر ان کا قلندارانہ مزاج نہایت ہی تعجب خیز ہے۔ میں بھی کلب سے جڑا ہوں۔اور الحمدللہ اپنے حصے کا کام خداوند تعالیٰ کی توفیق سے جس قدر بھی ہو، کررہا ہوں۔
ابھی شب برات کی شب عم مکرم غلام نورانی (مصطفائی کلب کے رکن ہیں) نے ہمیں کال کرکے ہم سے مسجد میں آکر عبادت وغیرہ کرنے کو کہا۔ پہلے تو میں نے بعض وجوہات کی بنا پر انکار کیا۔ پھر ان کے پیہم اصرار پر جب مسجد پہنچا۔ تو 20-25 لوگ مسجد میں حاضر تھے۔ افسوس کہ وہاں کوئی ایک بھی گاؤں کا عالم دین یا ان کا رہ نما نہیں تھا۔ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا۔
بہرکیف! اندر داخل ہوا۔ 11 بجے تک اوراد اذکار کۓ گئے۔ پھر اجتماعی دعا ہوئی۔ دعا خوانی کے بعد حاضرین کے قافلہ نے گاؤں کے قبرستانون میں گھوم گھوم کر فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب کیا۔ اس منظر کو دیکھ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
نوجوانوں کے دینی جذبات کو دیکھ کر میرا سینہ چوڑا ہوا جارہا تھا۔ دین و ملت کے بابت لوگوں کے متجسسانہ افکار سے بہت خوشی ہوئی۔ راستے میں غلام نورانی چچا نے بتایا یہ جو منظر آپ دیکھ رہے ہیں کلب کا نتیجہ ہے۔
یہ سن کر واقعی مجھے احساس ہوا کہ غلطی ہماری ہے کہ ہم عوام سے دور ہورہے ہیں۔ اور یقیناً کلب کے ذریعے سے جو بیداری آئی ہے وہ لائق تقلید اور قابل تحسین ہے۔ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو دین سے جوڑنا۔ ان کے ذہنی شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور میں یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہوں کہ یہ علاقے بھر میں ایک مثالی تنظیم ہے۔
یہاں میں بالخصوص اپنے مقتدر علماء سے مخاطب ہوں کہ یقینا ذاتی مسائل ہر ایک کی زندگی کا لازمہ ہے۔ تاہم بعض جرات مند علما کو کھڑا ہونا ہوگا۔ زمینی سطح پر آکر کام کرنا ہوگا۔ عوام سے قریب ہوکر ان کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھنا ہوگا۔ اور نشتر لگا کر دم فاسد کو نکالنے کی سعی کرنی ہوگی۔
اس سرزمین کا بھی تو آپ پر حق ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ کام کے حوالے سے یہ ایک بنجر زمین ضرور ہے۔ تاہم بنجر زمین کو زرخیز بنانا یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ اور ویسے بھی دین کا کام بہت صبر آزما کام ہے۔
شکوہ و شکایت کے بہتے دریا سے کنارہ کشی کرتے ہوئے۔ اخلاص اور استقلال کے ساتھ فقط کام کے دامن کو تھامنا ہوگا:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
Pingback: حسن پیش کش کی عصری معنویت ⋆ نشاط رومی
Pingback: اہل مساجد و مدارس تبلیغی ذمہ داری بھی ادا کریں ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی
Pingback: حافظ ملت کا نظریہ صحافت ⋆ نشاط رومی
Pingback: نام میں کیا رکھا ہے ⋆ حیدر رضا
Pingback: اتراکھنڈ سے مسلمانوں کی ہجرت ⋆ محمد حیدر رضا
Pingback: بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے ⋆ اردو دنیا
Pingback: صحافت کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار ⋆ اردو دنیا
Pingback: شعری مجموعہ وفا کے پھول کے تناظر میں ⋆
Pingback: اگر صحافت صالح مقصد کے ساتھ ہو تو یہ عبادت ہے ⋆ اردو دنیا